اشرف غنی کا دورہ پاکستان
افغان صدر اشرف غنی کے حا لیہ دورہ پا کستان کے موقع پر پاکستانی، افغا نی اور مغر بی میڈیا کا رویہ انتہا ئی امید افز رہا۔ خود افغانستان کے ایک بڑے نشر یا تی ادارے طلوع نیوز کے مطا بق اگر چہ سابق افغا ن صدر حامد کر زئی نے 20سے زائد مر تبہ پا کستان کے دورے کئے، مگر چونکہ حامد کر زئی کے ویژن یا سوچ میں پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے لئے خا ص گنجا ئش نہیں تھی، اس لئے ان کے دور میں پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر نہ ہو پائے، جبکہ ڈاکٹر اشرف غنی اس با ت پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کئے بغیر افغانستان میں بھی امن ممکن نہیں۔ جغرا فیائی، تہذ یبی، ثقافتی، تا ریخی ،نسلی اور لسانی اعتبار سے اس قدر قربت اور مماثلت کے باوجود پا ک افغان تعلقات صحیح معنوں میں کبھی بھی بہتر نہیں ہو پا ئے۔دونوں طرف کی ریا ستی پالیسیاں ان تعلقات کی راہ میں حا ئل رہیں ۔اگر ہم پاک افغان تعلقا ت کا ایک طا ئرانہ جا ئزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلا ف استعمال ہوتے رہے۔کشیدگی کا آغاز اسی وقت ہو گیا جب افغانستان واحد ایسے ملک کے طور پر سامنے آیا جس نے اقوام متحدہ کی رکنیت کے لئے پا کستان کی مخا لفت کی اور پھر 50ء اور 60ء کی دہا ئیوں میں پختونستان کا شوشہ سامنے آیا کہ جس کے تحت صوبہ خیبر پختونخوا کو پا کستان سے علیحدہ کر نے کی با ت کی گئی۔ افغانستان نے کھلم کھلا پختونستان کی حما یت کی، حتیٰ کہ افغان پارلیمنٹ میں پاکستانی پختون نمائندوں کے لئے با قا عدہ نشستیں رکھی جاتی تھیں۔
یہ وہ زما نہ تھا کہ جب کابل حکومت بھا رت کے ہا تھوں پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی رہی، جس طرح پختونستان کی حما یت کر کے افغانستان، پا کستان میں دراندازی کا ار تکاب کر رہا تھااِسی طرح 70ء کی دہا ئی کے آخر میں پا کستان کی جا نب سے بھی افغان معاملات میں کھلم کھلا مداخلت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ حقیقت اب تا ریخ کے سینے میں محفوظ ہو چکی ہے کہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے افغانستان کے صدر داؤد سے مطالبہ کیا کہ ڈیورنڈ لا ئن کو مستقل سرحد کا درجہ دینے کے حوالے سے باقا عدہ ایک معا ہدہ کر لیا جا ئے مگر داؤدکی جانب سے انکار کرنے پر بھٹو صاحب ہی کے دورِ حکومت میں افغان حکومت کے مخا لف گلبدین حکمت یا ر کی با قا عدہ پشت پنا ہی شروع کر دی گئی۔ حالا نکہ تب تک سوویت یونین افغانستان پر قا بض بھی نہیں ہوا تھا۔سردار داؤد کا تختہ الٹا جا نے کے بعد جب کابل میں با قا عدہ روس نواز حکو متیں براجمان ہونا شروع ہوئیں اور 1979ء میں خود سوویت یونین افغانستان پر قابض ہوا تو پھر امریکی ایما پر افغانستان کے معاملات میں پاکستان کی مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔افغانستان سے روسی افواج کے انخلا کے با وجود پا کستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کی جانب سے مختلف افغان دھڑوں کی ما لی اور عسکری امداد کے نتیجے میں بر پا ہو نے والی خانہ جنگی سے افغانستان کو جس قدر نقصان ہوا اس کی تلافی شائد آنے والے کئی عشروں تک نہ ہو پا ئے اور پھر اس تبا ہی میں رہی سہی کسر 2001ء میں امریکی حملے نے پوری کر دی۔
بیانا ت کی حد تک دونوں ممالک کی حکومتیں یہ تسلیم بھی کر رہی ہیں پاک افغان کشیدہ تعلقا ت سے دونوں ممالک ہی خسا رے میں رہے ۔ اور اب اس خسا رے کی تلا فی کر نے کی با ت کی جا رہی ہے۔افغان صدر اشرف غنی نے اپنے دورہ پا کستان کے دوران یہ دعویٰ کیا کہ اب ہم اپنے ماضی کو ہی بنیا د بنا کر اپنے مستقل کو برباد نہیں کر یں گے۔ غنی ہی کے دعوے کے مطا بق 13سال کی رکا وٹوں کو ہم نے صرف تین دنوں میں ہی عبور کر لیا ہے۔ اشرف غنی کا یہ دعویٰ انتہا ئی امید افزا ہے۔ ان کی با توں کی اہمیت اس لئے بھی زیا دہ ہے کہ اپنے اس دورے سے پہلے پا کستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف، آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر اور قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز نے بھی افغانستان کے دورے کئے ۔ دونوں ممالک ان دوروں کو کا میا ب بھی قرار دے چکے ہیں، جبکہ دوسری طرف اشرف غنی نے پاکستان کے دورے سے پہلے سعودی عرب اور چین کے دورے کئے۔ امریکی اخبار دی وال سٹر یٹ جرنل نے افغان عہدیداروں اور سفا رتی اہلکاروں کی جانب سے دی گئی معلو ما ت کوبنیا د بنا کر یہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ اشرف غنی نے پا کستان سے پہلے چین کا دورہ اس لئے کیا، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ چین اور پا کستان سٹرٹیجک حلیف ہیں، اس لئے پا کستان کے ساتھ معا ملا ت کے حل کے لئے ان کی جا نب سے چین کے دورے کو خا ص اہمیت دی گئی۔
تا ہم ان امید افزا با توں کے با دجود دونوں ممالک کے ما بین بعض ایسے امور ابھی بھی حل طلب ہیں کہ جن کو حل کئے بغیر دونوں ممالک کے مابین اچھے تعلقات کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ ان حل طلب امور میں سب سے اہم مسئلہ دہشت گردوں اور ان کی پنا ہ گا ہوں کا ہے۔ اشرف غنی کے پیش رو حامد کرزئی کھلے عام پاکستان پر یہ الزام عا ئد کرتے آئے ہیں کہ حقا نی نیٹ ورک افغانستان میں دہشت گر د کارروائیوں کے لئے پاکستانی سر زمین کو استعمال کرتا ہے۔ حامد کرزئی کے اس دعویٰ کو مغربی میڈیا کا ایک بڑا حصہ بھی حما یت فرا ہم کرتا آیا ہے۔ اس حوالے سے اسی ماہ امریکی کانگرس کو دی جانے والی پینٹاگون رپورٹ میں بھی یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پا کستان بھارت کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بھی دہشت گردی کے حوالے سے کئی گروپس کو حما یت فراہم کر رہا ہے۔ تاہم اس رپورٹ میں کئے گئے دعوے کی اس وقت نفی سامنے آگئی کہ جب خود افغانستان میں موجود امریکی فوج کے ایک سینئر کما نڈرجو زف اینڈرسن نے واضح الفاظ میں یہ کہا کہ پاکستانی فوج کی جا نب سے کئے جا نے والے آپریشن ضر بِ عضب کے با عث حقا نی نیٹ ورک بھی متاثر ہوا ہے اور اس سے حقا نی نیٹ ورک کی افغانستان میں سرگرمیاں بھی متا ثر ہو کر رہ گئی ہیں،جبکہ دوسری طرف افغانستان کے صوبوں کنار، نورستان اور پکٹیکا میں تحر یک طالبا ن پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ سمیت کئی اہم کمانڈرز کی مو جو دگی کے وا ضح شوا ہد پا ئے جا تے ہیں۔ پاکستان حا مد کرزئی سے کئی مرتبہ ٹی ٹی پی کے ان کمانڈرز کے خلا ف کا رروائی کا مطا لبہ کر چکا ہے۔
ڈاکٹر اشرف غنی کے حا لیہ دورہ پا کستان کے موقع پر میڈیا کے سامنے نہ ہی اشرف غنی نے پاکستان میں حقا نی نیٹ ورک کے ٹھکانوں کی با ت کی اور نہ ہی نواز شریف نے افغا نستان میں موجود ٹی ٹی پی کے ٹھکا نوں کا ذکر کیا۔مگر دونوں جانب کی حکو متوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا مسئلہ دونوں ممالک کے تعلقا ت میں ایک بڑی رکا وٹ ہے۔اگرچہ پاکستان متعدد مرتبہ یہ اعلان کر چکا ہے کہ اب افغانستان کے فیصلے کا بل میں ہی ہوں گے اور پاکستان اب افغا نستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے سے مکمل طور پر گریز کرے گا تو دوسری طرف افغا نستان کو بھی یہ ثا بت کر نا ہو گا کہ جس طرح افغانستان کے امن کا دشمن پا کستان کا دشمن ہے اِسی طرح پا کستان کے امن کا دشمن افغا نستان کا بھی دشمن ہے، چونکہ ان دونوں مما لک کے مابین جغرا فیا ئی، تہذ یبی، نسلی اور لسانی رشتے اتنے نز دیکی ہیں کہ قیا م پا کستان سے بھی پہلے صدیوں کی تا ریخ یہ ثا بت کر تی ہے افغا نستان میں بدامنی اور سیاسی انتشار کا اثر وادی سندھ(موجودہ پاکستان) میں ہو تا ہے، اِسی طرح وادی سندھ (پاکستان) میں سیاسی انتشار اور بد امنی افغانستان پر بھی کسی حد تک اثر انداز ہو تی رہی ہے۔دونوں مما لک کے حکمران طبقا ت بیا نات کی حدتک تو اس حقیقت کو تسلیم کر چکے ہیں، مگر اس حوالے سے جب تک عملی اقدامات نہیں کئے جا تے تب تک کسی بہتری کی امید رکھنا سراسر خام خیالی ہو گی۔ *