بنگلہ دیش کا مردِ مومن : علی احسن مجاہد شہید

بنگلہ دیش کا مردِ مومن : علی احسن مجاہد شہید
بنگلہ دیش کا مردِ مومن : علی احسن مجاہد شہید

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

22نومبر2015ء کو ڈھاکہ سنٹرل جیل میں تختۂ دار پر شہادت پانے والے علی احسن محمد مجاہد شہید کا خونِ ناحق ظالم قاتلہ اور اس کے ظالم ٹولے کو دنیا میں بھی رسوا کرے گا اور آخرت میں عدل العادلین کی عدالت میں بھی وہ قاتل پوری خلق خدا کے سامنے اپنے ظلم کی پاداش میں عذاب الیم سے نہیں بچ سکیں گے۔ علی احسن محمد مجاہد دورِ جدید کی عظیم اسلامی شخصیات میں بہت نمایاں اور ممتاز مقام کے حامل ہیں۔

انہوں نے بچپن سے جوانی تک اور پھر جوانی سے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک اللہ کے دین کی سربلندی، نبئ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے احیا اور بنی نوع آدم کی بے لوث خدمت کے لئے ناقابل فراموش خدمات سرانجام دیں۔ علی احسن مجاہد کون تھا؟ ایک دنیا اسے جانتی ہے۔ وہ ایک نایاب ہیرا تھا، مگر بدبخت حسینہ واجد نے دیگر عالی مقام اسلامی شخصیات کی طرح اس عظیم فرزند اسلام کو بھی تختۂ دار پر لٹکادیا۔

وہ عشقِ مصطفیٰ کا دیوانہ تھا، وہ خالقِ باری کا اطاعت شعار بندہ تھا، وہ تو زندۂ جاوید ہوگیا، مگر انسانیت کے ناقابل تلافی نقصان کی ذمہ دار یہ ظالم خونخوار دیوی اللہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکے گی۔ اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ۔


مشرقی پاکستان کے ضلع فریدپور میں 23؍جون1948ء کو عالم ربانی مولانا محمدعبدالعلی کے گھر میں ایک بچے نے آنکھ کھولی، جس کا نام علی احسن محمد مجاہد رکھا گیا۔ مجاہد بھائی نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے میں حاصل کی۔ گھریلوماحول، دینی اور تحریکی تھا۔ مولانا محمدعبدالعلی جماعت اسلامی کے مقامی رہنما اور علاقے میں دینی شخصیت کے طور پر معروف ومقبول تھے۔ جماعت اسلامی ضلع فرید پور کے برسوں تک امیر رہے۔

ان کی شخصیت اتنی مقبول تھی کہ جماعت اسلامی کی مخالف پارٹیوں کے لوگ بھی ان کا خطبہ سننے کے لئے ان کی مسجد میں آیا کرتے تھے۔ علی احسن محمد مجاہد نے سکول کے زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ (اسلامی چھاتروشنگھو) کی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا اور بہت جلد ترقی کی منازل طے کیں۔

راجندرو ڈگری کالج فریدپور میں تعلیم کے دوران وہ ضلع فرید پور کی جمعیت کے ناظم منتخب ہوئے۔مجاہد بھائی 1970ء میں فرید پور سے ڈھاکہ آئے اور ڈھاکہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ ڈھاکہ میں (مولانا) سردارعبدالسلام جمعیت کے ضلعی ناظم تھے، جن کے ساتھ ایک سیشن میں مجاہد بھائی نے معتمد ضلع(سیکرٹری) کے طور پر کام کیا۔

اگلے سال وہ ناظم منتخب کئے گئے۔ اس زمانے میں مرکز میں محترم مولانا مطیع الرحمن نظامی اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوگئے تھے۔ اس دوران علی احسن محمد مجاہد مشرقی پاکستان جمعیت کے صوبائی ناظم منتخب ہوئے۔


1971ء میں مجاہد بھائی مشرقی پاکستان جمعیت کے صوبائی ناظم تھے، جب انڈیا نے مشرقی پاکستان میں اپنی فوجیں داخل کردیں اور مکتی باہنی کے درندہ صفت مہم جو اور علیحدگی پسند مسلح دستوں کے ساتھ مل کر پاکستان کو دولخت کرنے کا منصوبہ شروع کیا۔

پاک فوج نے دشمن کا مقابلہ کیا، مگر غیروں کی سازشوں اور اپنوں کی بے وفائیوں اور خودغرضیوں کے نتیجے میں بھارت کی1965ء کی جنگ میں شکست خوردہ فوج اپنا بدلہ لینے میں کامیاب ہوگئی۔ دنیا کی سب سے بڑی اور اسلام کے نام پر بننے والی ریاست پاکستان کو دولخت کردیا گیا۔ اس عرصے میں تمام محب وطن عناصر نے بھارتی حملہ آوروں اور علیحدگی پسند عناصر کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ جنرل نیازی کے ہتھیار ڈال دینے کے نتیجے میں پاک فوج اور سرکاری ملازمین تو انڈیا کی جیلوں میں چلے گئے۔ پاکستان کے بنگالی محب وطن عناصر اب حالات کے رحم وکرم پر تھے۔

اس عرصے میں اسلامی جمعیت طلبہ بھی منظرعام سے غائب ہوگئی، مگر اس کا کام ختم نہیں ہوا۔ علی احسن محمد مجاہد حکمت و خاموشی کے ساتھ جاری سرگرمی کے دوران 1972ء میں اسلامی جمعیت طلبہ (اسلامی چھاتروشنگھو)، جس کا نام بعد میں اسلامی چھاتروشبر رکھا گیا، کے پہلے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔

ان پرآشوب حالات میں انہوں نے جمعیت کی رہنمائی بھی کی اور ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کے قائم کردہ ایک تعلیمی ادارے آئیڈیل سکول نرائن گنج کے پرنسپل کے طور پر بھی کام کیا۔ علی احسن محمد مجاہد جمعیت سے فارغ ہوئے تو جماعت میں شامل ہوگئے۔

اس عرصے میں جب1974ء میں انڈیا، بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان سہ فریقی معاہدہ طے پایا تو جماعت اسلامی نے اپنے نام سے اپنا کام شروع کردیا۔ چھاتروشبر بھی تعلیمی اداروں میں کھل کر کام کرنے لگی۔


علی احسن محمد مجاہد جماعت کی قیادت میں نمایاں شخصیت کے طور پر سرگرم عمل ہوگئے۔ علی احسن محمد مجاہد انتہائی ذہین، سنجیدہ اور منضبط سیاسی رہنما تھے۔ سہ فریقی معاہدے کے مطابق طے پا گیا تھا کہ پاکستان نے سرکاری طور پر بنگلہ دیش کو تسلیم کرلیا ہے۔

تینوں ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کے دوران اور مابعد جو بھی امور ومعاملات وقوع پذیر ہوئے، ان کی بنیاد پر تینوں ملکوں میں سے کسی بھی ملک کے کسی شہری پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔ اگر پہلے سے کچھ مقدمات درج ہیں تو وہ کالعدم قرار پائیں گے۔

علی احسن محمد مجاہد اور ان کی پوری جماعت نے بنگلہ دیش کو اپنا وطن تسلیم کرلیا۔ جب تک بنگلہ دیش نہیں بنا تھا، تمام مشرقی پاکستانی باشندے، خواہ وہ ہندو اور عیسائی تھے یا مسلمان، متحدہ پاکستان کے شہری تھے۔ اس زمانے میں جن لوگوں نے پاکستان کے خلاف بغاوت کی، حقیقت میں وہ مجرم تھے اور جنہوں نے پاکستان کی سالمیت کو بچانے کے لئے جدوجہد کی وہ محب وطن شہری تھے۔ اب ان سارے معاملات کو دفن کردیا گیا اور یہ طے پایا کہ بنگلہ دیش کا ہر شہری یکساں حقوق کا حامل ہے۔

قاتل دیوی حسینہ نے اپنے باپ کے کئے ہوئے اس معاہدے کی دھجیاں بکھیر دی ہیں اور دنیا تو کیا اس کا فریق ملک پاکستان بھی اس پر خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے۔2006ء میں نگران حکومت کے معاملے میں بنگلہ دیشی فوج نے مداخلت کی۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ ایک سازش تھی جس میں عوامی لیگ اور بھارت دونوں ملوث تھے۔

بہرحال 2008ء کے انتخابات میں عوامی لیگ کو حکومت بنانے کا موقع ملا اور اس نے وہ سارا ڈرامہ شروع کیا، جسے پوری دنیا خاموشی سے دیکھ رہی ہے اور جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کے انتہائی اعلیٰ مقام کے حامل فرزندان اسلام جرم بے گناہی میں تختۂ دار پر لٹکائے گئے ۔

انہی میں علی احسن محمد مجاہد بھی تھے، جن کو22؍ نومبر 2015ء کو ڈھاکہ سنٹرل جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ حکومت نے شہید کے بارے میں یہ جھوٹا پراپیگنڈہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ صدر سے معافی مانگنا چاہتے تھے۔

اگرچہ حکومت کا یہ جھوٹا پراپیگنڈہ دم توڑ چکا ہے، تاہم اس سے بنگلہ دیشی حکمرانوں ا ور خونخوار دیوی حسینہ واجد کا مکروہ چہرہ مزید بدنما ہو کر سامنے آتا ہے۔ علی احسن محمد مجاہد کی شہادت پر پوری دنیا میں احتجاج کیا گیا۔ مسلم ہی نہیں، غیرمسلم دانش ور اور اہلِ قلم بھی اس ظلم کے خلاف سراپا احتجاج بن گئے۔


علی احسن محمد مجاہد کا آخری پیغام جو پوری دنیا میں پہنچ چکا ہے حکومتی جھوٹ کا بھانڈا پھوڑنے کے لئے کافی ہے۔ سزائے موت کا فیصلہ سننے کے بعد شہید نے جیل سے جو پیغام بھیجا، وہ ان کے بیٹے علی احمدمبرور نے من وعن سوشل میڈیا پر جاری کیا۔

اس کے ایک ایک لفظ سے اس بندۂ مومن کی عظیم شخصیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ آپ بھی ان کا یہ پیغام پڑھیے جس سے ایمان تازہ ہوجاتا ہے۔

یوں معلوم ہوتا ہے کہ کال کوٹھڑی سے نورانی کرنیں روشنی بکھیر رہی ہیں: ’’الحمدللہ میں اس انتہائی سزا کے اعلان پر ذرّہ برابر پریشان نہیں ہوں، جسے حکومت نے اپنی بدترین دشمنی کی تسکین کے لئے سنایا ہے۔ میرے فاضل وکلائے کرام نے مقدمے کی پیروی میں قابل تحسین محنت کی ہے اور سپریم کورٹ کے بنچ کے سامنے اس سچائی کو پوری قوت اور مہارت سے پیش کیا ہے، جو میری بے گناہی کی دلیل ہے۔

میں یقین کامل رکھتا ہوں کہ میرے خلاف گھڑے گئے مجرمانہ الزامات کی سرے سے کوئی حقیقت نہیں ہے، کجا یہ کہ ان کی بنیاد پر کوئی سزا سنائی جائے۔ حکومتی استغاثہ الزامات ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔

اسی طرح اس مقدمے کے تفتیشی افسر تک نے اعتراف کیا ہے کہ 1971ء کی جنگ کے دوران میں، مَیں مذکورہ کسی بھی الزام یا جرم میں ملوث نہیں پایا گیا، مگر اس کے باوجود میں عدل سے محروم رکھا گیا ہوں۔

اس ماحول میں، میں جانتا ہوں کہ میرا اللہ ہی میرا گواہ ہے۔ میں واشگاف لفظوں میں اعلان کرتا ہوں کہ مجھ پر عائد کردہ الزامات سوفیصد جھوٹے، جعلی اور بدنیتی پر مبنی ہیں۔ مجھے الزامات اور کردار کشی کی اس یلغار کا نشانہ صرف ایک بنیاد پر بنایا جارہا ہے اور وہ یہ کہ میں تحریک اسلامی کا کارکن ہوں۔

میرا ایمان ہے کہ ایک بے گناہ کا قتل، تمام انسانیت کا قتل ہے۔ میں نے زندگی بھر کسی فرد کو نہ قتل کیا ہے اور نہ کسی ایسے گھناؤنے فعل کا شریک جرم رہا ہوں۔ سن لیجیے، میں اپنی زندگی کے ہرلمحے میں، اللہ کے دین کی خدمت اور سربلندی کے لئے اپنی جان دینے کے لئے تیار تھا اور تیار ہوں۔ اللہ ہی میرا حامی ومدد گار ہے۔۔۔علی احسن مجاہد

مزید :

کالم -