میری قنوطیت کا سبب یہی تو ہے!

میری قنوطیت کا سبب یہی تو ہے!
 میری قنوطیت کا سبب یہی تو ہے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بعض اوقات میری سوچیں قنوطیت کی حدوں کو چھونے لگتی ہیں اور بڑے ہاتھ پاؤں مار کر اس گرداب سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔ لگتا ہے خدا نے ساری مسلم اقوام سے دوراندیشی کی صفتِ خاص ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھین کر غیر مسلم اقوام کے ہاتھوں میں دے دی ہے۔

کون سا ایسا شعبہ ہے جس میں مسلمان، غیر مسلموں سے آگے نکل گئے ہیں؟ دنیا اور آخرت کا جو تصور خدا نے قرآنِ کریم میں ہمیں عطا کیا تھا اس کو قرونِ وسطیٰ تک ہی زیر استعمال رکھا گیا اور اس کے بعد ہم نے اس سے ایسا قطع تعلق کر لیا کہ اس کا تسلسل آج تک جاری وساری ہے۔


جو غیر مسلم مغربی اقوام آج ترقی یافتہ اور ماڈرن کہلا رہی ہیں وہ گویا اس فضائے نیلگوں میں آسمانِ پنجم یا ششم تک جا پہنچی ہیں اور ہم ابھی تک آسمانِ اول میں ہی ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں ۔معلوم ہوتا ہے اقبال نے مسلمان ہوتے ہوئے بھی درجِ ذیل قسم کے اشعار کو غیر مسلموں کے نام کر دیا تھا:


بالائے سر رہا تو ہے نام اس کا آسماں
زیرِ پر آ گیا تو یہی آسماں، زمیں
تو اپنی سرنوشت اب اپنے قلم سے لکھ
خالی رکھی ہے خامہء حق نے تری جبیں
مسلم ممالک کی تعداد چار درجن سے زیادہ ہے ۔ فطرت نے پاکستان کو بظاہر بہت سے بے مثال عطیات (Unique Gifts)عطا کر رکھے ہیں۔ اس کی لوکیشن، آبادی، انفرادی ٹیلنٹ ، اجتماعی آئی کیو، تاریخی ورثہ، جغرافیائی خصائص، افواجِ ثلاثہ، جوہری استعداد اور دینِ مصطفیؐ کا والہانہ عشق سب کے سب اس کے حال کی خوشحالی اور مستقبل کی مرفع الحالی کی ضمانت تصور ہو سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارا حال بدحال ہے اور مستقبل کی زبوں حالی ہمارے سامنے ہے۔

حکومت کسی اور صفحے پر ہے اور عوام کسی اور ورق پر۔ سیاستدانوں کا رخ مشرق کو ہے تو ملک کی الیٹ مغرب کی طرف قبلہ رو ہے۔ ایک اوسط فہم و فراست کا حامل پاکستانی یہ سب تماشا اپنے سامنے برپا ہوتے دیکھ رہا ہے اور بے بس ہے۔ دسمبر 1971ء میں جب ہم پورے پاکستان کے مالک تھے تو یہی حال تھا اور آج ماہِ دسمبر 2017ء کہ جو آٹھ دس روز کی دوری پر رہ گیا ہے، اس میں اس آدھے پاکستان کو بھی آج سے 45برس پہلے والی صورتِ حال درپیش ہے۔۔۔ میری قنوطیت کا سبب یہی تو ہے!


قائداعظم نے جو پاکستان ہمیں دیا تھا وہ نہرو کے بھارت سے زیادہ پس ماندہ نہ تھا۔ لیکن آج بھارت کہاں ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہمارا ایک طبقہ ء آبادی دوسرے کا دشمن ہے۔ پچھلی نسل کی سوچ اور ہے اور اگلی نسل کی فکر بالکل مختلف ہے۔ میں جب اس حقیقتِ موجود کا ذکر کسی یار دوست سے کرتا ہوں تو وہ اس بلائے ناگہانی کے اسباب گنوانے لگ پڑتا ہے۔ کوئی کہتا ہے مارشل لاؤں کی تکرار نے یہ دن دکھایا ہے تو کوئی سیاستدانوں کی ہوسِ زر کی مثالیں کوٹ کرنے بیٹھ جاتا ہے، کوئی دشمن ہمسایوں کی ظاہرا اور پوشیدہ سازشوں کا پٹارا کھول دیتا ہے تو کوئی ان ہمسایوں کے اتحادیوں کی چیرہ دستیوں کا شاکی ہے۔ کوئی اچھی نیتوں کے فقدان کا رونا رونے بیٹھ جاتا ہے تو کوئی بُری حکمرانی پر برسنے لگتا ہے۔۔۔ ایک عجیب طرح کا ماحول ہے۔۔۔پاکستان کی 21کروڑ کی آبادی گویا ایک خلا (Void) میں تیر رہی ہے۔۔۔ ایک ایسے خلائی بحرِ بیکراں میں کہ جس کا کوئی ساحل، کوئی کنارا نظر نہیں آتا۔۔۔ میری قنوطیت کا سبب یہی تو ہے!


دنیا بھر کے پرنٹ میڈیا کو پڑھنے کا موقع ملتا ہے تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ کُھرپے (Spade) کو کُھرپا ہی کہتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں یہ کُھرپا کبھی سوئی بن جاتا ہے تو کبھی تیغِ بے نیام ہو کے سامنے آتا ہے۔ گلوبل الیکٹرانک میڈیا کو دیکھنے اور سننے کا موقع ملتا ہے تو وہاں کے زیرِ بحث موضوعات و مسائل، گلوبل نقطہ ء نظر کے حامل ہیں جبکہ پاکستان کے ای میڈیا کے مسائل یا تو مقامی ہوتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ ملکی۔۔۔ یعنی علاقائی اور گلوبل موضوعات کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں۔ پاکستانی قوم میں قیدِ مقامی کا چلن عام کیوں ہے اور دیگر ترقی یافتہ اقوام میں بین الاقوامی رنگ روپ کے میلے کیوں لگے رہتے ہیں، اس کا کوئی سبب نظر نہیں آتا۔کچھ معلوم نہیں ہو پاتا کہ مسلم امہ نے کہاں ٹھوکر کھائی ہے۔

اور اگر صدیوں پہلے کھائی بھی تھی تو اس کا محیط اتنا بے کنار کیوں ہے کہ اس کا ابھی تک کوئی مداوا ہی نہیں ہو سکا۔ آج بہت سی اقوام اپنی تنگ فضاؤں سے نکل کر عقابوں اور شاہینوں کی طرح خلاؤں کی وسعتوں کی جانب محوِِ پرواز ہیں اور ہم مرغیوں اور بطخوں کی طرح اپنے گھر کی دیوار پھلانگ کر باہر کسی گلی میں نکلنے کی بجائے کسی دروازے کے کھلنے کے منتظر رہتے ہیں۔ ہم نے بڑے طمطراق سے آزادی کا نعرہ لگایا تھا لیکن جوں جوں وقت گزرا ہم دو قدم آگے بڑھے تو دس قدم پیچھے ہٹتے چلے گئے۔


چلو ہم چین کی طرف نہیں دیکھتے کہ ہم ان کے ساتھ کبھی مل جل کر نہیں رہے لیکن بھارت کی طرف تو نگاہ جاتی ہے۔ کیا ہم 712ء سے لے کر 1947ء تک ہندوستانی اقوام کے ساتھ مل جل کر نہیں رہے؟۔۔۔ کیا ہم نے 800برس تک غیر مسلم ہندوستان پر حکمرانی نہیں کی؟ کیا ہمارے ہاں آج بھی ذات پات کی تمیز کا کیف و کم وہی نہیں جو آج بھی بھارتیوں کا طرۂ امتیاز کہلاتا ہے؟۔۔۔ کیا ہماری پس ماندگی کا سبب ہماری ثقافت، روایات، مذہبی عقائد اور نسلی خصوصیات کی کم مائگی ہے؟۔۔۔ کیا مسلمانانِ پاکستان کے دلوں میں احساسِ زیاں مردہ ہو چکا ہے؟۔۔۔ اور کچھ نہیں تو بھارت کی سالانہ GDP کو ہی دیکھ لیں، ان کے داخلی امن و امان ہی پرنظر ڈال لیں، ان کی صنعتی، زرعی اور ٹیکنالاجیکل رفتارِ ترقی ہی پر نظر دوڑا لیں اور سوچیں کہ کیا ہم ان سے آگے نکل رہے ہیں یا پیچھے رہے جا رہے ہیں؟۔۔۔ ان کے خلائی پروگراموں کی تفاصیل دیکھیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ کیا یہ وہی بھارت ہے جس کو ہم نے 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں کہیں پیچھے چھوڑ دیا تھا؟ آپ شائد یہ کہیں کہ ان کے ساتھ تو امریکہ ہے جو دنیا کی واحد سپرپاور ہے اس لئے وہ بھارت کی مدد کر رہا ہے اور مستقبل میں بھارت کو چین کا حریف بنانے کا عزم کر چکا ہے۔

لیکن ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ۔ بھارت گٹھ جوڑ محض ایک وقتی ابال ہے جو کچھ برسوں میں جب چین بحرہند میں آ دھمکا تو یہ گٹھ جوڑ جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا۔ پھر اچانک ہی یہ خیال بھی آتا ہے کہ یہ ابال پاکستان میں کیوں نہ آیا۔

ہم بھی تو سالہا سال امریکہ کے نان نیٹو اتحادی رہے، ہم بھی تو اس کی خارجہ پالیسی کا کارنر سٹون تھے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ ہم من حیث القوم عقل کے اندھے لوگ ہیں، ہمیں مردم شناسی کا سلیقہ نہیں؟ ہم کبھی ایک راہرو کے ساتھ چل نکلتے ہیں تو کبھی دوسرے کے ساتھ اور 70برس کی عمر میں بھی آج تک ہمیں راہبر کی پہچان نہیں ہوئی۔۔۔ میں جب ان حقائق کو دیکھتا ہوں اور اپنی قوم کی ناکامیوں پر نگاہ جاتی ہے تو سخت مایوسی کا دورہ پڑنے لگتا ہے ۔۔۔اورمیری قنوطیت کا سبب یہی تو ہے۔

بظاہر ہمارے تعلیمی اداروں میں طلباء اور طالبات کے جم غفیر ہیں، ہم بحثوں اور مباحثوں میں کسی کو آگے نہیں نکلنے دیتے، ملک سے باہر جاتے ہیں تو ہمارا ایک الگ تشخص اور ایک برتر معیار بن جاتا ہے لیکن جب بن جاتا ہے تو ہم اپنی اصل کو بھلا دیتے ہیں۔

کوئی کوشش نہیں کرتے کہ جو کچھ ولائت میں پاتے ہیں، وہی اپنے دیس میں بھی پانے کی کوئی سبیل کریں۔ امریکی، برطانوی، جرمن، فرانسیسی، پرتگیزی اور دلندیزی سالہا سال تک اپنے اپنے وطن سے باہر جا کر نئی دنیائیں دریافت کرتے رہے لیکن اپنے دیس کو نہیں بھولے۔

نئے ملکوں میں جو چیز نئی دیکھی اس کو اپنے ہاں آکر رائج کر دیا۔ اپنی ذات کا نہیں، ملک اور قوم کا سوچا۔۔۔ کس کس کی مثال دوں؟۔۔۔ ان استعماری قوتوں کے اربابِ اختیار کی داستانوں سے کتب خانے بھرے پڑے ہیں۔ لیکن خلافتِ عباسیہ اور خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد مسلمان جہاں بھی گئے،موجد کی جگہ مقلد بننے کو ترجیح دی۔

ذرا آج دنیائے جدید پر نظر ڈالیں، کون سی ایجاد ہے جس پرمسلمانوں کا نام لکھا ہے؟ سب نام غیر مسلموں کے ہیں۔ ہم مسلمانوں کا مایہ ء افتخار ماضی کے دھندلکوں میں کہیں کھویا ہوا ہے۔

وہ مسلمان جہانِ کہنہ کے باسی تھے۔ لیکن آج ایک جہان تازہ ہمارے سامنے ہے جس کی بنیادوں یا اٹھان یا تزئین و آرائش میں ہم مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں۔ ہم جدھر نظر اٹھاتے ہیں ، مغرب ہی مغرب نظر آتا ہے۔ مشرق اور اسلام کہیں نہیں۔۔۔ اور یہی حقیقت میری قنوطیت کا سبب ہے!

مزید :

کالم -