خورشید شاہ کو سزا کیوں ملے گی

خورشید شاہ کو سزا کیوں ملے گی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سیاست کے کھیل کی ایک خوبصورتی یہ بھی ہے کہ اس کا کوئی اختتام نہیں ہے۔ جہاں سے کھیل ختم ہونے لگے وہاں سے ایک نئی شروعات ہو جاتی ہے۔ کئی سال قید رہنے کے بعد آصف علی زرداری ملک کے صدر بن سکتے ہیں۔ کئی سال جلاء وطن رہنے کے بعد میاں نواز شریف تیسری بار وزر اعظم بن سکتے ہیں۔ طاقتور ترین صدر جنرل (ر) پرویز مشرف غداری مقدمہ میں ٹرائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ جاوید ہاشمی دوبارہ ن لیگ کی طرف جا رہے ہیں۔ گورنر چودھری سرور حکومت کی ناقص کارکردگی پر پے درپے بیان دینے اور لندن پلان کا حصہ ہونے کے باوجود ہر روز وزیر اعظم کو مل رہے ہیں۔ڈاکٹر طاہر القادری اپنا دھرنا موخر کر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے خیبر پختونخوا میں وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد موخر کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان شراکت اقتدار کے بعدایک بارپھر علیحدگی ہوگئی ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بجلی میں صرف 29 پیسے اضافہ واپس لینے کا اعلان کر دیا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ پٹرول بھی پانچ روپے سستا کیا جا رہا ہے۔ سیاست میں موسم بدلتا رہتا ہے۔ بلکہ سیاست ایک بے یقینی کے موسم کا نام ہے۔
سیاست کے حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس میں جو نظر آتا ہے وہ ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے وہ نظر نہیں آتا ۔ اسی لئے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان جو ہو رہا ہے وہ نظر نہیں آرہا جبکہ جو نظر آرہا ہے وہ ہو نہیں رہا۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان یہ بے وقت کی راگنی کیوں شروع ہوگئی ہے۔ کیا یہ کسی گریٹ گیم کا حصہ ہے۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے تو وضاحتی پریس کانفرنس بھی کر دی تھی اور معافی بھی مانگ لی تھی لیکن یہ قبول نہ ہوئی۔ بلاول زرداری نے بھی کوئی ایسی بات نہیں کی تھی جس پر آگ اتنی بڑھ جائے۔ یہ کہنا کہ’’ میری پارٹی 2018 کے انتخابات جیت جائے گی ‘‘کوئی ایسی بات نہیں جس پر اتحاد توڑ دیا جائے۔ ماضی میں اس سے بڑی باتیں نظر انداز کر دی گئی ہیں۔
ایم کیو ایم کی سیاست بھی بالکل برسات کے موسم کی طرح ہے۔ کبھی شدید بارش، کبھی بوندا باندی، کبھی دھوپ، کبھی بادل، کبھی چھاؤں۔ ایم کیو ایم لڑائی اور صلح کرنے میں دیر نہیں لگاتی۔ اسی لئے کسی بھی خاص صورتحال میں ایم کیو ایم کے بارے میں لکھنا سب سے مشکل کام ہے۔ ابھی آپ لکھ ہی رہے ہوتے ہیں اور ایم کیو ایم صورتحال کو یکسر تبدیل کر دیتی ہے۔ اس لئے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان جو ماحول ایک روز قبل تھا وہ کل نہیں تھا، بیانات میں بھی وہ تیزی نہیں نظر آرہی۔ آغا سراج درانی ثالثی کی باتیں کرنے لگے۔ رحمن بابا بھی متحرک ہو رہے تھے۔ ایک روز قبل تو وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ سندھ اسمبلی میں شیر کی طرح دھاڑ رہے تھے ۔ شرمیلا فاروقی دھرتی ماں کی تقسیم پر رو رہی تھیں لیکن ایک فلم کی طرح یک دم ماحول بدل گیا۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان حالیہ تناؤ اگر کسی گریٹ گیم کا حصہ نہیں تو معاملات طے ہو جائیں گے ورنہ جو سکرپٹ لکھا گیا ہے وہی ہو گا۔
سکرپٹ کیا ہو سکتا ہے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں سید خورشید شاہ نے بالخصوص پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سکرپٹ رائٹرز کا سکرپٹ فیل کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اس لئے انہیں سزا تو ملنی ہو گی۔ بات سمجھ میں یہی آئی ہے کہ اب ملک میں بڑے بڑے فیصلے وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کو مل کر کرنے ہیں۔ باقی سب شامل باجہ ہیں۔ اتنے بڑے بڑے جلسے کرنے کے باوجو د تحریک انصاف اور عمران خان کی پارلیمنٹ میں حیثیت ایک شامل باجہ سے زیادہ کچھ نہیں۔ ان کے استعفے بھی نظام کوئی کاری ضرب نہیں لگا سکے۔ جاوید ہاشمی کا ہارنا بھی نظام کے لئے کوئی خطرہ نہیں۔ اس لئے سازشی تھیوری یہی ہے اب سکرپٹ رائٹرز شاید عمران خان کو قائدحزب اختلاف بنوانا چاہتے ہیں تا کہ حکومت اور خورشید شاہ اتحاد توڑا جا سکے اور خورشید شاہ کو سبق سکھا یا جا سکے۔ اگر تو معاملہ سکرپٹ رائٹر کا ہے تو سب ایم کیو ایم کے سامنے بے بس ہو جائیں گے ۔ ایم کیو ایم کچھ بھی ہو جائے سکرپٹ رائٹر کی بات نہیں ٹال سکے گی حالانکہ ایم کیو ایم کے لئے عمران خان کو قبول کرنا ایک بہت کڑوی گولی ہے جبکہ خورشید شاہ صاحب تو ایک میٹھی گولی تھے۔ یہی سیاست کی خوبصورتی ہے کہ اس میں میٹھی گولی پھینک کر کڑوی گولی بھی خود ہی کھا لی جاتی ہے۔
اگر یہ معاملہ سکرپٹ رائٹر کا نہیں ہے تو معاملات طے ہو سکتے ہیں۔ ایک سازشی تھیوری یہ بھی ہے کہ ایم کیو ایم وفاقی حکومت کا حصہ بننے کی کوشش کر رہی ہے لیکن یہ بات نا قابل فہم ہے کہ میاں نواز شریف کوئی ایسا قدم اٹھائیں گے جس کا نقصان پیپلز پارٹی کو ہو یا بالخصوص خورشید شاہ صاحب کو ہو۔ یہ تو احسان فراموشی ہو گی۔ اس لئے یہ دل اور دماغ نہیں مانتا۔ ماضی قریب میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایم کیو ایم حکومت سے باہر رہنا پسند نہیں کرتی۔ اس لئے جب وہ مرکزی حکومت کا حصہ نہیں بن رہی تو اسے سندھ حکومت کے مزے چھوڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ ایم کیو ایم کی پہلی ترجیح کراچی ہے۔ تجزیہ نگار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ فوری طور پر قومی انتخابات کا کوئی امکان نہیں بلکہ اگر قریب ترین کوئی انتخابات ہیں تو وہ بلدیاتی انتخابات ہیں ۔ اگر گزشتہ انتخاب کے نتائج کو سامنے رکھا جائے تو ایم کیو ایم کا اب کراچی میں تحریک انصاف سے مقابلہ ہے۔ پیپلز پارٹی تو کراچی میں ایم کیو ایم کے لئے کوئی خطرہ نہیں ۔ پھر ایم کیو ایم کیوں عمران خان کو قائد حزب اختلاف بنوانے کے لئے سندھ کا اقتدار قربان کرے گی جو ان کے لئے اگلے بلدیاتی انتخاب میں سب سے بڑا خطرہ ہو گا۔ بات سمجھ میں آنی مشکل ہے لیکن یہی سیاست کا حسن ہے ۔

مزید :

کالم -