حقیقت کے اندر حقیقت

حقیقت کے اندر حقیقت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اگر عہد با عہدمختلف آمروں کی سیاسی مداخلت نہ ہوئی ہوتی تو آج پاکستان کی حقیقی یا واقعی تصویر کیسی ہوتی؟
زوال سے دانستہ صرف نظری کا شیوا،مسائل سے شتر مرغگی کا شعار دل و دماغ کو بند گلی میں دکھیل دیتا ہے۔پھر ایسی قوم قرن ہاقرن موت موت جیتی جاتی ہے۔صحت مند حیات کی ہر دعوت پر پھر اسے شیاطین کے وساوس کا گماں یا دشمنوں کی سازش کا امکاں ہوا کئے۔تمام تر پیش بندی،جادوگری اور ہاتھ پاؤں باندھنے کے بعد بھی این اے 120کا عوامی فیصلہ آخر کیا پیغام دیتا ہے؟کیا اب بھی ہم اپنی پون صدی کی ہمالیائی غلطیوں کاادراک ۔۔۔بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اعتراف نہ کریں گے؟


الف لیلیٰ کی بستی اور کوہ قاف کے دیس میں حقیقت وہ نہیں ہوتی جو نظر آتی ہے۔ویسے بھی ہم چیزوں کو ویسا دیکھنے کے عادی رہے جیسی کہ وہ نظر آتی ہیں۔کسی کو کم ہی خیال آیاکہ وہ چیزوں اور حقیقتوں کو ان کی اصلی حالت و ہیئت میں دیکھے۔۔۔جیسی کہ وہ ہیں۔یہ بھی اسرار بھرا بھید رہا کہ حقیقت کچھ ہوتی ہے اور نظر کچھ اور آتی ہے۔صاف اور سامنے کی حقیقت کو لیجئے کہ ضمنی الیکشن میں ہمیشہ حکمران پارٹی جیتتی آئی ہے مگر اب کی بار؟بھائی اب کی بار تمام تر جانثاری کے باوجود ہاری ہے۔

جی نہیں آپ غلط سمجھے۔کلثوم نواز کا تعلق نظربظاہر تو حکمران جما عت سے ہے۔۔۔لیکن نظر آنے والے حکمرانوں کا نظر نہ آنے والے اصلی اورہوائی فرمانرواؤں سے مقابلہ تھا۔گوال منڈی،شفیق آباداورمتعددمقامات پرکارکنان کو اٹھا لیا گیاکہ وہ انتخابی بکھیڑوں سے دور رہیں۔ٹی وی کی سکرینیں دکھاتی رہیں کہ شناختی کارڈ ہونے کے باوجود کئی ووٹروں کو کہا گیاووٹ لسٹ میںآپ کااندراج نہیں۔یہی لوگ جب پی ٹی آئی کے کیمپ سے پرچی بنوا لائے تو پھر چشم زدن میں ان کا ووٹ لسٹ میں نکل آیا۔

شام 5بجے تک بے شمار مقامات پر پولنگ بوتھ کے باہر قطاریں لگی تھیں۔۔۔خواجہ سعد رفیق اور رانا ثنا ء اللہ چیختے رہے کہ وقت بڑھا دیا جائے لیکن خلائی حکمرانوں نے باب بند کر دیا۔ایک بجے تک تو خیر ٹرن آؤٹ واقعی کم رہا کہ اس کے بعد ہی لاہوریے گھروں سے نکلے۔چال چلی گئی،انتخابی عمل اتنا سست کر دیا جائے کہ وقت بیت رہے۔کڑا وقت کٹ جانے کا نسخہ جالینوس بھی دریافت کیا گیاکہ کیا کہئے!بہت سے لوگوں کو پیسے دے کر سیرو تفریح پر بھیج دیا گیا کہ موج میلہ کرو، بس ووٹ مت کاسٹ کرو۔


ڈاکٹر یاسمین راشد نے پوری انتخابی مہم میں اک حقیقت اپنے ووٹروں اور سپورٹروں پر واضح کرنے کی سعی بلیغ کی۔انہوں نے لَے اٹھائی اور پورے سُروں سے اٹھائی کہ نواز شریف اسی حلقے سے کئی بار جیتے مگرحلقے کا مقدر نہیں بدلا۔وہی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں،وہی گندگی کے ڈھیر،وہی کچی گلیاں اور گندی نالیاں،ہسپتالوں اور سکولوں کی وہی کمی اور صاف پانی کی وہی نایابی۔نتائج کے چند گھنٹوں بعد یہ حقیقت بدل بدل گئی اور کمال بدل گئی۔

موصوفہ محترمہ نے فرمایا۔۔۔ارے یہ جھوٹے اور جعل ساز اس لئے جیتے کہ انہوں نے ایک ارب کے ترقیاتی کام جو کروادیئے تھے۔اللہ اللہ!کیا کہئے کہ حقیقت کیا ہے؟اہل زبان کی زبان میں کہئے کہ ان کی شنوائی کو سنوائی نہیں ہوئی اور بینائی کو دکھائی نہیں ہوئی۔سات ہزار سالہ معلوم انسانی تاریخ میں کبھی صیادوں کو باغ باں نہیں سمجھا گیا۔۔۔تو کٹھ پتلیوں کوسالارِ کارواں؟بھائی کٹھ پتلیوں کوتو طعنے کے طور پربھی کبھی رہنما نہیں کہا گیا۔


آپا فاطمہ کے ہونہار سپوت احسن اقبال کی خیر ہو۔انہوں نے بھی اک حقیقت پر لب کشائی کی کہ ایک قانونی شخصیت حدیبیہ پیپر ملز کیس کو ازسر نو کھولنے کے لئے دباؤ ڈالا کئے۔کون ہے جو اس حقیقت کوبھی منقح اور واضح کرے کہ اس قانونی شخصیت کے پیچھے کون سی جناتی شخصیت کھڑی ہے؟با شعور اور بالغ نظر جانتے اور مانتے ہیں کہ اگر نواز شریف نے جبیں نہ جھکائی تو پھر مشرف طیارہ کیس بھی دوباہ کھل سکتا ہے۔اس الف لیلوی بستی میں کتنی حقیقتیں ہیں جن پر دبیز پردے پڑے ہیں اور کوئی انہیں سرکا سکتا نہیں۔کتنی ان کہی کہانیاں ہیں جو ایک دن تو ضرور کہی جائیں گی۔کتنے فسانے پڑے تخیل میں تڑپ رہے ہیں کہ کوئی تو انہیں تخلیق کا لبادہ پہنائے گا اورآخر سب کچھ کہہ دیا جائے گا۔کوہ قاف کے دیس میں جنوں نے جادو کے زور پر کتنے ہی بندوں و بشروں کو مٹی کا مخمور پتلا بنا رکھا ہے۔سیاست دانوں کی بھی اپنی بتائی ہوئی محدود اورمختصر حقیقتیں ہیں جو ہمیشہ ادھوری رہیں۔کیا عجب وہ حقیقتیں اور حقائق بھی ویسے نہ ہوں جیسے نظر آتے ہیں۔انہیں بڑا غرہ اور تفخر رہا کہ یہ نصیبوں جلے پارلیمان کے امین ہیں جو تمام اداروں کی ماں ہے۔خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق،احسن اقبال اور ’’آزاد دانشور‘‘ رضا ربانی کااکثر’’درد اٹھ اٹھ کر بتاتا ہے ٹھکانہ دل کا‘‘۔


کوئی اٹھے اورغافل سیاست دانوں پر بھی یہ حقیقت منکشف کرے کہ یہاں سیاست کی وادی بہشتِ بریں نہیں ہے بابا۔یہاں تو قدم قدم پر کانٹے اور گام گام پر دھکے ملیں گے۔لمحہ لمحہ مصائب اور دقیقہ دقیقہ آفات کا نزول ہو گا۔آپ مشکلات سے گھبرا نے اور جی چرانے چلے ہیں۔۔۔یہاں تو جانوں اور جلا وطنیوں کا سوال درپیش ہے۔سیاست کی جنس اتنی سستی نہیں کہ ٹھنڈے کمروں اور پارلیمان کے اجلاسوں میں آپ کو آرام سے مل جائے گی۔

آپ سے کس کمبخت نے کہا تھا کہ سیاست میں آیئے۔۔۔اب آ ہی گئے ہیں توقلب کی طاقت کو ٹٹول لیجئے۔سیاست دانوں کی آخری منزل اور مقام سویلین بالا دستی رہی۔اس کے لئے جی جاں ہی نہیں اور بھی بہت سی مال و متاع کی قربانی دینی ہو گی۔پارلیمان کی برتری کا اریب قریب سب وزرائے اعظموں نے جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھا ہے۔۔۔اس کی تعبیر پانے کے لئے شیر کا جگر چاہئے۔پھر ہی سیاست دانوں کو پارلیمنٹ کی فرمانروائی کا چمکتا سورج دیکھنا نصیب ہوگا۔یہی تو سیاست دانوں کے سفر کا مقصودو مطلوب ہے ،جہدوجستجو کا حاصل ہے،آرزوں کا سراغ اور تمناؤں کی امید گاہ ہے۔

مزید :

کالم -