شہید المحراب، عمر بن خطابؓ!

شہید المحراب، عمر بن خطابؓ!
 شہید المحراب، عمر بن خطابؓ!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت کا کام شروع کیا تو دشمنانِ اسلام آپ کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے لگے۔

ہر آنے والے دن کے ساتھ اسلام بھی اپنی دعوت کے ذریعے قبولیت حاصل کررہا تھا اور دشمنانِ اسلام بھی اسی نسبت سے مخالفت میں تیز ہوتے جارہے تھے۔ قریش کی مخالفت حد سے گزری تو ان بدبختوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے منصوبے بنائے۔ دارالندوہ میں مشورہ ہوا کہ کوئی شیردل نوجوان جائے اور جاکر محمدؐ بن عبداللہ کا کام تمام کردے۔

کون یہ کام کرسکتا ہے؟ یہ سوال بڑا اہم تھا۔ کئی نوجوانوں نے خود کو پیش کیا، مگر سردارانِ قریش نے ہر ایک سے کہا کہ یہ کام اس کے بس میں نہیں ہے۔ آخر بنوعدی کا سجیلا جوان عمربن خطاب کھڑا ہوگیا۔ اس نے کہا سردارانِ قریش! میں ابھی یہ کام کرکے تم کو خوش خبری سناتا ہوں۔ ابوجہل نے کہا: ’’ہاں یہ نوجوان یقیناًاس قابل ہے کہ اس کٹھن کام کو سرانجام دے سکے۔‘‘ فیصلہ ہوجانے کے بعد عمردارالندوہ سے نکلا۔ اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی، چہرے پر عجیب غصے کی کیفیت کے ساتھ خودکلامی کے انداز میں کچھ کہتا ہوا چلاجارہا تھا۔ اچانک راستے میں نعیم بن عبداللہ سے آمنا سامنا ہوگیا۔

نعیمؓ کا تعلق بھی بنوعدی سے تھا۔ وہ اسلام لاچکے تھے، مگر ابھی تک اپنے اسلام کا اظہار نہیں کیا تھا۔ ابن حجرالعسقلانی کے مطابق قبول اسلام میں ان کا دسواں نمبر ہے۔ نعیمؓ نے پوچھا: ’’عمر! کیا بات ہے؟ بڑے غصے میں نظر آرہے ہو۔‘‘ عمر نے کہا: ’’ ہاں میں آج اس شخص کو قتل کرنے جارہا ہوں جس نے باپ دادا کا دین بگاڑ دیا ہے۔‘‘ نعیمؓ بن عبداللہ نے بڑی حکمت کے ساتھ کہا: ’’اچھا اگر یہ بات ہے تو پہلے اپنے گھر کی خبر لوتمھاری بہن فاطمہؓ بنت خطاب اور تمھارا بہنوئی سعیدؓ بن زید بھی آبائی دین کو چھوڑ کر صابی بن چکے ہیں۔‘‘ (الاصابۃ، لابن حجرالعسقلانی، ص567)

یہ سننا تھا کہ عمر کے غصے میں اور اضافہ ہوگیا۔ اب بہن کے گھر کی راہ لی، وہاں پہنچ کر دیکھا کہ گھر کا دروازہ بند ہے اور اندر سے کسی چیز کے پڑھنے کی آواز آرہی ہے۔ دروازہ کھٹکھٹایا تو بہن نے دروازہ کھولا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر انھی دنوں سورۂ طٰہ نازل ہوئی تھی۔ اسی کی تلاوت اور حفظ کی مشق جاری تھی۔ حضرت خباب بن ارتؓ جو آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سن کر یاد کرلیا کرتے تھے بھی گھر میں موجود تھے۔ عمر کی آہٹ اور آواز سن کر ہی حضرت خبابؓ کو گھر میں چھپا دیا گیا۔ عمر نے بہن اور بہنوئی سے پوچھا: کیا تم صابی ہوگئے ہو؟ انھوں نے کہا: نہیں ہم نے دین حق قبول کرلیا ہے ۔ اس پر عمر کا غصہ بھڑک اٹھا۔ بہنوئی کو زدوکوب کرنا شروع کیا، بہن بچانے کے لئے آئیں تو انھیں بھی خوب مارا پیٹا یہاں تک کہ وہ لہولہان ہوگئیں۔ اس موقع پر فاطمہ بنت خطاب نے بڑی جرأت اور استقامت سے کہا: ’’عمرسن لو ہم مسلمان ہوچکے ہیں، ہم نے شرک اور بت پرستی سے برأت کا اظہار کردیا ہے۔ تم جو کچھ کرنا چاہو کرلو، ہماری ہڈیاں توڑ سکتے ہو، مگر اسلام سے برگشتہ ہرگز نہیں کرسکتے۔‘‘ (الاصابۃ ، ص46)


بہن کی زبان سے یہ سننا تھا کہ عمر کے دل پر چوٹ لگی اور زمین پر بیٹھ گئے۔ پھر کہا مجھے وہ صحیفہ سناؤ جو تم پڑھتے ہو۔ انھوں نے فرمایا کہ ہم اس صحیفے کی توہین برداشت نہیں کرسکتے، نہ ہی کسی مشرک کو دے سکتے ہیں کیونکہ اسے صرف پاکیزہ لوگ ہی ہاتھ لگا سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا اچھا مجھے خود سناؤ، میں اس کی کوئی توہین نہیں کروں گا۔ اس وعدے کے بعد حضرت خبابؓ کو اندر سے باہر بلایا گیا اور انھوں نے سورۂ طٰہ کی آیات کی تلاوت کی۔ قرآن پڑھا جارہا تھا اور عمر کے دل کی دنیا میں عظیم الشان انقلاب برپا ہورہا تھا

۔ آیات قرآنی سنیں اور خاموشی سے گھر کا دروازہ کھول کر نکل گئے۔ اب بھی منزل دارِ ارقم ہی تھی، مگر ارادہ بدل چکا تھا۔ یہ وہ عمر نہیں تھا جو دارالندوہ سے نکلا تھا، یہ وہ عمر تھا جس کے حق میں نبئ مہربان ؐ کی دعائیں قبول ہوچکی تھیں۔ جب عمربن خطاب دارِ ارقم پہنچے اور دروازے پر دستک دی تو ایک صحابی نے دروازے کے سوراخ میں سے ان کے ہاتھ میں ننگی تلوار دیکھ کر دروازہ کھولنے کی بجائے واپس آنحضورؐکے پاس آکر سرگوشی کے انداز میں کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! عمربن خطاب دروازے پر کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار ہے۔

‘‘ حضرت حمزہؓ جو صرف تین دن پہلے مسلمان ہوئے تھے، فرمانے لگے: اللہ کے بندے دروازہ کھول دو۔ اگر عمر نیک ارادے سے آیا ہے تو سرآنکھوں پر اور اس کا کوئی اور ارادہ ہے تو میں اس کا سر اسی کی تلوار سے قلم کردوں گا۔ دروازہ کھلا، عمراندر آئے، سیدھے آنحضورؐ کے پاس پہنچے۔ آپؐ نے ان کی چادر پکڑ کر کھینچا اور کہا عمر! کیسے آئے ہو؟ عرض کیا اسلام قبول کرنے کے لئے حاضر ہوا ہوں۔ پھر کلمۂ شہادت پڑھا اور اسلام میں داخل ہوگئے۔ آنحضورؐکی زبانِ مبارک سے تکبیر کا کلمہ بلند ہوا۔ سبھی صحابہؓ نے بھی آپ کی تقلید میں اللہ کی کبریائی کا اعلان کیا اور دارِارقم تکبیر کے نعروں سے گونج اٹھا۔ (ابن ہشام، القسم الثانی، ص346)


اس عرصے میں نبی اکرمؐ مسلسل دعا کرتے رہے اللہم أعز الاسلام باحب ہٰذَیْنِ الرجلین الیک بأبی جہل او بعمربن الخطاب۔ (صحیح بخاری، جامع ترمذی، ح3699) اللہ تبارک وتعالیٰ نے عمربن خطاب کے بارے میں دعائے نبویؐ کو شرف قبولیت بخشا۔ آپؐ کی اس دعا میں بڑی حکمت ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: خیارکم فی الجاہلیۃ خیارکم فی الاسلام اذا فَقِہُوا۔ یعنی تم میں سے جو لوگ جاہلیت میں اگلی صفوں میں کام کرتے ہیں، قبولیت اسلام کی توفیق مل جائے تو خدمت اسلام میں بھی اگلی صفوں میں ہوں گے اگر دین کا صحیح فہم حاصل کرلیں۔ (متفق علیہ)

حضرت عمرؓ نے قبول اسلام کے بعد آنحضورؐسے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: یقیناًہم حق پر ہیں۔ اس پر عرض کیا: پھر ہمیں دارِ ارقم کی بجائے بیت اللہ شریف میں جا کر نماز پڑھنی چاہیے۔ چنانچہ اس روز مسلمان دارِ ارقم سے دو صفیں بنا کر نکلے۔ ایک صف کے آگے آگے حمزہؓ بن عبدالمطلب اور دوسری صف کے آگے عمربن خطابؓ۔ مسلمان اس شان کے ساتھ حرم شریف میں آئے اور وہاں نماز پڑھی اور حضرت عمرؓ نے سردارانِ قریش کو متنبہ کردیا کہ وہ اسلام میں داخل ہوگئے ہیں۔

اس خبر سے قریش کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ یوں عمربن خطابؓ مرادِ رسول ہیں۔ قبول اسلام کے بعد حضرت عمرؓ نے زندگی کا ہر لمحہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں گزارا۔ سفر ہو یا حضر ، جنگ ہو یا امن، حضرت عمرؓ کبھی آپؐ سے جدا نہ ہوئے۔ ہر میدان جہاد میں دشمنوں کو للکارتے رہے۔ ان کا مقام و مرتبہ محض شمشیر و سناں ہی سے متعین نہیں ہوتا، بلکہ اللہ نے ان کو یہ اعزاز دیا کہ بعض روایات کے مطابق پچاس سے زیادہ مرتبہ وحئ ربانی نے ان کی رائے کی تائید فرمائی۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کان رأیہ موافقا بالوحی والکتاب ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بہت مناقب بیان فرمائے ہیں۔ آنحضورؐ نے فرمایا کہ اگر شیطان کسی راستے سے آرہا ہو اور سامنے سے عمرؓ کو آتے ہوئے دیکھے تو شیطان راستہ چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔ پوچھا گیا ایسا کیوں ہے تو آپؐ نے فرمایا ’’عمرؓ کے ایمان کی مضبوطی کی وجہ سے‘‘۔


نبی اکرمؐ کی رحلت کے بعد سیدنا ابوبکرؓ کے دور خلافت میں حضرت عمرؓ نے ان کے مشیر و وزیر کے طور پر بہترین خدمات سرانجام دیں۔ جناب ابوبکرؓ کی وفات کے بعد پوری امت نے متفقہ طور پر انھیں دوسرا خلیفۂ راشد منتخب کیا۔ آپؓ کا دور عدل و انصاف کا بہترین زمانہ تھا۔ آپؓ نے دنیا میں پہلی فلاحی ریاست قائم کی۔ حقیقت میں آنحضورؐ ایک فلاحی ریاست قائم کرنے کا خاکہ دے گئے تھے۔ آپؓ نے بارہا یہ فرمایا کہ مالداروں سے دولت وصول کی جائے اور غربا و محروم طبقات کو ان کی بنیادی ضروریات فراہم کی جائیں۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں بھی اسی پر کام ہوتا رہا، مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کے دور میں وہ تمام وسائل فراہم کر دیے، جن کے نتیجے میں ہر بچے کا پیدائش کے ساتھ وظیفہ لگ جاتا تھا۔ ہر بے کس و معذور کے علاوہ تمام شہریوں کو وظائف سے نوازا جاتا تھا۔ یہ دنیا کی پہلی فلاحی ریاست تھی۔ حضرت عمرؓ کے دور میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے تھے۔ آپؓ نے تمام شعبوں کو محکمہ جات میں منظم کرکے ذمہ داریاں تقسیم کردیں۔

نبی اکرم ؐ نے حضرت عمرؓ کو شہادت کی خوشخبری سنائی تھی۔ زندگی کے آخری دنوں میں آپؓ مسلسل دعا کرتے تھے کہ اے اللہ مجھے شہادت عطا فرما اور میری موت آئے تو تیرے حبیب کے شہر میں آئے۔ 26 ذوالحجہ 23 ہجری کو محراب رسول میں نماز فجر پڑھا رہے تھے۔ ابو لولو پارسی نے آپؓ پر حملہ کیا۔ آپؓ شدید زخمی ہوئے اور یکم محرم 24ہجری کو شہادت کے مقام پر فائز ہوگئے۔ جناب عمر تلمسانی نے آپؓ کی زندگی پر جو کتاب لکھی، اس کا نام ہی ’’شہید المحراب ،عمر ابن الخطاب‘‘ ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ کرنے کا راقم کو اعزاز حاصل ہوا اور کتاب قارئین کے درمیان بہت زیادہ مقبول ہوئی۔

مزید :

کالم -