صرف جمہوریت ہی پائیدار نظریہ ہے!

صرف جمہوریت ہی پائیدار نظریہ ہے!
 صرف جمہوریت ہی پائیدار نظریہ ہے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مجھے دوست کہتے ہیں میرا نظریہ کیا ہے؟ مَیں جواب دیتا ہوں، مَیں نے اپنی زندگی میں سیاسی نظریات کا جو حشر دیکھا ہے،اُس کی وجہ سے اب مَیں اپنا نظریہ واقعات کے تناظر میں ترتیب دیتا ہوں۔ایک زمانہ تھا جب روس اور امریکہ کی ٹھنی ہوئی تھی۔وہ تو جیسے بھی لڑتے ہوں گے،لیکن ہمارے ہاں اُن کی لڑائی سے ایک ایسا طبقہ پیدا ہو گیا تھا جو اسے کفر اور اسلام کی جنگ سمجھنے لگا تھا۔ روس چونکہ سوشلزم کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، اِس لئے امریکہ کی کاوشوں کو اسلام دوست سمجھ لیا گیا۔اُن دِنوں سرخ رنگ اشراکیت کی علامت تھا اور سبز رنگ اشتراکیت کے مخالفین کے لئے استعمال کیا جاتا۔مجھے یاد ہے کہ جب کالج میں داخل ہوا تو وہاں اسلامی جمعیت طلبہ اور این ایس ایف دو بڑی طلبہ تنظیمیں تھیں،وہ جب کبھی آمنے سامنے آتیں،جمعیت والے ’’سبز ہے سبز ہے، ایشیاء سبز ہے‘‘

اور این ایس ایف والے ’’سرخ ہے سرخ ہے ایشیا سرخ ہے‘‘، کے نعرے لگاتے۔جب ہم نے کچھ عرصہ کالج میں گزار لیا تو اپنے ہم خیال ساتھیوں کا ایک گروپ بنا کر ہم نے اسے شہید ملت سٹوڈنٹس فیڈریشن کا نام دیا۔گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان کے در و دیوار کو ہم نے اس کے اسٹیکرز اور پمفلٹوں سے بھر دیا۔اب دونوں تنظیموں سے خود کو علیحدہ ثابت کرنے کے لئے ضروری تھا کہ ہم بھی کوئی نعرہ ایجاد کریں۔پھر مل جل کر جو نعرے ایجاد کئے گئے، وہ کچھ اس قسم کے تھے:
سرخ ہے نہ سبز ہے، ایشیا کو قبض ہے
نیلا ہے نہ پیلا ہے، ایشیا رنگ رنگیلا ہے
دیکھتے ہی دیکھتے ہماری یہ تنظیم پورے کالج میں مقبول ہو گئی۔اس کا کوئی حاصل وصول تو نہیں ہوا، البتہ یہ بات ذہن میں بیٹھ گئی کہ ہمارے ہاں خاص مقاصد کے تحت نظریات گھڑ لئے جاتے ہیں ، پھر اُن کی بنیاد پر کسی کو کافر، کسی کو یہودی ایجنٹ،کسی کو عالم باعمل اور کسی کو خدائی خدمت گار قرار دے دیا جاتا ہے۔شاید یہ برسوں پرانی اسی تربیت کا حصہ ہے کہ مَیں اب کسی جماعت کو نظریاتی نہیں مانتا۔ مَیں نے کل بھی جماعت اسلامی کے بارے میں لکھا ہے کہ نظریاتی جماعت ہونے کی دعویدار یہ پارٹی بھی بہت سے کام نظریۂ ضرورت کے تحت کر جاتی ہے۔۔۔ آج کا نظریہ صرف مفادات ہیں۔ انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی۔ہم نے ایسے لکھنے والوں کو بھی لکھتے دیکھا ہے، جو کسی زمانے میں یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے تھے کہ وہ شخصیات کے نہیں، نظریات کے پیرو کار ہیں۔ یہ ساری باتیں مَیں نے یہ باور کرانے کے لئے کی ہیں کہ پاکستان میں اب کوئی بھی چیز آئیڈیل نہیں ہے۔سیاسی و مذہبی رہنماؤں کے حوالے سے تو آئیڈیلزم کا شکار ہونا پرلے درجے کی حماقت ہے۔اس کا ثبوت ہر روز اس وقت سامنے آتا ہے، جب کوئی سیاسی یا مذہبی پیروکار اپنے ممدوح کی تعریف کر رہا ہوتا ہے تو دوسری طرف سے اُس کے سو عیب گنوا دیئے جاتے ہیں۔۔۔ مثلاً سیاست کے بڑے لوگوں کو ہی دیکھ لیں۔ اس وقت تین بڑی سیاسی شخصیات ایک بڑے منظر نامے پر موجود ہیں۔۔۔نواز شریف، آصف علی زرداری اور عمران خان۔۔۔ اب جو اِن کے ماننے والے ہیں، وہ اُن کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں،لیکن جو مخالف ہیں، اُن کے پاس ان کے عیب بھی ہیں اور لاتعداد برائیاں بھی۔۔۔ اس سے بھی اوپر اُٹھیں تو ان تینوں کا سحر ان کی شخصیات کے باعث ہے، نظریات کے باعث نہیں۔سب عوام کی خدمت کا نعرہ لگاتے ہیں اور دوسرے کو چور اور جھوٹا ثابت کرتے ہیں۔
بتایا جائے کہ وہ کون سا نظریۂ سیاست ہے، جس میں اپنا قد بڑھانے کے لئے دوسرے کی کردار کشی ضروری قرار پاتی ہو۔۔۔ آپ لاکھ نواز شریف کو ڈاکو، چور، لٹیرا کہتے رہیں، اُن کے جو چاہنے والے ہیں، اُن کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، وہ آج بھی انہیں مُلک کا سب سے اچھا اور خیر خواہ سیاست دان سمجھتے ہیں۔یہی حال آصف علی زرداری کا ہے، انہیں کیا کچھ نہیں کہا گیا، مسٹر ٹین پرسنٹ سے لے کر بی بی کی وصیت میں ہیرا پھیری تک کے الزامات لگائے گئے،مگر وہ اپنے جیالوں میں آج بھی ’’ایک زرداری سب پر بھاری‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔عمران خان اقتدار میں نہیں آئے،مگر اُن کی کردار کشی کا سامان ہمیشہ کیا جاتا رہا۔ انہیں پلے بوائے ثابت کرنے کی آج بھی کوشش کی جاتی ہے،حالانکہ وہ 65 برس کے ہو گئے ہیں، عائشہ گلا لئی نے تو اُنہیں ایک جنونی عاشق کے روپ میں پیش کرنے کی کوشش کی۔۔۔ مگر اِن سب کے بارے میں باتیں چونکہ شخصی الزامات کی صورت میں تھیں،کسی نظریے کے حوالے سے نہیں، اِس لئے کوئی بھی اتنی نقصان دہ ثابت نہیں ہو سکی کہ ان کا پاکستانی سیاست سے کردار ہی ختم کرنے کا باعث بنتیں۔ ذوالفقار علی بھٹو پہلا شخص تھا جس نے مُلک میں ایک نظریاتی سیاست کی بنیاد رکھی تھی۔۔۔طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں۔۔۔کا نعرہ لگا کر انہوں نے غریبوں اور امیروں کی سیاست کے درمیان ایک حدِ فاصل کھینچ دی تھی، لیکن اُن کی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ اس نظریے کو سوشلزم کا نام دے بیٹھے،جس کا ردعمل بہت شدید ہوا اور مذہبی تنظیمیں خم ٹھونک کر ان کے مقابل آ کھڑی ہوئیں۔بعدازاں اسے اسلامی سوشلزم بھی کہا گیا،مگر اب دیر ہو چکی تھی،وہ اسے شروع میں ہی اسلامی کہہ دیتے یا جس مساوات کا منشور میں ذکر کیا تھا، اُسے اسلامی مساوات کا لبادہ پہناتے تو شاید اُس غیظ و غضب سے بچ جاتے جس کا وہ آگے جا کر شکار ہوئے۔


پھر اُن سے دوسری غلطی یہ ہوئی کہ ایک نظریہ متعارف کرانے کے بعد وہ اُس پر کار بند نہ رہ سکے۔ انہوں نے سرمایہ داری اور جاگیرداری کے خلاف جو اقدامات اٹھائے، وہ بے سمتی اور بددلی کا شکار ہو گئے۔ انہوں نے اتنے محاذ کھول لئے کہ پھر اُن کا مقابلہ کرنے کی سکت نہ رہی۔صنعتوں کو قومیانے کے بعد اُن کے لئے کوئی لائحہ عمل نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگاری حد سے بڑھ گئی اور سرمایہ دار طبقہ اُن کے خلاف ہو گیا، سو رفتہ رفتہ انہوں نے واپسی کا سفر شروع کیا اور سرمایہ داروں، وڈیروں اور معاشرے کے طاقتور طبقوں کے ہاتھوں یرغمال بن گئے۔۔۔’’خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم‘‘ ۔۔۔کی کیفیت نے انہیں اُس عوامی قوت سے محروم کر دیا،جس کی بدولت وہ اقتدار میں آئے تھے۔پھر جونہی ’’ایشیا سبز ہے‘‘کا نعرہ لگانے والوں کو موقع ملا انہوں نے قائد عوام کو نہ صرف کرسی سے اتارا، بلکہ پھانسی کے پھندے تک پہنچانے کے لئے اپنے کندھے پیش کئے۔


سو اِس سارے پس منظر میں ہمارا نظریہ اب یہ ہونا چاہئے کہ ہماری جمہوریت برقرار رہے۔ وہ اتنی جوابدہ ضرور ہو کہ عوام کو اُن کے خوابوں سے محروم نہ کر دے۔ہمارا جو بھی حکمران ہو، اُس میں جمہوری اقدار کا پاس کرنے کی جرأت ہو،مفاد پرستانہ سوچ سے عاری ہو، قومی اداروں کو آزادی سے کام کرنے کا موقع دے اور اُس کے بعد اُن کی کارکردگی کا محاسبہ کرے،جمہوریت کو آمریت کا لبادہ نہ پہنائے،پارلیمیٹ کی توقیر کرے اور اپنے ہر اقدام کی اُس سے توثیق کرائے۔مُلک سے کرپشن، ناانصافی،بدامنی ختم کرنے کے لئے سب سے پہلے خود مثال بنے،پھر اپنی کابینہ اور پارلیمینٹ کو بنائے، تاکہ نیچے تک ایسا پیغام جائے کہ ملک اب ان باتوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔اصل میں ہم نے نظریات اور نظریاتی نعرے بہت دیکھ اور سُن لئے ہیں۔

پاکستان میں اب نظریے کی جنگ نہیں،ایک نظریے کے تحت ہم نے اِس مملکتِ خداداد کو حاصل کیا تھا، اب وہی ہمارا نظریہ ہے۔ اصل جنگ یہ ہے کہ ہم اس نظریے کو عملی جامہ پہنائیں، جس طرح قائداعظم ؒ پہنانا چاہتے تھے،لیکن زندگی نے انہیں مہلت نہ دی۔قوم شخصیات کے بت نہ بنایئے،کسی شخص کو مُلک کے لئے ناگزیر نہ سمجھئے۔جب قائداعظم ؒ کے بغیر یہ ملک قائم رہا اور آگے بھی بڑھا تو باقی کون سی ایسی شخصیت ہے،جس کے بغیر ہم آگے بڑھ نہیں سکتے۔ اقدار اور جمہوری روایات کو آگے بڑھایا جائے، جو ووٹ لے کر اقتدار میں آتا ہے اور اپنے وعدوں کی تکمیل نہیں کرتا،وہ رہنما نہیں ہو سکتا۔یہ ہے وہ اصل نظریہ جسے قوم اپنا لے تو اِس مُلک کو اچھی قیادت بھی مل سکتی ہے اور ہم جن مسائل میں گھرے ہوئے ہیں، اُن سے آسانی کے ساتھ نکل بھی سکتے ہیں۔

مزید :

کالم -