سرکاری حج سکیم 17کے حجاج کے ساتھ کیا بیتی؟(2)

سرکاری حج سکیم 17کے حجاج کے ساتھ کیا بیتی؟(2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد وطن واپسی پر اسلام آباد میں خصوصی پریس کانفرنس کا اہتمام کیا اور فرمایا کہ جنوبی ایشیا کے حجاج کے لئے اس سال انتظامات ناکافی تھے تاہم پاکستانی حجاج کو دیگر ممالک کے مقابلے میں کم مشکلات پیش آئیں، بیشتر مشکلات کی ذمہ دار سعودی کمپنیاں تھیں۔ ان شکایات سے سعودی حکومت کو آگاہ کر دیا ہے جسے حکومت پاکستان عوام کے سامنے لانے کے لئے تیار ہے۔ ہم 57ہزار290 حجاج کو بسوں کے کرائے کی مد میں 45 کروڑ روپے واپس کر رہے ہیں، مجموعی طور حج انتظامات میں شکایات سامنے آئی ہیں اس کی وجہ چند سال سے سعودی حکومت کی جانب سے تمام ممالک کا20فیصد کم کیا گیا، کوٹہ بحال کرنا تھا جس کے باعث تعداد کے لحاظ سے سعودی انتظامات ناکافی تھے، پوسٹ حج کانفرنس میں وفاقی وزیر نے9ہزار حجاج کو عزیزیہ میں رہائش نہ ملنے پر فی کس 250 ریال واپس کرنے کی نوید سنائی اس پریس کانفرنس کے اگلے روز میڈیا انچارج وزارت مذہبی امور نے اپنے نام سے تمام قومی اخبارات میں شائع کرائی کہ سعودی حکومت نے ناقص انتظامات پر معذرت کر لی ہے اور ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لینے کا وعدہ کیا ہے۔


13ستمبر کو تمام اخبارات کو اسلام آباد سعودی سفارت خانے کا بیان وصول ہوا جس میں وفاقی وزیر کے بیان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا گیا کہ وزارتِ مذہبی امور کے ترجمان کا بیان حقائق کے منافی ہے۔حجاج کی رہائش، کھانا ،ٹرانسپورٹ کی ذمہ داری پاکستان کی ہوتی ہے،ناقص انتظامات کا سبب پاکستان کے سعودی کمپنیوں سے کئے گئے معاہدے ہیں۔ سعودی سفارت خانے نے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ایم او یو سائن ہونے کے بعد ہر ملک اپنی سہولت کے مطابق نجی سعودی کمپنیوں سے معاہدے کرتا ہے اور عمارتوں کے حصول سے لے کر کھانا اور دیگر عوامل کی نگرانی خود کرتا ہے۔سعودی حکومت کا اس سے تعلق نہیں ہوتا۔وفاقی وزیر مذہبی امور اور ترجمان کے بیان اور سعودی حکومت اور سعودی سفارت خانے کے موقف کو شائع کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے، حقائق نہیں جھٹلایا جا سکتا ہے۔ اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے کی بجائے سارا الزام سعودی حکومت کو دینا سرا سر زیادتی ہے۔وزارتِ مذہبی امور کو حقائق سامنے لانے چاہئیں۔ سیزنل سٹاف اور خدام الحجاج، میڈیکل سٹاف مجاملہ ویزوں اور ہارڈ شپ کے نام پر کتنے افراد اس سال حجازِ مقدس گئے؟کتنے ہیں جو ڈیوٹی پر رہے،( 5000) حاجیوں کا آخر میں اضافی کوٹہ وزارتِ مذہبی امور کو ملا اس کو عوام کے سامنے کیوں نہیں لایا گیا اگر استعمال نہیں کیا گیا تو اس کی وجہ کیاتھی؟ زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ سعودی حکومت کے انتظامات کم نہیں تھے،23 لاکھ حاجی اس سال آئے، سعودی حکومت نے30 لاکھ حاجیوں کے انتظامات کا اعلان کر رکھا تھا۔


ایک گھر میں دو مہمان آ جائیں تو سارے گھر میں ہلچل مچی ہوتی ہے جس ملک میں23یا25 لاکھ مہمان آنے ہوں حکومت کیسے انتظامات نہیں کرے گی، حقائق بتاتے ہیں حکومتِ پاکستان نے سرکاری اور پرائیویٹ سکیم کے پچاس فیصد کوٹہ کی تقسیم کے حوالے سے انتظامات کئے تھے پھر سرکاری سکیم سے خود ساختہ پیار،60اور40 کی تقسیم کا فیصلہ، سعودیہ میں موجود ڈی جی اور دیگر سٹاف نے تو پچاس فیصد کے حساب سے مکہ مدینہ میں عمارتیں حاصل کرلی تھیں اچانک40ہزار افراد کے لئے مزید عمارتوں کا حصول وہ بھی اچانک یہ سب کچھ آسان نہیں تھا۔ کم وقت اور افراتفری میں غلطیاں ہوئیں تسلیم کرنا چاہئے۔ جب حج2017ء کا ایم او یو سائن ہوا تو طے ہوا سرکاری سکیم کے افراد مناسک حج مونو ٹرین کے ذریعے ادا کریں گے۔ سرکاری افراد 80 ہزار ہوں یا ایک لاکھ7ہزار ان کو منیٰ، عرفات، مزدلفہ پلان منظور ہوتا ہے ان کی ٹکٹ کی ادائیگیاں ہوتی ہیں افسوس ہمارے وزارت کے ذمہ داران57ہزار افراد کو منیٰ عرفات مزدلفہ کی ٹرانسپورٹ نہ ملنے کو آسان لے رہے ہیں۔ منیٰ سے عرفات نہ پہنچنے والوں کو یہ کہہ کر دلاسہ دے رہے ہیں۔ آپ کی نیت حج کی تھی حج ہو گیا یہ وہی دلاسہ ہے جو سرکاری حجاج کو حرم سے دور عزیزیہ یا بھتہ قریش میں رکھ کر دیا جاتا ہے۔ حرم کی حدود میں آپ اپنی قریبی مسجد میں نماز پڑھ سکتے ہیں۔


ایک جھوٹ کے بعد سو جھوٹ اس کو چھپانے کے لئے بولنا پڑتے ہیں، حج کے بعد جو افراد اس وقت مدینے میں ہیں ان میں سے بڑی تعداد کو مرکزیہ میں رہائش نہیں ملی، روزانہ احتجاج کر رہے ہیں اتنا اثر ہوا ہے وہاں شٹل بس شروع کر دی گئی ہے،تنقید برائے تنقید مقصد نہیں ہے،ہمارے بڑے قابلِ احترام دوستوں نے پہلے کالم کے بعد حکم دیا ہے آپ ہماری رہنمائی فرمائیں ہوپ اور وزارتِ کے درمیان پُل کا کردار ادا کریں ان کا حکم سر آنکھوں پر،اتنی اجازت دیں سرکاری اور پرائیویٹ سکیم کے حوالے سے دوہرا معیار کیوں؟کا سوال پوچھ لیا جائے، پرائیویٹ سکیم جس کو حج2017ء میں پُل صراط بنانے کی پوری کوشش کی گئی۔اگر حج 2017ء میں پرائیویٹ سکیم نے کامیابی سے پُل صراط عبور کر لیاہے، مشکل حالات میں سکیم کامیاب رہی تو وزارت کو بھی کھلے دِل سے اعتراف کر کے حوصلہ افزائی کرنا چاہئے،حالانکہ حقائق بتاتے ہیں حج2017ء میں پرائیویٹ سکیم کے لئے کوئی راستہ نہیں بچا تھا جس پر کانٹے نہ بچھائے گئے ہوں، میرے دوست حج آرگنائزر نے لکھا ہے میاں صاحب ایک سوال ان ذمہ داران سے پوچھ لیں۔ پرائیویٹ سکیم کے حج آرگنائزر کی انسپکشن کرنے جو ٹیم آتی ہے وہ 15سوالات کرتی ہے۔ پہلا سوال یہ ہوتا ہے آپ کے ساتھ حج آرگنائزر یا نمائندے نے سفر کیا؟کیا کھانا پیکیج میں شامل تھا؟ کیا مکہ، مدینہ میں رہائش پیکیج کے مطابق تھی، کیا آپ کو نمازوں کے لئے ٹرانسپورٹ دی گئی،کیا آرگنائزر ہمہ وقت گروپ کے ساتھ رہے،کیا دوران تربیت پیکیج کی تفصیلات فراہم کی تھیں؟ کیا زیارات کروائی گئیں؟ایسے سوالات کے ساتھ پھر حاجی کو انسپکٹر کہتا ہے کوئی اور شکایت ہے تو بتائیں،آپ کھل کر بولیں پھر اگر کسی کو کھانا تاخیر سے ملا تو اس کو موقع پر ادائیگیاں کروائی جاتی ہیں۔ سرکاری سکیم کے عازمین کی تربیت کہاں ہوتی ہے؟کون سا نمائندہ ان کے ساتھ سفر کرتا ہے؟ سرکاری حاجی سے اور پرائیویٹ حاجی سے کئے گئے ایگریمنٹ میں زمین آسمان کا فرق کیوں ہے؟میرے دوست کے سوالات کا جواب تو یقیناًآئے گا میری ذاتی کسی سے دشمنی نہیں ہے، میرے لئے سردار محمد یوسف، پیر امین الحسنات وفاقی سیکرٹری خالد مسعود چودھری بہت ہی قابلِ احترام ہیں، وزارت کو اعتراف کرنا چاہیے سرکاری سکیم کا حاجی روانگی سے واپسی تک تنہا سفر کرتا ہے۔


پرائیویٹ سکیم کے حج آرگنائزر کے لئے سروس پروائڈر کے نام پر100 اور500 روپے کے اسٹامپ پیپر پر شق وار پھندا مسلط کیا جاتا ہے۔ ایک لاکھ سے5لاکھ،10 لاکھ کوٹہ کم کرنے، کوٹہ ختم کرنے سمیت دیگر شرائط شامل کی جاتی ہیں۔آپ57 ہزار حجاج کو منیٰ، عرفات، مزدلفہ ٹرانسپورٹ فراہم نہ کرنے کے ذمہ داران کو کیوں سامنے نہیں لا رہے آپ اس تعداد کا پتہ کیوں نہیں چلا رہے جو عرفات نہیں پہنچ سکے جن کو منیٰ میں کھانا نہیں ملا۔ منیٰ عرفات میں ٹینٹ نہیں ملے، بھوکے پیاسے رہے۔ یہ سوالات تو حج آرگنائزر کے تھے، مَیں ذاتی طور پر منیٰ عرفات میں موجود تھا دردِ دِل سے بتاتا ہوں بہت سے بزرگ مرد خواتین روتے ہوئے ملے ، مزدلفہ لے جائیں یا کم از کم ٹرین کے سٹیشن کا پتہ بتا دیں، منیٰ کی کسمپرسی پر تو کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ساری کوشش اصلاح اور بہتری کے لئے ہے خدارا میری تحریر میں کسی جگہ کسی کا دِل دکھانا مقصود نہیں،کسی کی تضحیک کرنا مقصود نہیں، بلکہ مسائل کی سچے دِل سے نشاندہی کرنا ہے وہ کر دی ہے آخر میں اتنا کہوں گا کہ سرکاری سکیم ہو یا پرائیویٹ سکیم بلاوجہ سارے معمولات کو تاخیر میں نہیں جانا چاہئے۔سرکاری سکیم ہو یا پرائیویٹ سکیم سب کے حاجی پاکستانی ہیں،اللہ کے مہمان ہیں یکساں نظام ترتیب دینا چاہئے۔ مشاورت کے عمل کو آگے بڑھانا چاہئے،فیصلے مسلط کرنے کی بجائے پرائیویٹ سکیم کے نمائندوں کو مشاورت کے عمل کاحصہ بنانا چاہئے۔اگر کسی کے لئے سزا طے کی گئی ہے تو جزا کا نظام بھی ہونا چاہئے، اچھا کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ضروری ہے، سرکاری سکیم کی طرح پرائیویٹ سکیم کے بھی جو مسائل ہیں ان کو بھی حل کرنے کی طرف توجہ دینا چاہئے،دھمکیوں اور بلیک میلنگ کی بجائے میرٹ کے نظام کو آگے بڑھانا چاہئے۔ (ختم شد)

مزید :

کالم -