ملک کو تنظیم نو کی ضرورت ہے

ملک کو تنظیم نو کی ضرورت ہے
ملک کو تنظیم نو کی ضرورت ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستانی تاریخ کے ایک اور سیاہ ترین دن سولہ دسمبر 2014ء کو پشاور اسکول میں بچوں کے ساتھ جس دیدہ دلیری سے کسی مزاحمت کا سامنا کئے بغیر معصوم اور کم عمر بچوں کا خون جس بے دردی کے ساتھ بہایا گیا اس پر پاکستانی سیاست دانوں کے علاوہ دنیا بھر کے سیاست دانوں ، حکومتوں اور ذرائع ابلاغ نے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ اس واقعہ پر پاکستانی قوم نے جس انداز میں یک زبان ہو کر کسی دینی، مذہبی، رنگ و نسل کے امتیاز سے بلند ہو کر رد عمل دیا ہے وہ دہشت گردی کی کسی کارروائی پر پہلا اجتماعی رد عمل ہے۔ یہ اس بات کی عکاسی ضرور کرتا ہے کہ قوم تو متحد ہے ،لیکن اس اتحاد کو عملی جامہ کس طرح پہنایا جائے گا۔ بظاہر تو سیاست داں بھی متحد ہو گئے ہیں۔ وزیراعظم نے پارلیمانی جماعتوں کے رہنماؤں کا اجلاس کیا۔ نواز شریف اور عمران خان کندھے ملا کر بیٹھے۔ رہنماؤں کو ایکشن پلان ترتیب دینے کا کام دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہماری لڑائی صرف دہشت گردی کے خاتمے تک محدود ہے ، کیا فوج ان کی کمیں گاہوں کو نیست و نابود کر دے تو یہ لڑائی ختم ہو جائے گی۔ پاکستان طویل عرصے سے مختلف اقسام کی دہشت گردی کا شکار ہے۔ شائد ہی کوئی بڑا شہر محفوظ رہ سکا ہو جہاں عوام نے دہشت گردی کا خمیازہ نہیں بھگتا ہو۔
قوم کے غم و غصے کے پیش نظر حکومت نے فوری قدم کے طور پر فوجی اور سول عدالتوں سے سزا یافتہ مجرموں کو پھانسیاں دینے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ یہ عمل حکومت کے خیال میں عوام کے غم و غصے کو ٹھنڈا کرنے کا سبب بھی بنے گا۔ اچانک سلسلہ شروع کیا گیا ۔ دہشت گردوں، قاتلوں کو پھانسی کی سزا ئیں پہلے کیوں نہیں دی جارہی تھیں۔ اس کی وضاحت کون کرے گا۔ صدر پاکستان کے پاس رحم کی اپیل کیوں جاتی ہے۔ اعلی ترین عدالتوں سے فیصلوں کے بعد صدر کو معافی کا اختیار کیوں دیا گیا ہے۔ پھانسی کی سزا سیشن جج دیتے ہیں جس کے بعد اپیلوں کی صور ت میں ان کے فیصلوں پر ہائی کورٹ اور دوبارہ اپیل کی صورت میں سپریم کو رٹ نظر ثانی کرتی ہیں۔ کیا یہ نظر ثانی یہ ثابت نہیں کرتی کہ کوئی مجرم معصوم ہے یا نہیں؟ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ فوجی عدالتیں قائم کی جا ئیں گی۔ حکومت سول عدالتوں کو کیوں مضبوط نہیں کرتی اور پابند کیوں نہیں بنا سکتی کہ وہ ایک مقررہ مدت میں فیصلہ صادر کریں خواہ ججوں کو رات کے وقت ہی کام کیوں نہ کرنا پڑے۔
پاکستان میں در حقیقت پورے کا پورا نظام ہمارے حکمرانوں کی وجہ سے بیٹھ گیا ہے۔ اس نظام کو چلانے کے لئے دھکے دینا پڑ رہے ہیں۔ اس کا تذکرہ تو اعلی عدالتوں کے جج صاحبان بھی بار بار کرتے ہیں۔ اس نظام میں متحرک ہونے کی خود کار صلاحیت ہی ناپید ہوگئی ہے۔ البتہ حکمرانوں کی حفاظت کا مکمل انتظام ہر وقت ہر جگہ ہوجاتا ہے۔ قوانین سارے موجود ہیں ،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں قانون کی بالا دستی نہیں، قانون کی عمل داری نہیں ہے۔ جب عمل داری ہو گی تو ہی قانون کی بالا دستی ہوتی ہے۔ کیا فرائض کی ادائیگی میں ناکامی قابل معافی جرم ہے ۔ حکومتوں نے دہشت گردی کے کسی واقعہ کے بعد کسی ادارے یا افسران سے پوچھ گچھ کی کہ واقعہ کی روک تھام میں وہ کس حد تک ناکام ہوئے اور ان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ؟ موبائل فون کی سم کا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ وفاقی حکومتوں کے وزرائے داخلہ گزشتہ چند سالوں سے دہشت گردی کے ہر واقعہ کے بعد غیر رجسٹر شدہ سموں پر پابندی کا عندیہ سناتے رہے ہیں ،لیکن ہوتا کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہیں۔ ان کے اعتراف میں یہ بات پوشیدہ ہے کہ پاکستان میں حکومتوں کی ساکھ اور جسے عرف عام میں رٹ کہا جاتا ہے، ناپید ہو گئی ہے۔

جب حکومتوں کے احکامات پر گلیوں سڑکوں پر عمل در آمد نہ ہو سکے تو بڑے بڑے پرائیویٹ اور سرکاری اداروں کا تو خدا ہی حافظ ہے۔ کیا سرکاری ملازمتیں رشوت لے کر غیر اہل لوگوں کو دینا دہشت گردی کا عمل نہیں ہے ؟ کیا اغواء براے تاوان، بھتہ لینا، دہشت گردی نہیں ہے۔ عدالتوں میں عملہ جس طرح منہ پھاڑ کر کھلے عام پیسے وصول کرتا ہے وہ کیا ہے۔وکلاء جس انداز میں اپنی مرضی کی فیس وصول کرتے ہیں، اور ان کی اکثریت کوئی رسید جاری نہیں کرتی۔ وہ کیا ہے۔ سڑک پر جو لوگ کالے شیشوں کی گاڑی چلاتے ہیں وہ کیا ہے۔ بغیر نمبر پلیٹ کے موٹر سائیکل یا کار کیوں چلائی جاتی ہے۔ اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی دانستہ غفلت کی وجہ سے مریض کے ہلاک ہوجانے کو کیا کہا جائے۔ عوام کے لئے فلاحی کاموں یعنی سڑکوں کی تعمیر، پلوں کی تعمیر، پینے کے پانی کی پائپ لا ئن ، اسکول اور اسپتالوں کی عمارتوں کی تعمیر، پر کمیشن، رشوت اور غیر معیاری کام کرانا دہشت گردی کے زمرے میں کیوں نہیں آتا ہے۔ خوراک، ادویات میں ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی کو ہم کس کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ قابل معافی ہے اور قانون سے بلند ہے؟
ملک بھر کے بڑے اور چھوٹے شہروں میں منشیات کے اڈوں کی پرورش کیوں کی جاتی ہے اور پولیس ان سے روزانہ کی بنیاد پر بھتہ کیوں لیتی ہے۔ سندھ میں تو تھانے اسی رقم سے چلانے کا دعوی بھی کیا جاتا ہے ۔ پولیس والے مقدمہ درج کرنے کے پیسے لیتے ہیں، پولیس تمام جرائم پیشہ افراد کی پرورش کرتی ہے۔ ان سے پیسہ کماتی ہے اور کسی موقع پر انہیں ٹھکانے بھی لگا دیتی ہے۔ یہ سب کچھ کیا ہے؟ کیا حکمران ،اراکین پارلیمنٹ ، اراکین صوبائی اسمبلی ، ذرائع ابلاغ کے لئے کام کرنے والے افراد ان سے واقف نہیں ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے خون میں اچانک ابال پیدا ہوتا ہے اور ہم جذبات میں بہہ جاتے ہیں ، ہم ماتم کرتے ہیں، سینہ کوبی کرتے ہیں، روتے دھوتے ہیں۔ دل کا غبار نکا ل لیتے ہیں ، اس دوران ہمیں سب کچھ قابل قبول لگتا ہے۔ چند دنوں کے بعد ہم اپنے اپنے تئیں جگہ جگہ قانون کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ہمارے خون میں لا قانونیت اس حد تک گھر چکی ہے کہ ہمیں قانون اپنے پڑوسی کے لئے یاد آتا ہے اس کا اطلاق ہم اپنے اوپر نہیں چاہتے ہیں۔ حکومت یا ریاست کی ساکھ اور بھرم کا خیال تو حکومت اور دیگر اہم اداروں کے لوگوں کو ہی نہیں رہتا۔ عام لوگ کیا کریں۔ جو سب کی روش وہ ان کی بھی۔ مطلب ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں ۔

پاکستان کے تمام سرکاری اداروں کو نئے سرے سے منظم کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس ملک کی ری اسٹرکچرنگ کی ضرورت ہے۔ وقت نئی روح پھونکے کا تقا ضہ کرتا ہے۔ پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ تمام چھوٹے بڑے اداروں میں اہل ترین افراد کی تقرریاں کی جائیں۔ اہلیت کا ہی ایک اصول کار فرما رہے۔ پسند، نا پسند نہیں، سفارش نہیں، تعلقات نہیں۔ اگر اداروں کا حجم زیادہ ہے تو انہیں ختم کردیں ،لیکن جتنے ادارے بھی موجود ہوں انہیں پابند کریں کہ وہ کام کریں۔ اور اس کا ایک ہی بنیادی اصول نافذ کریں کہ قانون کی کتاب پر عمل کیا جائے۔ ہر افسر یا اس کا ماتحت جواب دہی کے لئے تیار رہے۔ یہاں کوئی ایسی توقع کیوں کرے جب وزیراعظم نے انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی خصوصی کمیٹی تشکیل دی تو وہ آ ج تک اپنی رپورٹ مرتب نہیں کر سکی ہے۔ اجلاسوں کا سلسلہ جاری ہے ،لیکن تاحال بے نتیجہ۔ ہمارے حکمرانوں کا مسئلہ اپنا آج کا دن گزارنا ہے۔ انہیں مستقل بنیادوں پر اس ملک کی فکر ہی نہیں ہوتی۔ ان کی ترجیحات کچھ اور ہوتی ہیں۔ اگر حکمران اور اعلیٰ سرکاری افسران پاکستان کو اولین ترجیح دیتے ہیں تو پہلے اپنی اپنی دہری شہریت کے خاتمے کا اعلان کریں ۔ یہ نہیں چلے گا کہ ایک جیب میں پاکستان کی ملازمت یا عہدہ اور دوسری جیب میں امریکہ، برطانیہ یا کسی اور ملک کا پاسپورٹ رکھا ہوا ہو ؟
اس ملک کو بچانے کے لئے اگر سڑکوں پر بھی تختہ دار لگانے پڑیں تو لگا دیں ، تاکہ عوام کو ہر طرح کی دہشت گردی سے نجات مل سکے۔ روز روز کا جینا اور روز روز کا مرنا کس کام کا؟ اسے ایک ایسا مسلسل عمل بنانا ہوگا جب تک ملک میں قانون کی بالا دستی قائم نہیں ہوجاتی۔ سکھر ہائی کورٹ نے 2005میں فیصلہ صادر کیا تھا کہ قتل کے معاملات طے کرنے کے لئے جرگے نہیں کئے جائیں گے اس فیصلے پر آج تک عمل اس وجہ سے نہیں ہو سکا کہ قانون کبھی حرکت میں نہیں آیا۔ سینکڑوں قتل کے مقدمات جرگوں نے نمٹا دئے۔ جرگے جرمانہ عائد کر کے قاتلوں کو بہانہ دیتے ہیں۔ جرمانوں کی ان رقموں کا بوجھ اکثر قبائل اور برادریوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
سپریم کورٹ میں ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ حکومت کا کوئی محکمہ کام کرنے پر آمادہ نہیں ہے، انہیں دھکے دے کر چلانا پڑتا ہے۔ اس طرح کی صورت حال میں تو تاریخ بتاتی ہے ریاستیں ڈھیر ہو گئی ہیں۔ پشاور حادثے میں ایک بچے کے والد نے اپنے بیٹے کے جنازے پر کہا کہ ’’ ہم شہادتیں دے رہے ہیں، لیکن ایک ہی گزارش ہے کہ خدا را پاکستان کو بچالیں ‘‘ ۔ پاکستان اسی صورت میں محفوظ رہے گا جب یہاں قانون پر عمل در آمد ہوگا اور قانون سب کے لئے ہمہ وقت محترم اور متحرک رہے گا۔ یہ بات اس تماش گاہ میں حکمران طبقے کو قبول ہے نہ ہی پسند۔

مزید :

کالم -