رشین میڈیا کے نئے رجحانات!

رشین میڈیا کے نئے رجحانات!
 رشین میڈیا کے نئے رجحانات!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


چارسدہ کچہری پر پرسوں جو دہشت گردانہ حملہ ہوا وہ اس نوع کے گزشتہ حملوں کا تسلسل بھی کہا جا سکتا ہے۔ اگر پولیس یہ حملہ اپنی جان پر کھیل کر ناکام نہ بناتی تو اس میں جانی نقصانات کی شرح بھی لاہور اور سہیون شریف پر حملوں کے برابر ہو سکتی تھی۔اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ خودکش حملوں کی اس تازہ لہر کا ابھی خاتمہ نہیں ہوا۔ پاکستان ہی نہیں دنیا کے کسی بھی ملک کے شہروں میں حملہ آوروں کے ٹارگٹ اَن گنت تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ سکول، کالج، ریلوے سٹیشن، ہوائی اڈے، بسوں کے اڈے، بازار، مزارات، چوک، کچہریاں، کس کس کا نام لیں۔ تاہم پاکستان پر ان حملوں کی بہتات اس لئے ہے کہ اس کے چاروں طرف جتنے بھی ممالک واقع ہیں ان میں سے نصف ایسے ہیں جن کی جغرافیائی سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں اور وہ پاکستان کے بدترین دشمن بھی ہیں۔ پاکستان ان حملہ آوروں کا ترکی بہ ترکی جواب دے سکتا تھا اگر غیر ملکی کھلاڑی اس میدان میں پاکستان کے مقابل نہ ہوتے۔ ان کھلاڑیوں میں نہ صرف یہ کہ دنیا کی واحد سپرپاور شامل ہے بلکہ اس کے ساتھ سارے مغربی یورپ کی عسکری قوت بھی (ناٹو کی شکل میں) ملوث ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان اس پوشیدہ یلغار کا جواب کیسے دے اور یہ واحد سپرپاور اور ناٹو پاکستان کے در پئے آزار کیوں ہیں؟
ان سوالوں سے جڑا ہوا ایک اور اہم سوال یہ بھی ہے کہ آیا پاکستان اتنے متعدد اور طاقتور دشمنوں کا مقابلہ کر سکتا ہے؟۔۔۔ خوش قسمتی سے اس کا جواب اثبات میں ہے!


پہلے سوال کا تاریخ و جغرافیہ یہ ہے کہ یہ پاکستان مخالف تازہ مہم اس لئے شروع ہوئی کہ اس میں دنیا کے طاقتور ترین ملک امریکہ کے سٹرٹیجک عزائم کو ناکام بنانے میں پاکستان ایک اہم ترین کردار ادا کر رہا ہے۔ اس نے امریکہ کو اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ دنیاکی ابھرتی ہوئی ایک عظیم قوت (چین) کے گرد گھیرا تنگ کر سکے۔ ہاں اگر پاکستان، بھارت، میانمر، بنگلہ دیش، ویت نام اور تھائی لینڈ وغیرہ مل کر ایک ہی صفحے پر ہو جاتے تو چین کا ناطقہ بند کیا جا سکتا تھا۔لیکن پاکستان نے اپنے سٹرٹیجک مفادات کی خاطر امریکی ارادوں کے سامنے بند باندھنے کی اپنی دیرینہ روش پر بڑی تندہی اور تسلسل سے عمل کیا اور اس کے نتیجے میں سارے مغرب کو اپنا دشمن بنا لیا۔ نہ صرف یہ بلکہ پاکستان نے امریکہ کی اس چودھراہٹ کے لئے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی جو اس کو برسہا برس سے مشرق وسطیٰ پر حاصل تھی۔ اسی مشرق وسطیٰ میں اسرائیل بھی تھا جو امریکہ اور مغرب کی ایک طاقتور بیرونی چوکی (Out-post) سمجھا جاتا تھا۔ اس بیرونی چوکی کو اب ایک طرف سے ایران کی براہ راست مخاصمت کا سامنا ہے تو دوسری طرف نیو کلیئر پاکستان کی بالواسطہ مخالفت اس کی سدراہ ہے۔ یہ پاکستان کا دوسرا بڑا جرم تھا جو مغرب کو ایک آنکھ نہ بھایا ۔مغرب ابھی ان دونوں جرائم کی روک تھام کر رہا تھا کہ ایک تیسرا جرم بھی پاکستان سے سرزد ہو گیا جو ایک ارادی جرم تھا اور اس کے نتائج نہ صرف پورے مغرب کے لئے تباہ کن ہو سکتے ہیں بلکہ امریکہ وغیرہ کے وہ اولین عزائم جو اس نے چین جیسی ابھرتی ہوئی عظیم قوت کے مقابل استوار کر رکھے تھے وہ بھی پاش پاش ہوتے نظر آنے لگے ہیں۔۔۔ یہ تیسرا جرم سی پیک CPEC تھا (اور ہے!)


امریکہ، بھارت اور افغانستان تینوں مل کر، سی پیک کو ناکام بنانے کے لئے، پاکستان میں جماعت الاحرار کی پراکسی کے روپ میں، خودکش حملہ آوروں کی ایک نئی لہر کی آزمائش دیکھ رہے ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ CPECکا افتتاح ہو چکا ہے اور اس نے اپنے ’’منطقی انجام‘‘ کی طرف گامزن ہونا ہے۔ آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں، امریکہ کو نہ صرف جنوبی ایشیاء سے نکلنا ہے، مشرق وسطیٰ کے تیل سے ہاتھ دھونے ہیں بلکہ بحرالکاہل میں اپنے درجنوں جزیروں پر تعینات ہزاروں لاکھوں امریکی ٹروپس کو یا تو واپس اپنی سرزمین (Mainland) پر بلانا ہے یا انہیں موقوف (Disband) کرنا ہے۔ یہ سارا کام 2050ء تک ہو کے رہنا ہے ۔۔۔امریکہ اپنے دوسرے دو اتحادیوں (بھارت اور افغانستان) سے مل کر اس ٹارگٹ ڈیٹ (یعنی 2050ء ) کو درہم برہم کرنا چاہتا ہے۔
پاکستان میں حالیہ خودکش دھماکوں کا مقصد پاکستان کو غیر مستحکم بنانے کے علاوہ CPEC کے مستقبل کو بھی غیر مستحکم بنانا ہے۔ اس لئے جماعت الاحرار کا اگلا ٹارگٹ پاکستان کے شہروں پر خودکش حملے نہیں بلکہ CPEC کے قرب و جوار پر حملوں اور آخر میں چینی انجینئروں اور کاریگروں کے ان گروہوں پر حملے بھی ہیں جواس کا ریڈار کی تعمیر و تشکیل میں دن رات مصروف ہیں۔ تقریباً ایک ڈویژن پلس کی وہ نفری جو پاکستان نے CPEC کے معماروں کی حفاظت کے لئے لگا رکھی ہے اس پر ان حملوں کا آغاز ہو سکتا ہے ۔کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آج پینٹاگون، دلی اور کابل میں ان حملوں کی پلاننگ کا کیف و کم کیا ہے اور وہاں اس کا ٹائم ٹیبل کیا ترتیب پا رہا ہے۔ میں نے کل کے کالم میں جس رشین تھنک ٹینک کی طرف اشارہ کیا تھا اس نے ان پاکستان مخالف منصوبوں کی تفصیلات پر مضامین لکھنے شروع کر رکھے ہیں اور یہ آرٹیکل روسی یا چینی زبانوں میں نہیں بلکہ انگریزی زبان میں شائع ہو رہے ہیں۔


ریجنل ریپو (Regional Repport) کے نام سے ماسکو میں قائم اس تھنک ٹینک میں 17فروری 2017ء کو اینڈریو کوری بکو (Andrew Korybko) نے ایک آرٹیکل لکھا ہے جس کا عنوان ہے: ’’CPEC کے خلاف نئی جنگ میں پاکستان کا جواب‘‘۔۔۔ مسٹر اینڈریو ایک جواں سال روسی صحافی ہیں اور ماسکو میں قائم ’’انسٹی ٹیوٹ آف سٹرٹیجک سٹڈیز اینڈ پری ڈکشنز‘‘ جیسے معروف اور نامور میڈیا آؤٹ لیٹ (outlet)کے ایک مشہور لکھاری اور تجزیہ نگار ہیں۔ یورپ اور ایشیا میں امریکی امور و عزائم پر ان کی گہری نظر ہے اور دنیا بھر میں آج کل غیر روائتی طریقہء جنگ (دہشت گردی) کا جو ایک نیا تجربہ کیا جارہا ہے اس پر تسلسل سے تبصرے اور تجزئے شائع کرتے رہتے ہیں۔ ان کے ایک حالیہ تجزیئے (جس کا ذکر میں نے اوپر کی سطور میں کیا ہے) کا اولین پیراگراف دیکھئے:


’’گزشتہ پانچ سات دنوں میں دہشت گردوں نے پاکستان پر آٹھ حملے کئے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان بری طرح متاثر ہوا ہے۔ یہ حملے دنیا پر یہ واضح کرنے کے لئے کئے جارہے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں ایک فرنٹ لائن سٹیٹ ہے۔ یہ حملے اس وجہ سے نہیں کئے جارہے کہ پاکستان نے اپنے علاقوں سے طالبان کو نکال کر افغانستان میں پناہ لینے پر مجبور کردیا ہے اور یہ حملے اسی کارروائی (ضرب عضب) کا شاخسانہ (Blowback)ہیں بلکہ یہ CPECکو ناکام کرنے کی کوشش ہیں۔ اینڈریو نے اس آرٹیکل میں لکھا ہے کہ CPEC صرف چین کے ’’ون بیلٹ۔ ون روڈ‘‘ منصوبے یا پرانی سلک روڈ کے احیاء کا نام نہیں بلکہ اقتصادی راہداری کا یہ منصوبہ پاکستان کو مختلف تہذیبوں کا ایک نیا گڑھ بنانے کا منصوبہ ہے۔ مصنف کا استدلال ہے کہ پاکستان اس راہداری کے طفیل ایک طرف چین، روس اور وسط ایشیائی ریاستوں اور دوسری طرف مشرق وسطیٰ، افریقہ ، یورپ اور مشرق بعید کے ممالک کا بھی ایک عظیم سنگم بن جائے گا!


مضمون نگار کا استدلال بہت وزنی ہے۔ وہ لکھتا ہے:’’ امریکہ اور اس کے اتحادی CPECکو اس نگاہ سے دیکھ رہے ہیں کہ یہ منصوبہ مستقبل میں ان کی عالمی اجارہ داری کی موت ثابت ہوگا۔ اس لئے واشنگٹن اور نئی دہلی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ CPECکو ہر طریقے سے سبوتاژ کر دیں گے اور اس طرح اپنے مقاصد کی تکمیل کرکے رہیں گے ۔ انڈیا اور امریکہ دونوں اپنے مقاصد کی تکمیل میں افغانستان کو استعمال کرکے پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اُن کی اِن دہشت گردانہ کارروائیوں کی وجہ سے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ لگانے سے خوف آنے لگے گا۔ ان حملوں کا عالمی میڈیا پر جب عام چرچا ہوگا تو غیر ملکی سرمایہ کار، پاکستان کو ایک غیر مستحکم ریاست سمجھتے ہوئے اس طرف آنے سے باز رہیں گے۔ یہ امر CPEC کی آئندہ کامیابیوں کو گہنا دے گا۔‘‘


لیکن اینڈریو کا سب سے زیادہ زور دار استدلال جو اس نے اپنے مضمون میں پاکستان اور CPECکے حق میں کیا ہے وہ پڑھنے کے قابل ہے۔ وہ لکھتا ہے :’’ جان لینا چاہئے کہ کوئی بھی دہشت گرد اس پراجیکٹ (CPEC)کو روک نہیں سکتا۔ اگر دہشت گرد اس پراجیکٹ کے کسی ایک حصے کو تباہ بھی کر ڈالیں یا اس کے کسی حصے پر تعمیری کام روک بھی دیں تو بھی اس سے پاکستان کے امیج کو داغدار نہیں بنایا جاسکتا۔ اگر کوئی دہشت گرد یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس پراجیکٹ کی تعمیر و تشکیل کو روک کر پاک چین تعلقات کی سٹرٹیجک شراکت کو کوئی گزند پہنچا سکتا ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔ اسلام آباد اور بیجنگ کے تعلقات جو فولاد کی طرح مضبوط ہیں، ان میں کسی تزلزل کے کوئی آثار نظر نہیں آتے!‘‘


قیام پاکستان سے لے کر اب تک روس کو بھارت کا ایک بڑا اتحادی سمجھا جاتا تھا۔ روس اب بھی بھارت کے دفاعی سازوسامان کا ایک بڑا فراہم کنندہ ملک ہے۔ لیکن اب اس خطے میں بین الاقوامی حالات اس تیزی سے بدل رہے ہیں کہ روس کو اپنی پرانی سوچ تبدیل کرنی پڑ رہی ہے۔ روس اور پاکستان کے نئے تعلقات ایک الگ موضوع ہے، ہم اس کی تفصیل میں نہیں جاتے لیکن اگر ماسکو میں کسی انسٹی ٹیوٹ آف سٹرٹیجک سٹڈیز میں کوئی تجزیہ نگار اس طرح کے مضامین لکھ رہا ہے جس کا ایک حصہ آپ نے اوپر ملاحظہ کیا تو یہ پاکستان کے لئے ایک نیک فال ہے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے پاکستان کے سیکیورٹی خدشات مستقبل قریب میں کم نہیں ہوں گے اور ہمیں ان کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے اور چین اور روس کو اب مزید کھل کر پاکستان کے حق میں ’’باہر نکلنے‘‘ کی ضرورت ہوگی!

مزید :

کالم -