جمہوریت کے مولا جٹ
مئی 2013ءکے انتخابات سے پہلے کاغذات نامزدگی اور اُن کی منظوری کے دوران جب ریٹرننگ افسران امیدواروں کی اہلیت جانچنے کے لئے کلمے اور سورتیں سن رہے تھے، تو مجھے خوا مخواہ یہ خوش فہمی ہو گئی تھی کہ اب واقعی آئین کی شق 62-63 سے دھل کر ایسے لوگ سامنے آئیں گے، جن کی اس درداں دی ماری قوم کو اشد ضرورت ہے۔ شریف النفس عوام کے خادم، قانون کے پیرو کار، سچے کھرے اور دیانتدار، اُن دنوں جب ڈاکٹر طاہر القادری یہ واویلا کر رہے تھے کہ 62- 63 کی شقوں میں امیدوار کے کردار، اُس کے رویئے، معاشرے میں اس کی عمومی شہرت، اُس کے ٹیکس کے معاملات اور اُس کی دیانتداری کو بھی موضوع بنایا جاتا ہے، اس لئے کاغذات کو منظور یا رد کرنے کے نام پر سارا فراڈ ہو رہا ہے تو مجھے ان کی یہ باتیں اچھی نہیں لگتی تھیں۔ مَیں اُنہیں بے وقت کی راگنی سمجھتا تھا۔ 62- 63 کے تحت اتنا کچھ تو ہو رہا تھا، اس سے زیادہ کیا ہوتا....؟ لیکن اسمبلیاں معرض وجود میں آنے کے بعد جب مختلف ارکانِ اسمبلی کے کرتوت سامنے آئے تو محسوس ہوا کہ واقعی امیدواروں کے کاغذات اور کردار کی جانچ پڑتال ایک ڈرامہ تھا، جس کے ذریعے ایک بار پھر قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی۔ اُن سب لوگوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی گئی، جو 62- 63 تو کیا شرافت و دیانت کے عام معیار پر بھی پورا نہیں اُترتے۔
مجھے کوئی اس بات پر قائل کرے کہ فیصل آباد کے ایم پی اے راناشعیب کے کاغذات منظور کرتے ہوئے کس بات کی جانچ پڑتال کی گئی تھی؟ موصوف کے بارے میں جو حقائق سامنے آئے ہیں، اُن کی رو سے تو وہ ایک مستند قسم کے قانون شکن ہیں، تھانہ کھرڑیانوالہ فیصل آباد سے اپنے حامیوں کو زبردستی چھڑانے کا جو واقعہ میڈیا کی وجہ سے ان کے گلے پڑ گیا ہے، یہ اُن کی زندگی کا پہلا ”کارنامہ“ تو ہے نہیں، وہ تو ایم پی اے بننے سے پہلے بھی اس قسم کے کارناموں کے عادی رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اگرچہ اُن کے اس تازہ کارنامے کا سخت نوٹس لیا ہے اور توقع یہی ہے کہ موصوف اپنی نشست سے بھی محروم ہو جائیں گے، مگر سوال یہ ہے کہ اُن کے بارے میں سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی تین سطحوں پر انتخابات کیسے ہوا؟ کیا یہ ہمارے انتخابی نظام کی سراسر خامی نہیں کہ اس میں ایسی ذہنیت رکھنے والے شرفاءکے مقابلے میں سب سے آگے آ جاتے ہیں۔ انتخابی عمل کی پہلی سطح یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کو ٹکٹیں جاری کرتی ہیں، کیا مسلم لیگی قیادت کو اُن کے کردار و عمل کا علم نہیں تھا۔ آخر کیا طریقہ کار تھا جس سے گزر کر رانا شعیب مسلم لیگ (ن) کے امیدوار بنے؟ پارٹی قیادت کو آج جو شرمندگی اُن کی وجہ سے اُٹھانا پڑ رہی ہے، کیا بہتر نہیں تھا کہ ٹکٹ جاری کرنے کے مرحلے پر پوری طرح جانچ پڑتال کی جاتی۔ مسلم لیگی قیادت اپنے اس سوا سال کے عرصے میں ایسے کتنے واقعات کا سامنا کر چکی ہے اور کئی نمائندوں سے اُس نے استعفے بھی لئے ہیں۔ انتخاب کا دوسرا مرحلہ کاغذات امزدگی کی وصولی و منظوری ہے۔ کہنے کو یہ بہت اہم مرحلہ ہے اور پچھلی بار تو اسے ایک ہوا بنا کر پیش کیا گیا تھا۔ مگر ہوتا کیا رہا، اس کا بخوبی اندازہ رانا شعیب جیسے شخص کے کاغذات کی منظوری سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مرحلے میں بھی سوائے خانہ پری کے اور کچھ نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے وہ تمام لوگ انتخابات میں حصہ لینے کے اہل قرار پائے،جنہیں آئین کی شق 62-63 کی زد میں آکر نا اہل قرار دیا جانا چاہئے تھا۔
انتخاب کا تیسرا مرحلہ ووٹنگ ہے۔ یہ مرحلہ عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے عوام آج بھی کسی باکردار، قانون پسند، نیک اور دیانتدار شخص کا انتخاب کرنے کی بجائے اُس شخص کو اہمیت دیتے ہیں، جو تھانے کچہری کی سیاست کرتا ہے۔ جو مولا جٹ قسم کے کردار کا حامل ہوتا ہے جو اپنے ساتھیوں کو چھڑانے کے لئے تھانوں پر چڑھ دوڑتا ہے۔ جو پولیس والوں کو سرعام تشدد کا نشانہ بناتا ہے، اور ہیرو قرار پاتا ہے۔ ذرا آپ اس پہلو پر غور فرمائیں کہ جو شخص اپنے حلقے میں پولیس والوں کو گریبان سے پکڑ کر گھسیٹتا ہو، اس کی اپنے حلقے کے عوام پر کیا دھاک بیٹھتی ہو گی، کوئی شریف آدمی اُس کے سامنے سے گزرتے ہوئے بھی تین بار سوچتا ہوگا کہ کہیں کسی بات پر مزاجِ شاہی برہم نہ ہو جائے اور ایم پی اے صاحب مزا نہ چکھا دیں۔ ان سب باتوں کے باوجود عوام کو جب بھی موقع ملے گا، وہ ایسا ہی نمائندہ منتخب کریں گے۔ مجال ہے کسی شریف آدمی کا انتخاب کریں، کسی صاحبِ کردار، سفید پوش کو ووٹ دیں، درد مند دل رکھنے والے کسی غریب نمائندے کو حقِ نمائندگی دیں۔ یہ بات تو اُن کے مزاج ہی میں شامل نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ رانا شعیب سے اگر استعفٰا لیا جاتا ہے اور وہ نا اہل قرار نہیں پاتے، ضمنی انتخاب میں دوبارہ کھڑے ہو جاتے ہیں تو اُنہیں پہلے سے زیادہ، ووٹ ملیں گے، کیونکہ عوام اُنہیں اپنا ہیرو سمجھتے ہیں، جس نے تھانہ فتح کیا ہے، پولیس کو نکیل ڈالی ہے، اپنی طاقت کو منوایا ہے۔
جمہوریت کے شیدائیوں اور علمبرداروں میں ہم بھی شامل ہیں، مگر سچی بات ہے اس جمہوریت نے شرمندہ بہت کیا ہے۔ یہ جمہوریت عوام کو ورغلاتی ہے، اُنہیں گمراہ کرتی ہے۔ اس میں منتخب نمائندوں کو شہنشاہیت کا تاج پہنایا جاتا ہے۔ وہ اپنے حلقوں کے بادشاہ کہلاتے ہیں۔ قانون اُن کے گھر کی لونڈی ہوتا ہے اور سرکاری ادارے اُن کے سامنے کورنش بجا لانے والے غلام ہوتے ہیں۔ اوپر سے نیچے تک جمہوریت سے فیض یاب ہونے والوں کی یہی سوچ ہوتی ہے۔ یہ طبقہ¿ حکمراناں خود کو ایک لمحے کے لئے بھی عوام کا خادم نہیں سمجھتا۔ میرا خیال ہے شہباز شریف کا خود کو خادم اعلیٰ قرار دینا رائیگاں گیا ہے، کیونکہ اُن کے نیچے جو خادم ہونے چاہئے تھے، وہ کہیں نظر نہیں آتے، بلکہ ہر طرف حاکموں کا دور دورہ ہے۔ وزیر اعلیٰ کا کام تو بس یہ رہ گیا ہے کہ ایسے اتھرے قسم کے قانون شکنوں کو لگام ڈالیں اور فوری نوٹس لے کر اُن کی گرفتاری کا حکم دیں۔ کوئی اور شخص تھانے سے اس طرح ساتھیوں کو چھڑانے آتا تو پولیس مقابلے میں کب کا پار ہو چکا ہوتا۔ یہاں تو ٹریفک وارڈن بھی عام آدمی کے خلاف اونچا بولنے پر کار سرکار میں مداخلت کا پرچہ درج کرا دیتا ہے، مگر یہ عوامی نمائندے جو چاہے کریں، اُن کی گرفت تبھی ہوتی ہے، جب اُن کا کوئی کارنامہ میڈیا پر مشتہر ہو جائے۔ یہ واقعہ بھی اگر میڈیا کے ذریعے سامنے نہ آتا تو رانا شعیب کو کوئی مائی کا لال ہاتھ تک نہیں لگا سکتا تھا، کیونکہ اس سے پہلے بھی وہ ایک تھانے میں پولیس والوں کو گریبان سے پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنا چکے ہیں۔ جس کی اب سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آ گئی ہے۔ اُس واقعہ پر قانون کے محافظ بھیگی بلی بن کر خاموش بیٹھے رہے۔ دھاک کا یہ عالم ہے کہ پولیس نے حالیہ واقعہ کی جو ایف آئی آر درج کی ہے، اُس میں موصوف کا نام تک لکھنے کی جرا¿ت نہیں کی، بلکہ اُسے ایک سیاسی شخصیت قرار دیا ہے۔
یہی وہ عوامل ہیں، جن کی وجہ سے ڈاکٹر طاہر القادری اس جمہوری نظام کو فراڈ قرار دیتے ہیں، ایسے کیس سامنے آتے ہیں تو اُن کے موقف کی مزید تائید ہو جاتی ہے۔ ایک طرف وہ پولیس ہے جو سانحہ¿ ماڈل ٹاﺅن میں نہتے لوگوں پر گولیوں کی بارش کر دیتی ہے، اور دوسری طرف وہ پولیس ہے کہ جو اپنے تھانے کی حوالات سے مجرموں کو چھڑانے والے ایم پی اے کے سامنے شرمناک بزدلی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ یہ سب کچھ اُس انارکی کو ظاہر کرتا ہے، جو ہمارے معاشرے میں در آئی ہے.... جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے محاورے کو عملی شکل دے کر جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، اُس کی وجہ سے ہم ایک ایسی بند گلی میں پھنستے جا رہے ہیں، جو اپنے اختتام پر بہت تنگ ہے اور جس سے نکلنے کا کوئی راستہ بھی موجود نہیں۔ یہ کیسا نظام اور یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جس میں مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے عوام کے نمائندے بن جاتے ہیں۔کیا اس طوفان کے آگے بند باندھے بغیر ہم ایک مہذب جمہوریت سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں؟ ایسی جمہوریت کہ جس میں اعلیٰ اوصاف کے حامل عوامی نمائندے عوام کی رہنمائی کریں اور معاشرے کو قانون شکنی کا راستہ دکھانے کی بجائے قانون کے احترام کی راہ دکھائیں۔ جب تک یہ بنیاد ٹھیک نہیں ہوتی، جمہوریت کی عمارت اسی طرح لرزتی رہے گی۔