خان صاحب ! اب کیا بیچیں گے؟

خان صاحب ! اب کیا بیچیں گے؟
 خان صاحب ! اب کیا بیچیں گے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جائے کوئی ان کو ڈھونڈ کر لائے جو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی سیاسی حکمت عملی کو غلط کہنے والوں کو غلیظ گالیاں دیا کرتے تھے اور سمجھا کرتے تھے کہ وہ خان صاحب سے دوستی نبھا رہے ہیں مگر آج آزادکشمیر کے انتخابات کے نتائج نے ثابت کیا ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھی جس رستے پر چل رہے ہیں اس کی منزل ناکامی اور صرف ناکامی ہے۔ میرے پاس طوطے نہیں ہیں کہ میں ان سے فال نکلوا سکوں مگر میں سیاست اور صحافت کے طالب علم کے طور پر مشورہ دیتا ہوں کہ تحریک انصاف کو ابھی سے ہی آئندہ عام انتخابات کے نتائج کا اندازہ لگالینا چاہیے۔ کیا یہ سٹڈی خان صاحب تک پہنچ سکتی ہے کہ انہیں سندھ میں بہت آگے جانے کے بعد واپس آنا پڑا ہے ، پنجاب میں ان کی مقبولیت میں کسی قسم کا کوئی اضافہ نہیں ہوا اور خیبرپختونخوا میں وہ اپنی کارکردگی کے ساتھ اتنی نشستیں بھی نہیں جیت سکیں گے جنتی انہوں نے گذشتہ انتخابات میں جیتی تھیں اوروہ میاں محمد نواز شریف کی طرف سے اپنی صوبائی تنظیم اور حلیفوں کو گرین سگنل نہ دئیے جانے کی بنیاد پر ہی صوبے میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے دوسری طرف قومی اسمبلی میں بھی ان کی بطور اپوزیشن کارکردگی مایوس کن رہی ۔ کیا یہ امر حیرت انگیز نہیں کہ جس انتخابی دھاندلی کو بنیاد بنا کر جن انتخابی اصلاحات کے لئے وہ دھرنے تک دے رہے تھے ، اب ان کا ذکر تک نہیں کرتے ، کیا ووٹر اس سے یہ نتیجہ نکالنے میں سوفی صددرست نہیں تھاکہ وہ دھاندلی اور اصلاحات کے نعرے جمہوریت اور جمہوری نظام کو مضبوط کرنے کے لئے نہیں بلکہ اسے ڈی ریل کرنے کے لئے لگا رہے تھے اور اب کیا وجہ ہے کہ ان کی موجودہ سولو فلائیٹ احتجاجی مہم کو بھی کرپشن کے خاتمے کی بجائے صر ف اور صرف حکومت کے خاتمے کی خواہش نہ سمجھا جائے، یہ خواہشیں بعض اوقات بہت تھکا دیتی ہیں۔


آزادکشمیر کی انتخابی مہم میں صف اول کی قیادت کے طور پر بلاول زرداری اور عمران خان دونوں موجود تھے مگر میاں محمد نواز شریف نہیں تھے، وہ اپنے دل کے آپریشن کے سلسلے میں لندن میں مقیم تھے۔ عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ انتخابی مہم کسی بھی سیاسی جماعت کی کامیابی اور ناکامی میں اہم کردارادا کرتی ہے مگر مسلم لیگ نون کی انتخابی مہم قیادت کے حوالے سے کم زوری کا شکار رہی۔ میں نے کچھ عرصہ قبل لکھا تھا کہ جلسوں میں احمق جاتے ہیں اور اس سے بہرحال انتخابی مہم کی نفی مراد نہیں تھی، مراد وہ جلسے تھے جو غیر ضروری طور رپر اپنے حامیوں ، کارکنوں اور تنظیموں کو تھکاوٹ کا شکار کر رہے تھے مگر اب ایسا دور آ گیا ہے کہ شائد جلسوں پر مبنی انتخابی مہم میں بھی ماضی کی طرح اہم نہیں رہیں ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ مخالفین کے تابڑ توڑ حملوں کے دوران مسلم لیگ نون کی صف اول کی قیادت انتخابی مہم غائب سے ہونے کے باوجود کلین سویپ کر جائے۔یہ درست ہے کہ انتخابی مہم میں قائدین کے عوام سے براہ راست رابطوں کو ہمیشہ سے اہمیت حاصل رہی ہے مگر اب وقت آ گیا ہے کہ الیکٹرانک ، پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے سیاسی رہنما جلسوں میں یک طرفہ تقریروں کی بجائے اپنی اپنی پارٹی کے منشور، اہلیت، کارکردگی اور اس کی بنیاد پرامن، ترقی اور خوشحالی کے امکانات کو بامعنی بحثوں کومرکزی نکتہ بنائیں۔


مجھے کہنے دیں کہ بلاول بھٹو زرداری اور عمران خان کے پاس آزاد کشمیر کے عوام کے سامنے کارکردگی کے نام پر بیچنے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا، خیبرپختونخوا میں ان کی لفاظی سے چمکتی دمکتی رنگین دکان کا رنگ وروغن اکھڑنے لگا ہے۔ دکان خوابوں اور وعدوں کے مال سے بھری پڑی تھی ، افسوس، اس مال کے تو تین ،ساڑھے تین برسوں میں ریپر تک نہ کھولے جا سکے اور یوں انہیں دیمک کھا گئی۔ آزاد کشمیر،غیر سرکاری تنظیم الف اعلان کی رپورٹ کے مطابق، تعلیم میں پاکستان بھر سے آگے ہے مگر عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری کے صوبے بہت پیچھے، عمران خان مسلسل پانامہ لیکس بیچ رہے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ وہ فوج کی آمد پر مٹھائیاں تقسیم کرنے کی باتیں کر کے عوام کے دل جیت لیں گے مگر کشمیر کے عوام اس دورمیں بھی جمہوریت سے مستفید ہوتے رہے ہیں جس دور میں پاکستانی مارشل لاء کا سامنا کر رہے ہوتے تھے۔ کشمیریوں کے سامنے فوجی حکمرانی کا سامان بیچنا مناسب نہیں مگر یہ بات کوئی خان صاحب کو نہیں سمجھا سکا۔ مارکیٹ میں اس وقت نئی تھیوری تیزی کے ساتھ مقبولیت حاصل کر رہی ہے جس کے مطابق پاکستانی عوام کے لئے کرپشن کے خاتمے کے نعرے میں زیادہ دلچسپی نہیں رہی، سوشل میڈیا نے لوگوں کو اطلاعات تک رسائی دی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ صرف سیاستدان نہیں بلکہ تمام طبقے ہی کرپٹ ہیں لہذا اس سے کہیں زیادہ خدمت اور ترقی کا نعرہ اہم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جو سیاسی جماعتیں خدمت اور ترقی کے عمل کو اپنی سیاسی حکمت عملی کی بنیاد بنا رہی ہیں وہ کامیاب ہو رہی ہیں۔


اس وقت پی پی پی اور پی ٹی آئی کے حامی اپنی اپنی حکومتوں والے صوبوں میں کارکردگی دکھانے میں ناکامی پر غور کرنے کی بجائے پروپیگنڈے میں مصروف ہیں کہ میاں نواز شریف استعفیٰ دینے والے ہیں، وہ اس سلسلے میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی کچھ مبینہ ملاقاتوں کو بھی ڈسکس کر رہے ہیں تو ایسے میں مجھے صرف اتنا کہنا ہے کہ اگر نواز شریف استعفیٰ دینے کی سوچ رکھتے ہوتے تو وہ بارہ اکتوبر ننانوے کو بندوق کی نالی سامنے ڈٹ جانے کی بجائے استعفیٰ لکھ دیتے،اس وقت ان کے پاس جواز بھی تھا کہ وہ آئینی ، سیاسی، جمہوری اور پارلیمانی نظام کو بچا رہے ہیں مگر اس وقت استعفیٰ نہ دینے والا نواز شریف اس روز استعفیٰ کیوں دے گا جب اس کی پارٹی نے آزاد جموں و کشمیر میں مخالفین کو ان کی نانی یاد دلا دی ہو۔ مجھے یہاں دو مثالیں اور بھی دینے دیں، نواز شریف میاں اظہر سے ناراض اس لئے ہوئے کہ وہ مارشل لاء لگنے کے بعد اپنا سوٹ کیس اٹھا کے گورنر ہاوس سے نکل آئے، نواز شریف چاہتے تھے کہ وہ سرنڈر کرنے کی بجائے زبردستی نکالے جاتے تاکہ جس وقت تک وہ اپنا آئینی کردارادا کر سکتے تھے ، ضرور ادا کرتے۔ اسی طرح دوسری مثال رفیق احمد تارڑ کی ہے جو ایوان صدر میں موجود رہے، انہوں نے مارشل لاء لگنے کے بعد بھی استعفیٰ نہیں دیا ، بعد میں ان سے ہی شریف فیملی کو ریلیف ملا، یار دوست ایسا ماضی اور ایسی طبیعت رکھنے والے نواز شریف سے استعفے کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔


نواز شریف کے استعفے سے ہٹ کر میرے پاس موجود ایک دوسری کہانی اپنے اندر زیادہ وزن رکھتی ہے۔ عمران خان ، آزاد کشمیر میں اعتراف کر چکے کہ خیبرپختونخوا میں جو تبدیلی لائی جانی چاہئے تھی وہ نہیں لائی جا سکی، اب اس ناکامی کا ملبہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ پرویز خٹک پر پھینکے جانے اور ان کی حکومت ختم کرنے کی کھچڑی پکائی جا رہی ہے۔ کہا ایک دوست نے، عمران خان غلط نہیں مگر ان کے مشیر غلط ہیں، میرا جواب یہ ہے کہ ہم ہمیشہ سے کاسہ لیسی کرتے ہوئے سیاستدانوں کی اپنی غلطیوں کو بھی ان کے وزیروں ، مشیروں کے کھاتے میں ڈالتے چلے آئے ہیں اور اگرعمران خان صاحب کے مشیر غلط ہیں تو ان مشیروں کا چناؤ بھی انہوں نے خود ہی کیا ہے لہٰذان کی غلطیوں ، کمیوں اور کوتاہیوں کے ذمہ دار بھی وہی ہیں۔ تحریک انصاف کے اندر اس وقت جو تانا بانا بنا جا رہا ہے اس میں اپنے ووٹروں اور سپورٹروں سے خیبر پختونخواہ میں ناکامی پر خان صاحب کے لئے کلین چٹ لینے کے لئے بنیاد بنائی جا رہی ہے کہ عمران خان قومی سطح پر جدوجہد میں مصروف رہے،کیس بنایا جا رہا ہے کہ عمران خان کی جدوجہد نے تو ان کا امیج ایک مستقل مزاج اور عوام دوست سیاسی رہنما کے طور پر بڑھایا مگر پرویز خٹک اور ان کی کابینہ کے دیگر ارکان پارٹی کو وہ سپورٹ فراہم نہ کر سکے جو محنت اور کارکردگی سے فراہم کی جا سکتی تھی، عین ممکن ہے کہ عمران خان اس آپشن سے تازہ ترین احتجاجی مہم میں ممکنہ ناکامی کے بعد استفادہ کریں مگر مجھے یہ واقعی علم نہیں کہ وہ اس کے ذریعے اپنی پارٹی کی گرتی ہوئی مقبولیت کو کس حد تک سہارا دینے میں کامیاب ہو پائیں گے، خطرہ صرف یہ ہے کہ پرویز خٹک اگر اس ڈرامے میں تعاون کرنے کی بجائے بغاوت کر گئے تو یہ پارٹی قیادت کے لئے یہ اقدام ایک سیاسی خود کش حملہ بھی ثابت ہو سکتا ہے ۔

مزید :

کالم -