جیت پاکستان کی: جوش پر اب ہوش غالب ہو!
شاعر نے کہا اچھا ہے، دِل کے پاس رہے، پاسبان عقل، لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے، پوری قوم تو اپنی جگہ، دُنیا بھر میں پاکستان سے محبت رکھنے والوں نے پاسبان عقل کی نہیں سنی اور اسے الگ کر کے کرکٹ میں فتح کا بھرپور جشن منایا جو اب تک جاری ہے، کھلاڑیوں نے ہمت اور محنت سے جو کارنامہ انجام دیا اس نے ان پر انعامات کی بھی بارش کر دی اور ان کو آنکھوں پر بٹھا کر پلکوں میں سجا لیا گیا، فتح کے اس نشے میں اگلی پچھلی سب خطائیں معاف کر دی گئیں اور لوگ بھول گئے کہ جب پول میچ میں اسی بھارتی ٹیم نے ہماری ٹیم کو124رنز سے ہرایا تھا تو جذبات کیا تھے اور کیا کیا کیڑے نہیں نکالے گئے تھے، ہم نے تب بھی کہا کہ کھیل کو کھیل رہنے دیں،اسے جنگ نہ بنائیں،لیکن بھارتی حضرات نے ایسی آگ بھڑکائی کہ سبھی اس میں بہہ گئے اور پھر دونوں اطراف میں الیکٹرونک میڈیا بھی تو ہے،جس نے باقاعدہ ’’رَن‘‘ کا نقشہ بنا دیا اور اب اسی وجہ سے ایک طرف فتح کے شادیانے ہیں تو دوسری طرف رنج، غصہ، غم اور تنقید کے نشتر ہیں، حالانکہ کھیل میں اُونچ نیچ ہوتی رہتی ہے۔
کہتے ہیں کہ ’’آدمی اس کو نہ جانئے گا، جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی اور طیش میں خوف خدا نہ رہا‘‘ تو بھائیو! اب ذرا جوش پر قابو پا کر ہوش کی بات کریں کہ کامیابی کی خوشی نے قدرت کے عمل کو بھی نظر انداز کر دیا اور لوگ بھول گئے کہ اِس میچ میں بھی اللہ کی مدد بہت کھل کر اور واضح ہو کر آئی، اگر نہیں اعتبار تو پھر سے پورے میچ کی ویڈیو دیکھ لیں،تو آپ کو ابتدا ہی سے آسمانی امداد کا اندازہ ہو جائے گا، ورلڈکپ کے فاتح کپتان (سیاست ایک طرف) عمران خان نے کہا تھا کہ اگر پاکستان ٹاس جیتے تو اسے پہلے کھیلنا چاہئے کہ دوسری اننگ مشکل ہوتی ہے کہ مخالف ٹیم کے سکور کا پیچھا کرنا پڑتا ہے۔ پہلی غیبی تائید یہاں ہوئی کہ ٹاس بھارتی کپتان ویرات کوہلی نے جیتا اور خود بیٹنگ کرنے کی بجائے پاکستان کو دعوت دے دی، عمران خان کا کہنا پورا ہوا،اگرچہ ہماری ٹیم کے کپتان سرفراز احمد نے کمنٹیٹر کے سوال کے جواب میں کہا کہ ’’اگر ہم ٹاس جیت لیتے تو ہمارا فیصلہ بھی یہی ہوتا کہ پہلے فیلڈ کرتے‘‘ قدرت نے یہ موقع ہی نہیں دیا اور کوہلی نے خود ہماری ٹیم کو کھیلنے کی دعوت دی اور یہ اس کی سب سے بڑی غلطی گنی جا رہی ہے۔ اگرچہ خود کوہلی کے نزدیک فیصلہ درست تھا کہ بھارتی کرکٹ ٹیم کی بیٹنگ بہت مکمل اور زبردست ہے اور وہ لوگ کئی بار بعد میں کھیل کر جیتے اور پاکستان تو گروپ میچ میں بھارت کا سکور ’’چیز‘‘ نہیں کر سکا تھا اور124رنز کا فرق رہ گیا تھا۔
اب ذرا اللہ کی قدرت کا اگلا نظارہ ملاحظہ فرمائیں کہ ہماری ٹیم کے فخر پہلے ہی اووروں میں سلپ میں کیچ دے بیٹھے، لیکن ویڈیو نے ثابت کر دیا کہ یہ نو بال تھا ان کو نئی لائف لائن مل گئی اور پھر اِس نوجوان نے سنبھل کر پوزیشن مستحکم کی اور بھارتی باؤلروں کو دھو ڈالا، سنچری سکور کر کے رنز کو300 سے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا، تیسری مہربانی یہ بھی ہوئی کہ بھارتی کھلاڑی آل ر اؤنڈر پانڈیا جب چھکے جڑ رہا تھا تو جلد بازی میں اِسی انداز میں رن آؤٹ ہوا جیسے ہمارا اوپنر اظہر علی وکٹ گنوا بیٹھا تھا، اس میں ہمارے فخر زمان نے تھوڑا اپنا مفاد دیکھا اور بھارت والوں کو جدیجا پر رنج ہے، پانڈیا نے76رنز بنائے تھے۔ اِس کا یہ مقصد نہیں کہ ہم نوجوانوں کی محنت اور ہمت کو کم کرنا چاہتے ہیں مقصد یہ ہے کہ جب ورلڈکپ کے لئے ٹیم بنانے کا ارادہ ظاہر کیا جا رہا ہے تو پھر خوبیوں کے ساتھ خامیوں کو بھی دیکھنا ہو گا کہ ہر کمال کو زوال ہے، تو زوال بھی کمال میں تبدیل ہو جاتا ہے،جہاں تک سرفراز احمد کی کپتانی کا تعلق ہے تو وہ بہتر تھی تاہم گھبراہٹ کو کیوں نظر انداز کیا جائے، پہلا سوال یہ ہے کہ بیٹنگ آرڈر میں تبدیلی کیوں کی گئی۔ اگر شعیب ملک کو تیز رنز کرنے کے لئے حفیظ کی جگہ بھیجا گیا تو سیمی فائنل میں حفیظ کی اننگ کیوں نظر انداز کی گئی اور بعد میں اُس نے ثابت بھی کر دیا، چلیں یہ فیصلہ تھا تو پھر خود کپتان کی جگہ عماد وسیم کو کس نے بھیجا، اس عماد وسیم نے پورے ٹور میں کچھ نہیں کیا تھا،لیکن اسے باہر نہیں بٹھایا گیا اور فہیم اشرف کو نظر انداز کر دیا گیا، جس کی کارکردگی بطور آل راؤنڈر بہتر تھی، انگلینڈ کے خلاف دو وکٹیں لینے کے علاوہ اُس نے 16رنز بنائے اس میں دو چھکے شامل تھے وہ کپتان کی جگہ اپنی وکٹ قربان کر کے رن آؤٹ ہوا تھا، یہاں عماد وسیم سے آخری اووروں میں رنز نہیں ہوئے اور کم از کم 35سے40 رنز کم رہ گئے۔
بات یہیں تک نہیں تھی، یہ سب کو علم ہے کہ بھارتی کھلاڑی سپنر کو بہت بہتر کھیلتے ہیں اس کو نظر انداز کر کے عماد وسیم کو رکھا گیا اور اس برخوردار نے صرف تین گیند کئے اور مار سے بچنے کے لئے ’’مسل پُل‘‘ کروا لیا، باہر چلا گیا اور پھر باؤلنگ نہیں کی، جبکہ کپتان نے کسی فاسٹ باؤلر کو لانے میں دیر کی اور فخر زمان سے باؤلنگ کروا کے خطرہ مول لیا، یہ فاش غلطیاں تھیں ان پر غور کرنا ہو گا فتح کے نشے میں تجزیہ چھوڑنا بھی غلطی ہی ہو گی۔ جہاں تک پاکستان کے باؤلروں کا تعلق ہے تو سب نے اچھی باؤلنگ کی، محمد عامر کا پہلا ہی سپیل بہت ہی جاندار اور شاندار تھا جس نے روہیت شرما، ویرات کوہلی اور شیکھر دھون کو پویلین بھجوا کر بھارتی بیٹنگ کی کمر توڑ دی اور پھر وہ سنبھل ہی نہ سکے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ محمد عامر سے پانچ اوور کا سپیل کرا کے اسے پھر موقع نہیں دیا گیا،حالانکہ جب خطرے کی گھنٹی بجنے لگی تھی تو محمد عامر سے دو تین اوور کرانا چاہئیں تھے، شاید اس کی پانچ وکٹیں ہو جاتیں۔
بہرحال یہ بھی دلچسپ ہے کہ نوجوان کھلاڑیوں کی تعریف کی جا رہی ہے،لیکن محمد عامر اور جنید کو قریباً نظر انداز کیا جا رہا ہے، شاید کچھ مطلب ہو، اس کا اندازہ یوں لگاتے ہیں کہ محترم چیئرمین بورڈ نے پہلے یہ فرمایا کہ نوجوان کھلاڑیوں کی پرفارمنس کے بعد سینئر خود ہی آؤٹ ہو جائیں گے اور اب فرماتے ہیں کہ سرفراز احمد ٹیسٹ کپتان کے لئے بھی بہترین ’’چوائس‘‘ ہے تو حضور ہم اِن کالموں میں پہلے ہی عرض کر چکے ہیں کہ سرفراز کی تینوں فارمیٹ کی کپتانی کے لئے راہ ہموار کی جا رہی ہے، کارکردگی کی بنا پر تو بہتر لیکن ’’خاص مقصد‘‘ کے تحت یہ غلط ہو گا، ویسے ہم یہ عرض کر سکتے ہیں کہ اب محمد حفیظ، شعیب ملک اور اظہر علی کی بھی خیر نہیں کہ احمد شہزاد اور عمر اکمل پہلے ہی محترم وقار یونس کی کوشش کا شکار ہو کر آؤٹ ہو چکے اور کامران اکمل وغیرہ کی تو جگہ ہی نہیں بنتی، اللہ اللہ تے خیر صلا۔ گزارش یہ ہے کہ آپ بھی کھیل کو کھیل رہنے دیں اور فیصلے میرٹ پر ہونے دیں، ورنہ یہ فتح تو مبارک ہے آئندہ ’’سازش‘‘ ہوتی رہے گی، ہم توجہ دِلاتے ہیں کہ فخر زمان اور فہیم اشرف پر توجہ دی جائے یہ دونوں کھلاڑی سعید انور اور عبدالرزاق کے متبادل ثابت ہوں گے۔