معاملے کی سنجیدہ تحقیقات کی ضرورت
دُنیا بھر میں جعلی ڈگریاں فروخت کرنے والی ایگزیکٹ کمپنی آخر کار بے نقاب ہو گئی، کہا جا رہا ہے کہ اس کمپنی نے کئی برسوں میں کروڑوں ڈالر کی ڈگریاں فروخت کیں، جن کی بنیاد پر لاکھوں افراد مشرق وسطیٰ کے ممالک میں ملازمتیں کر رہے ہیں۔ یہ ڈگریاں حاصل کرنے والوں میں بھاری اکثریت غریب ایشیائی ممالک کے لوگوں کی ہے۔ ان ایشیائی ممالک کے لوگ اگر اپنے وطن کی اصل ڈگریوں پر عرب ممالک میں ملازمت حاصل کرتے ہیں، تو اُنہیں کم معاوضہ دیا جاتا ہے، لیکن اگر ان کے پاس یورپ یا امریکہ کی کسی یونیورسٹی کی ڈگری ہو تو چار گنا زائد تنخواہ حاصل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایگزیکٹ کمپنی کی چاندی ہو گئی۔ کمپنی کے مالک شعیب شیخ نے ’’بول‘‘ کے نام سے میڈیا گروپ کے قیام کا بھی اعلان کر رکھا ہے اور دوسرے ٹی وی چینلز میں شہرت حاصل کرنے والے صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کی بھی بھاری معاوضوں پر’’بول‘‘ میں ملازمت دے دی گئی ہے، حالانکہ ’’بول‘‘ کے مارکیٹ میں آنے کی کوئی تاریخ مقرر نہیں۔
’’بول‘‘ کا صدر کامران خان کو مقرر کیا گیا ہے، جو جنگ گروپ کا ’’جیو‘‘ چھوڑ کر بول سے وابستہ ہوئے ہیں۔ ایک زمانے میں کامران خان ’’دی مسلم‘‘ میں میرے ساتھ بطور رپورٹر ملازمت کرتے تھے۔ ایگزیکٹ کمپنی کے خلاف یہ طوفان امریکی اخبار ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ میں ایک تفصیلی سٹوری چھپنے کے بعد آیا ہے، جس میں کمپنی پر جعلی ڈگریاں اور جعلی سرٹیفکیٹ فروخت کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ میں یہ کہانی چھپنے کے بعد وزیر داخلہ نثار علی خان نے دیر نہیں لگائی اور فوری طور پر ایف آئی اے کو تحقیقات کرنے کا حکم دیا۔ ایف آئی اے نے کمپنی کے ریکارڈ اور کمپیوٹرز پر قبضہ کر لیا اور تحقیقات شروع کر دیں،جس کے نتائج چند روز میں عوام کے سامنے آ جائیں گے۔ پاکستان کے تمام چینلز کی جانب سے اس کمپنی کی خبر کے مسلسل ’’فالو اَپ‘‘ کی بڑی وجہ ’’بول‘‘ میڈیا گروپ سے خوف ہے،جس نے کئی ماہ سے پاکستان کے دیگر میڈیا ہاؤسز کو دباؤ میں رکھا ہوا ہے۔ اب ان میڈیا ہاؤسز کو یہ خوشی بھی ہے کہ شاید اب بول گروپ کا منصوبہ تکمیل کو نہ پہنچ سکے، کیونکہ ’’بول‘‘ پر روپیہ لگانے والی کمپنی بیٹھ گئی ہے۔
بہت سے سینئر صحافی جو بھاری معاوضے کے عوض بول سے وابستہ ہو گئے تھے، پریشان ہو چکے تھے کہ بول چینل کی آمد میں تاخیر کے باعث وہ ٹی وی سکرین سے دور ہو گئے ہیں اور لوگ آہستہ آہستہ انہیں بھولتے جا رہے ہیں۔ اب اگر وہ واپس کسی چینل پر جاتے ہیں تو انہیں خوشی ہو گی کہ لوگ دوبارہ ان کے رُخ روشن کا دیدار کر رہے ہیں، لیکن ساتھ افسوس بھی ہو گا کہ اب انہیں بہت کم معاوضے پر کام کرنا پڑ رہا ہے۔ایگزیکٹ کمپنی کا سکینڈل سامنے آنے کے بعد ’’بول‘‘ کے صدر کامران خان نے بیان دیا ہے کہ اگر کمپنی تحقیقات کے بعد جعلی ڈگریوں کا دھندہ کرنے میں ملوث پائی گئی تو وہ ’’بول‘‘ سے مستعفی ہو جائیں گے۔ کئی سینئر صحافی یہ جانتے ہیں کہ شعیب شیخ ایگزیکٹ کمپنی اور بول کے محض نمائشی سربراہ ہیں اور اصل میں ان اداروں کو ریموٹ کنٹرول کے ذریعے چلانے والی ایک مشہور شخصیت ہے، جس کا دبئی اور کراچی سے گہرا تعلق ہے۔
جب ہمیں اتنا معلوم ہے تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بول کے باخبر صحافیوں کو یہ معلوم نہ ہو۔انہیں بھی یہ معلوم تھا، لیکن ہر وقت اصولوں، دیانت داری اور سچائی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ان صحافیوں کی آنکھیں ’’چمک‘‘ نے خیرہ کر دی تھیں۔ یہ وزیراعظم محمد نواز شریف کی حکومت کا کریڈٹ ہے کہ جس نے کسی دباؤ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایگزیکٹ کمپنی پر ہاتھ ڈالا اور مستقبل میں دُنیا کے لاکھوں عام آدمیوں کو لٹنے سے بے بچا لیا۔ابتدائی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ کمپنی نے اپنی و یب سائٹس پر 300سے زائد امریکی یونیورسٹیاں اور سکول ظاہر کر رکھے تھے، جن کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ پوری دُنیا میں ایسی 12ہزار یونیورسٹیوں کو تسلیم کیا جاتا ہے، جو یونیسکو کے پاس رجسٹرڈ ہیں، لیکن ایگزیکٹ کمپنی کی ایک یونیورسٹی بھی یونیسکو کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہے۔اِسی طرح جن پروفیسرز، اساتذہ اور طلباء کی تصاویر ویب سائٹ پر دکھائی گئی ہیں ان کی اکثریت یا تو مختلف ممالک کے ماڈلوں کی ہے یا پھر وہ اپنے ممالک میں ڈرامہ آرٹسٹ ہیں۔
یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ڈگری کے گاہک کو یقین دلانے کے لئے اس کے یونیورسٹی یا سکول کی کال ظاہر کر کے ایگزیکٹ کمپنی کے ملازمین کی جانب سے جعلی کالیں کی جاتی تھیں۔ بہرحال کمپنی کے مالکان کے پاس بے تحاشا روپیہ ہے اور وہ تحقیقات کرنے والے سرکاری افسران کو ’’خوش‘‘ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اس لئے سیاسی حکمرانوں کو چوکنا اور چوکس رہنا پڑے گا، کیونکہ اکثر اوقات بھاری رشوتیں نوکر شاہی کھاتی ہے اور بدنامی سیاسی حکمرانوں کے حصے میں آتی ہے۔ چودھری نثار علی خان ایک با اصول شخص ہیں اس لئے امید کی جاتی ہے کہ وہ تحقیقاتی عمل پر کڑی نظر رکھیں گے۔ وزیراعظم نواز شریف خود بھی ایک بااصول شخصیت ہیں اور وہ یہ نہیں چاہتے کہ ان کے دورِ حکومت میں کوئی قانون کی دھجیاں اڑا کر دولت اکٹھی کرے۔ *