امریکی صدر کا ریاض میں اسلامک سمٹ سے خطاب

امریکی صدر کا ریاض میں اسلامک سمٹ سے خطاب
 امریکی صدر کا ریاض میں اسلامک سمٹ سے خطاب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

صدرِ امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب کا دو روزہ دورہ کرکے اسرائیل پہنچ چکے ہیں۔ وہ 21مئی 2017ء بروز اتوار جب پاکستانی وقت کے مطابق ساڑھے سات بجے شام تقریر کرنے کے لئے ریاض کے عظیم الشان قصرِ شاہی میں روسٹرم کی طرف بڑھے اور تقریر شروع کی تو 35منٹ کے خطاب میں انہوں نے جو کچھ فرمایا وہ عین امریکی ثقافت اور تاریخ کا عکاس اور آئینہ دار تھا۔ آپ مانیں یا نہ مانیں ٹرمپ نے بالکل اصلی امریکی ماں کا دودھ پیا ہوا ہے، ڈبے کا نہیں۔ اس لئے انہوں نے جو کچھ کہا وہ اپنے آباؤ اجداد اور اپنے پیشرو امریکی صدور کی عین کاربن کاپی تھا۔ میں آئزن ہاور سے لے کر ٹرمپ تک امریکی صدور کا گرویدہ رہا ہوں۔ وہ سب کے سب بقولِ غالب ’’وفاداری بشرطِ استواری‘‘ کے قائل رہے ہیں۔ یادش بخیر ہمارے ایک سابق صدر پرویز مشرف ’’پاکستان فرسٹ‘‘کا نعرہ لگاتے رہتے تھے اب بھی جب کبھی ان کو میڈیا والے بلاتے ہیں تو وہ یہی نعرہ اور مٹھی بند والا بازو بلند کرتے ہیں۔ لیکن اس پر عمل نہ انہوں نے اپنے نو سال دورِ حکمرانی میں کیا اور نہ اب نو سال دورِ عدم حکمرانی میں کر رہے ہیں۔ وہ زبان سے لا الہ تو کہتے ہیں لیکن جب دل ونگاہ مسلماں نہ ہو تو کیا حاصل؟۔۔۔ اس پس منظر میں امریکی حکمرانوں کو دیکھیں تو آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی۔ آئزن ہاور،نِکسن، جمی کارٹر، ریگن، بش سینئر، بش جونیئر ، اوباما اور اب ٹرمپ وغیرہ سب کے سب ’’امریکہ فرسٹ‘‘ کا نعرہ لگاتے رہے اور اس پر عمل بھی کرتے رہے اور اب تک کر رہے ہیں۔


ان امریکی صدور کی ڈکشنریوں میں کذب و صداقت، مکرو فریب، جھوٹ اور سچ اور وفاوبے وفائی کے وہ معانی ہرگز نہیں پائے جاتے جو پاکستانی حکمران آج تک سمجھتے رہے یا سمجھتے رہنے کی ایکٹنگ کرتے رہے ہیں۔ ہمارے حکمران خواہ فوجی تھے یا سویلین صرف اداکار یعنی ’’کریکٹر ایکٹر‘‘ تھے۔ اپنے اپنے دور حکمرانی میں انہوں نے جو جو بہروپ بھرے اور جو جو اداکاریاں کیں وہ عین پاکستانی (اور ہندوستانی) روایات و ثقافت کی آئینہ دار تھیں۔ انہوں نے نام تو ’’پاکستان فرسٹ‘‘ کا لیا لیکن کام ’’ذاتیات فرسٹ‘‘ کا کیا جبکہ امریکی صدور ہمیشہ امریکہ فرسٹ پر نعرہ زن اور عمل پیرا رہے جس کا مطلب یہ تھا کہ پہلے دنیا کی سیاست کودیکھو، پھر یہ دیکھو کہ ہوا کس طرف چل رہی ہے، پھر یہ مشاہدہ کرو کہ امریکی معیشت کا فائدہ کس میں ہے اور پھر یہ اندازہ لگاؤ کہ امریکی دفاع کیسے مضبوط بنانا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے اگر قدم قدم پر جھوٹ بولنا پڑے، اگر گزرے ہوئے کل کے سیاسی بیان کی تکذیب و تردید کرنی پڑے، اگر گزرے کل کے وعدے وعید کی بے وفائی پر کمر باندھنی پڑی تو ہر گز شرم سے کام نہ لو اور کبھی یہ نہ دیکھو کہ دنیا کیا کہے گی۔۔۔


دنیا تو ہاتھی کے پاؤں میں سب کے پاؤں کی قائل ہے ان امریکی حکمرانوں کا ایمان ہے کہ بین الاقوامی معاہدے توڑنے کے لئے کئے جاتے ہیں۔ میں مثالیں دینے لگوں تو پوری کتاب بن جائے گی۔ نہ صرف امریکی بلکہ یورپی اقوام کے ہاں بھی ایفائے عہد کا یہی قرینہ رائج ہے۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ مشرق، مشرق ہے اور مغرب مغرب۔۔۔ یہ دونوں کبھی آپس میں نہیں مل سکتے۔ ہمارے ہاں کی اخلاقیات ہمارے پیغمبروں اور رسولوں کی عطا ہیں اور چونکہ ان کے پیغمبروں کی کوئی آسمانی کتاب آج تک ہمارے قرآنِ حکیم کی طرح محفوظ نہیں، اس لئے ان آسمانی کتابوں اور صحائف میں تحریفات کرنا ان اِفرنگی اقوام (عیسائیوں اور یہودیوں وغیرہ) کا وتیرہ ہے۔ یہ تحریفات اسی لئے کی جاتی ہیں کہ ان کو بوقت ضرورت کام میں لایا جائے۔۔۔۔ ذرا اسی بات پر غور فرمائیں کہ ہمارے ایمان کا ایک حصہ تو وہ ہے جو ہمارے قرآن میں محفوظ ہے، اور اٹل ہے اور جو احادیث میں بتایا جاتا ہے اور ان کی ایک اہمیت ہے اور پھر سنت نبویؐ بھی ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ لیکن عیسائیوں اور یہودیوں کی آسمانی کتابیں کہاں ہیں؟ ان کی احادیث کون سی ہیں اور ان کی سنت کا کیف و کم کیا ہے؟۔۔۔ ظاہر ہے ان چیزوں کی کوئی حیثیت ان کے مذاہب میں نہیں۔ اگر کوئی ہے بھی تو اس کا مقام و احترام بھی ہم مسلمانوں پر واجب ہے ان عیسائیوں اور یہودیوں پر نہیں!


چنانچہ سعودی عرب میں 55 عرب اور اسلامی ممالک کے سربراہوں کے خطاب میں جو کچھ ٹرمپ نے فرمایا ہے وہ سب دھوکا ہے، سب کاروباری مصلحتیں ہیں، سب کا تعلق کسی مروجہ اخلاقیات کے پیمانوں سے نہیں۔آپ لاکھ کہتے پھریں کہ اسی ٹرمپ نے اپنی الیکشن مہم میں مسلمانوں کو جن جن ناموں سے پکارا تھا اور جو جو برائیاں ان سے منسوب کی تھیں ان سب کا ابطال خود ہی اس 21مئی 2017ء کی تقریر میں کیسے کر دیا تو میرے حضور! یہ سب امریکی کلچر اور امریکی اخلاقیات کی تعلیمات ہیں۔ ٹرمپ کو جب 110ارب ڈالر کا دفاعی سازوسامان بیچنے کی آپشن دکھائی دی اور جب 270 ارب ڈالر کی دوسری سعودی سرمایہ کاری کی سبز پری نظر آئی تو مسلمانوں کے اس جِن کی وہ دہشت گردی کافور ہو گئی جو 20جنوری 2017ء سے پہلے ان کی الیکشن مہم میں حرزِ جاں بنی ہوئی تھی۔
میں سوچ رہا تھا کہ 1980ء کے افغان جہاد نے پاکستان کو اپنی فارن پالیسی کا بنیادی پتھر قرار دیا تھا، ہمارے لئے F-16 کی فراہمی کے فلڈ گیٹ کھول دیئے تھے، اپنے سب سے خفیہ اور کارگر طیارہ شکن میزائل (سٹنگر) کے انبار لگا دیئے تھے اور ہمارے نیو کلیئر پروگرام کی طرف سے آنکھیں بند کر لی تھیں۔ لیکن آج وہی پاکستان سے جس کا وزیراعظم ان 55 سربراہانِ مملکت میں بیٹھا ہوا تھا جو ٹرمپ کی تقریر سن رہے تھے۔ بی بی سی نے سب سے پہلے پاکستانی وزیراعظم نوازشریف کو کانوں میں سیاہ رنگ کا ائر فون ٹھونسے دکھایا اور باقی اسلامی/ عرب ممالک کے سربراہوں پر بعد میں کیمرہ فوکس کیا تھا۔۔۔ لیکن کیا ٹرمپ نے بھی پاکستان کا نام لیا یا نوازشریف کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا؟


پاکستان دنیا کی واحد نیوکلیئر پاور ہے اور ان چار مسلم ممالک میں سے ایک ہے جن کی دفاعی صلاحیتوں کا لوہا سارا مغرب مانتا ہے۔لیکن کیا غضب ہے کہ ٹرمپ صاحب اسرائیل کا نام لیں، نیتن یاہو اور عباس کو نام لے کر مخاطب کریں، ایران کا ذکر کریں، مصر کی قدیم تہذیب کی مدح سرائی کریں اور افغان قوم کی دلیری اور بہادری کی قصیدہ خوانی کریں لیکن پاکستان کا نام ہی نہ لیں۔ آج پاکستان کا ایک سابق آرمی چیف 34 مسلم ممالک کی افواج کا سربراہ ہے اور مجھے 100 فیصد یقین ہے کہ سعودی عرب اربوں ڈالر کا جو دفاعی سازو سامان، امریکہ سے خریدے گا اس میں ہمارے جرنیل اور ان کے ہیڈکوارٹر کے پاکستانی سٹاف آفیسرز کی سفارشات کا ایک غالب رول ہو گا۔ اس امر کا نوٹس بھی آپ نے شائد لیا ہے یا نہیں کہ جس سعودی قوم کو اربوں ڈالر کا دفاعی سازوسامان بیچا جا رہا ہے اس کی دفاعی روایات کا مظاہرہ ایک ’’چوبی تلوار‘‘ ہلا ہلا کر کیا جا رہا تھا اور جو لوگ یہ ’’حرکت‘‘ کر رہے تھے وہ نہ اپنے لباس سے کسی عسکری روائت کے امین لگتے تھے اور نہ ان میں پلٹ کر جھپٹنے اور جھپٹکر پلٹنے کی کوئی رمق نظر آتی تھی۔ سعودی عرب کے بہی خواہ اگر ناراض نہ ہوں تو اس ’’تلوار ڈانس‘‘ کا جو مظاہرہ صدر امریکہ کی موجودگی میں کیا گیا وہ اتنا زنانہ اور مجہولانہ تھا کہ دیکھنے والوں کو شرم آ رہی تھی لیکن ٹرمپ کو دیکھیں کہ اس نے 380 ارب ڈالر کے معاہدوں کے لئے اگر پندرہ بیس سیکنڈ تک کوئی قدیم طرز کی چوبی تلوار ہاتھ میں تھام کر عرب روائتی رقص میں شمولیت کر لی تو یہ اسی امریکی لچک کا مظاہرہ ہے جس کا ذکر میں نے کالم کے آغاز میں کیا تھا کہ اس قسم کی لجاجت، کورنش اور جھوٹی تعظیم و تکریم کا مظاہرہ افرنگی رہنماؤں کے خون میں شامل ہے۔ مجھے کسی شاعر کی رباعی یاد آ رہی ہے۔اس کے پہلے دو مصرعے ’’ناگفتنی‘‘ ہیں لیکن آخری شائد ان افرنگی لوگوں پر صادق آتے ہیں:


لوگ یزداں کو بیچ دیتے ہیں
اپنا مطلب نکالنے کے لئے
اس ’’اسلامک سمٹ‘‘ کی ایک اور تصویر بھی بار بار ذہن میں ابھر رہی ہے۔ ٹرمپ کی تقریر سے پہلے سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے خطاب کیا۔ (وہ میزبان جو تھے!) لیکن انہوں نے لکھی ہوئی عربی تقریر بھی ایک ایسے مجہول پوز میں پڑھی اور اس کا انگریزی ترجمہ بھی کسی ایسے سست الزبان مترجم نے کیا کہ اس منظر کو دیکھ اور سن کر سامعین پر اگر مردنی نہیں تو پژمردگی ضرور چھائی رہی۔ لیکن شاہ سلمان کے بعد جب چیف گیسٹ تقریر کرنے اٹھے تو ان کے سامنے نہ کوئی لکھی ہوئی تقریر تھی ، نہ سامنے کوئی پرامپٹر (Promptor) تھا اور نہ چیدہ چیدہ تقریری نوٹس تھے جو اکثر مقررین اپنے سامنے رکھ لیتے ہیں۔ ٹرمپ نے جو تقریر کی وہ فی البدیہہ تھی اور کوئی ایک فقرہ بھی ایسا نہ تھا جس کی ادائیگی کو Fumbling(لِسانی لڑکھڑاہٹ) کا نام دیا جا سکے۔۔۔۔کیا روانی تھی!۔۔۔ کیا فصاحت تھی!۔۔۔ کیا تاثیر تھی اور کیا زور دار اندازِ تکلم تھا!۔۔۔ معلوم ہوتا تھا دریائے مسسپی) بہہ رہا ہے۔


اس کے بعد اردن کے شاہ عبداللہ نے اسلامی سربراہوں کی طرف سے ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا۔ یہ بھی ایک SOP ہوتی ہے۔ ان کی تقریر اگرچہ انگریزی میں تھی لیکن وہ بھی لکھی ہوئی تھی۔ حالانکہ ان کی والدہ (مسز شاہ حسین) اور ان کی اہلیہ دونوں برطانوی نژاد ہیں) ان کا لب و لہجہ اگرچہ برطانوی تھا لیکن لکھی ہوئی تقریر پڑھنا اور بات ہے اور ’’آف دی کف‘‘ بات کہنا بالکل دوسری بات ہے۔ ان کے بعد مصر کے صدر جنرل فتح سی سی نے تقریر کی اور وہ بھی لکھے ہوئے کاغذ کو پڑھ رہے تھے۔ میں حیران تھا کہ اگر یہ لوگ ایسا کررہے ہیں تو ہمارے وزیراعظم نوازشریف کو یہ طعنہ کیوں دیا جاتا ہے کہ وہ صدر امریکہ سے ملاقات میں جیب سے لکھی ہوئی ’’پرچی‘‘ نکال کر پڑھ دیتے ہیں!


امریکی صدر نے اسی آدھ گھنٹے کی تقریر میں پاکستان کے تینوں ہمسایوں (انڈیا ، ایران، افغانستان) کا نام لیا۔ لیکن پاکستان کا نہیں لیا۔ قارئین گرامی! اب لے دے کے پاکستان کا ایک ہی ہمسایہ (چین) باقی ہے جس پر ہمارا تکیہ ہے اور ہم اپنی ہمہ جہتی ترقی کے لئے اس کی طرف دیکھتے ہیں۔ لیکن کچھ عرصے سے بعض میڈیا گروپس نے چین کے بارے میں بھی پاکستانی اذہان کو مسموم کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔ آٹھ دس روز پہلے ہمارے ایک انگریزی روزنامے (ڈان) میں ایک ایسی خبر شائع کی گئی ہے جس کو بڑی مہارت سے ڈرافٹ کیا گیا ہے۔ اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ڈرافٹ اورجنل ہے، پلانٹڈ (Planted) نہیں۔ یہ ایک ایسی خطرناک دستاویز ہے جس پر میں کوشش کروں گا کہ قارئین کو تفصیل سے بتاؤں کہ چین اور پاکستان کی دیرینہ دوستی کو ٹارگٹ کرنے کی کیا سازش کی جا رہی ہے!

مزید :

کالم -