عشرت العباد کی سیاسی حکمت عملی اور مصطفیٰ کمال کی چال

عشرت العباد کی سیاسی حکمت عملی اور مصطفیٰ کمال کی چال
 عشرت العباد کی سیاسی حکمت عملی اور مصطفیٰ کمال کی چال

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کراچی میں مصطفی کمال اور عشرت العباد کی بے مزہ اور بے وقت لڑائی نے ملک کے سیاسی منظر نامہ میں غیر ضروری رنگ بھرے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گہ کہ دونوں کی غیر ضروری اور بد زباں لڑائی بھی انہیں قومی منظر نامہ میں وہ فوکس نہیں دلا سکی جس کی انہیں توقع تھی۔ لوگ اسے ایک سائیڈ آئیٹم ہی سمجھتے رہے۔ لیکن لڑئی کتنی بھی بے وقت ہو بے مطلب نہیں ہوتی۔ اس لئے یہ لڑائی بھی بے و قت تو تھی لیکن بے مطلب نہیں تھی۔


کسی بھی لڑائی کا انجام ہار اور جیت کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے۔ لیکن سیاسی لڑائیوں کی ایک خوبصورتی یہ ہوتی ہے کہ اس میں ہار اور جیت کا فیصلہ ہوئے بغیر بھی دلچسپی باقی رہتی ہے۔ یہ ہار اور جیت کے بغیر بھی سنسنی قائم رکھتی ہیں۔ ان کی کوئی ٹائم لمٹ بھی نہیں ہو تی اور چلتی رہتی ہیں ۔ اسی طرح عشرت العباد اور مصطفی کمال کی لڑائی کا بھی فوری کسی فیصلے کا کوئی امکان نہیں۔ لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ پہلا راؤنڈ مصطفی کمال نے جیت لیا ہے۔


کراچی کے ذمہ دار دوستوں کا یہی خیال ہے کہ ایم کیوایم پاکستان کو ملنے والی پذیر ائی نے مصطفی کمال کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا یا تھا اور گیم مصطفی کمال کے ہاتھ سے نکل گئی تھی، لیکن عشرت العباد کے خلاف محاذ کھول کر مصطفی کمال نے کراچی کی گیم میں اپنا رول دوبارہ پیدا کر لیا ہے۔ ان کی یہ چال شاید اتنی کامیاب نہ رہتی اگر عشرت العباد اپنے خول سے باہر نکل کر اس کا جواب نہ دیتے۔ عشرت العباد کے جواب الجواب نے عوام کو مصطفی کمال کی طرف دوبارہ متوجہ کر دیا۔ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عشرت العباد کے تمام جوابات مصطفی کمال کے حق میں ہی گئے اور انہی جوابات نے کراچی کی عوام کو ایک مرتبہ پھر مصطفی کمال کی طرف متوجہ کر دیا ہے۔


اب سوال یہ ہے کہ مصطفی کمال نے عشرت العباد کے خلاف محاذ کیوں کھولا؟ کیا مصطفی کمال یہ سمجھتے ہیں کہ ایم کیو ایم پاکستان کو سرکاری طور پر قبول کرنے میں عشرت العباد کا کلیدی کردار ہے۔ اس لئے اب ان کو ایکسپوز کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح عشرت العباد نے اپنے اوپر ایک نیوٹرل کریکٹر کی جو کھال چڑھائی ہوئی تھا وہ بھی مصطفی کمال کے حملہ میں اتر گئی ہے۔ بلکہ صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ عشرت العباد ایم کیو ایم پاکستان کے کراچی کے ڈپٹی مئیر کے ساتھ کھڑ ے ہونے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ وہ الطاف حسین کو اپنا محسن کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ مصطفی کمال کی گولہ باری کے بعد انہوں نے بیک وقت ایم کیو ایم پاکستان اور لندن سے پناہ لینے کی کوشش کی ہے۔ تاہم ان دونوں کیمپوں میں پناہ لینے کے باوجود وہ مصطفی کمال کے ساتھ سیز فائر کے بھی خواہاں ہیں۔ اسی لئے انہوں نے یک طرفہ اپنے الفاظ واپس لینے کی کوشش بھی کی ہے۔


اب سوال یہ ہے کہ کیا مصطفی کمال عشرت العباد کی لمبی گورنری کو خطرہ میں ڈال سکے ہیں۔ بلا شبہ اس گورنری پر سوالیہ نشانات پیدا ہو گئے ہیں۔ الطاف حسین کو محسن کہنے سے سوالیہ نشان پیدا ہو ئے ہیں۔ مصطفی کمال نے ان کے اس فقرہ کو خوب پکڑا ہے اور اس پر ان کوا لطاف حسین کے ساتھ نتھی کرنے اور برابر کا ناسور کہہ کر بریکٹ کرنے کی خوبصورت کوشش کی ہے۔ دوسری طرف عشرت العباد کا نروس ہو جانا بھی نا قابل فہم نہیں ہے۔ وہ تو الطاف حسین کی تنقید پر خاموش رہے اور چپ کر کے انہوں نے اپنے گورنری جاری رکھی۔ اس کے بعد ایم کیو ایم جب ایک تھی تو اس نے ان کے خلاف پریس کانفرنس کی تب بھی وہ خاموش رہے۔ میڈیا نے ان کے جانے کی خبریں چلائیں وہ تب بھی خاموش رہے اور اب تک ان کی خاموشی ہی ان کی طاقت سمجھی جاتی تھی، لیکن کیا اس خاموشی کا ٹوٹنا ان کی کمزوری کی نشانی ہے یا وہ وقتی طور پر جذ باتی ہو گئے تھے اور اب اس جذباتی کیفیت سے باہر آگئے ہیں۔


ایم کیو ایم کے درمیان بڑھتی دھڑے بندی نے بارہا یہ سوال پیدا کیا ہے کہ کونسا دھڑا ایم کیو ایم کا ووٹ بنک لینے میں کامیاب ہو گا۔ اسٹبلشمنٹ کی تمام حمایت اور سر پرستی تب تک بے وقعت ہے جب تک آپ ووٹ بنک کو متاثر نہیں کر سکتے۔ مصطفی کمال اس ووٹ بنک کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ الطاف حسین ایک غدار ہیں۔لہٰذا ووٹ بنک کو اب الطاف حسین کے نام پرووٹ نہیں دینے چاہئے بلکہ وہ تو الطاف حسین کی مخالفت میں ووٹ حا صل کرنا چاہتے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان نے بھی ابتدائی طور پر شعوری کوشش کی ہے کہ وہ الطاف حسین کی زیادہ مخالفت نہ کریں لیکن وہ ایسا نہ کر سکے اور انہیں اپنے آپ کو منوانے کے لئے آگے بڑھنا پڑا۔ ایسے میں ایم کیو ایم پاکستان اور لندن کے درمیان فاصلے وسیع ہوئے ہیں۔ ایم کیو ایم لندن نے اپنا الگ وجود قائم کیا۔ لیکن ابھی تک ایم کیو ایم لندن کے پاس کوئی بڑا نام نہیں ہے جو ان کی پاکستان میں قیادت کر سکے۔ اس کے تمام بڑے نام لندن بیٹھے ہیں اور پاکستان نہیں آسکتے۔ کیا عشرت العباد اپنے لئے کوئی ایسا کردار دیکھ رہے ہیں کہ وہ کسی بھی انتخابی معرکہ کے وقت ایم کیو ایم پاکستان اور لندن کے درمیان مفاہمت کا ایک کردار اداکر سکیں جس سے یہ دونوں مل کر انتخابی معرکہ لڑ سکیں۔ ایسے میں دونوں دھڑے کم ازکم پاکستان کی حد تک عشرت العباد کو اپنا قائد ماننے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ اسی لئے شاید وہ دوسری طرف جا رہے ہیں اور مصطفی کمال نے ان کی چھپی ہوئی سیاسی گیم کو وقت سے پہلے ایکسپوز کر دیا ہے۔ اس لئے مصطفی کمال کی سیاسی چال سے ظا ہر ہوتا کہ ابھی ان کی سرپرستی جاری ہے، ان کو ڈمپ نہیں کیا گیا۔

مزید :

کالم -