’’ حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا‘‘

’’ حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا‘‘
’’ حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا‘‘

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ایک خا!!!تون اینکر صائمہ کنول کو ایک بندوق بردار مسلح محافظ نے ’’نادرا‘‘ کے دفتر کے باہر عوام کی مجبوریوں پر پروگرام کرتے ہوئے تھپڑ دے مارا، کسی عورت کو سرعام مارے جانے والے تھپڑ کی سنگینی کوصرف وہی محسوس کر سکتا ہے جس کی تربیت اخلاقی اقدار کو مدنظر رکھ کر کی گئی ہو، مگر جب سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو وائرل ہوئی تو تھپڑ کا حادثہ پیچھے رہ گیا، میرے لئے بڑا سانحہ یہ بن گیا کہ بعض عوامی حلقوں کی طرف سے اس تھپڑ کا جواز پیش کیا جا رہا ہے، اسے جائزقرار دیا جا رہا ہے۔ کیا وہ خاتون ڈکیتی کر رہی تھی، کیااس نے مسلح اہلکار سے بندوق چھین لی تھی یا اس کے کپڑے پھاڑ ڈالے تھے۔ نجانے مجھے کیوں یقین ہو رہا ہے کہ ہر وہ شخص جو خاتون اینکر کی طرف سے محض اپنی بات پر غیر ضروری اصرار پراسے تھپڑ ماردینے کو جائز سمجھتا ہے، وہ اپنے گھر میں اپنے اس ’جائز اختیار ‘کو استعمال کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتا ہوگا۔
جی ہاں ! میں صحافت کے معیار کو زیر بحث لانے سے انکار نہیں کرتا، یقینی طور پر ہماری صحافت کے معیارکی روایات بہت اعلیٰ نہیں ہیں، چینلوں کے مالکان اصولوں اور ضابطوں سے زیادہ ریٹنگ کو اہمیت دیتے ہیں مگر وہ خاتون اینکر صائمہ کنول کہاں تھی اور کیا کر رہی تھی۔ وہ نادرا کے ملک بھر میں پھیلے ہوئے ان دفاتر میں سے ایک کے باہر تھی، جہاں لوگوں کی طویل قطارلگی ہوئی تھی، کیا یہ بات عوام کے مفاد میں نہیں کہ نادرا دفاتر پر رش اور وہاں کے عملے کے روئیے کو بے نقاب کیا جائے۔ کسی بھی نئے شناختی کارڈ کا حصول یا اس کی تجدید کا عمل عام شہریوں کا پورا دن لے لیتا ہے، بزرگ ،عورتیں اور ان کے ساتھ آنے والے بچے دن بھر قطار میں لگے رہتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے مسائل کی نشاندہی صحافت ہی نہیں بلکہ ایک عبادت بھی ہے۔ جب ایسے پروگراموں سے انتظامیہ پر دباؤ بڑھے گا تو وہ طریقہ کار کو بہتر اور آسان بنانے کے لئے اقدامات کریں گے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ خاتون اینکر کے پیش نظرپروگرام کی ریٹنگ بھی ہو گی مگر کیا آپ میڈیا کی طرف سے عوامی شکایات کی ترجمانی کے فرض کی ادائیگی میں مشکلات سے انکار کر سکتے ہیں۔
اگر حکومتی حلقے اور عدالتیں انسانی حقوق کے کسی معاملے پر نوٹس لیتی ہیں تو اس کی بنیاد یہی میڈیا رپورٹس ہوتی ہیں۔میں ایک جاہل بندوق بردار کی طرف سے تھپڑ کو تو جسٹی فائی کر سکتا ہوں کہ اس کی تربیت ہی ایسی ہوئی ہو گی، بندوقیں یوں بھی ہماری اخلاقیا ت کو بدل دیتی ہیں مگر اس روئیے کو جسٹی فائی نہیں کر سکتا جو حادثے سے بڑا سانحہ ہے، جو سوشل میڈیاکے دانشوروں کی طرف سے سامنے آ رہا ہے۔ مجھے معاف کر دیجئے، میں بھی باہر جا کر پروگرام کرتا ہوں،بسا اوقات جذباتی ہو کر میں بھی خود کو عوامی حقوق کی ترجمانی اور پاسداری کا ٹھیکیدار سمجھنے لگتا ہوں، مجھے یوں لگ رہا ہے کہ اگر کسی بھی صحافی یا اینکر نے عوامی مشکلات کی ترجمانی کی ایسی کوشش کی تو اسے نہ صرف تھپڑ پڑیں گے بلکہ اسی عوام کی طرف سے اسے گولی ماردینے کا جواز بھی دیا جا سکتا ہے۔ المیہ ہے کہ جس معاشرے میں عوام آمریتوں اور بندوقوں کو جوازبخش دیتے ہوں وہاں ایک تھپڑ کو جواز دینا واقعی بہت آسان ہے بلکہ بہت سے لوگوں کی نظر میں یہ تو ایک ہلکا سا ردعمل ہے، وہ ٹھٹھے اڑا رہے ہیں کہ ابھی تو گولی نہیں ماری گئی۔
جی! میں آپ کی دلیل سن رہا ہوں کہ وہ بندوق بردارایک عام آدمی تھا، وہ کوئی جاگیردار، سرمایہ دار، بیوروکریٹ اور سیاستدان نہیں تھا، اس خاتون اینکر کو خیال رکھنا چاہیے تھا کہ لوگوں کے مسائل کے ذمہ دار گن مین نہیں ہوتے بلکہ بڑے بڑے دفتروں کے اندر بیٹھے ہوئے فیصلہ ساز ہوتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ صائمہ کنول عوام کی مشکلات پر سوالوں کے جواب چاہتی تھی،ان سوالوں کے جواب دینے والوں تک پہنچنے کی راہ میں وہ گن مین رکاوٹ تھا، وہ شکایت کرنے والے لوگوں کو گھور گھور کر دیکھ رہاتھا اور اپنے روئیے سے دھمکیاں دے رہا تھا کہ وہ ان سے نمٹ لے گا۔ وہ اس وقت ایک عام غریب آدمی نہیں تھا بلکہ ہاتھ میں بندوق لے کر طاقت ، اختیار اور اقتدار کا پرتو بنا ہوا تھا۔بہت سارے لوگ یہ دلیل بھی دے رہے ہیں کہ وہاں بہت ساری خواتین موجود تھیں، بندوق بردار نے انہیں کیوں نہیں مارا؟ یقینی طور پر آپ کی اصلیت اسی وقت سامنے آتی ہے جب کوئی شکایت کرتا ہے، جب کوئی تنازع ہوتا ہے۔ کیا یہ تصور کرنا بہت ہی مشکل ہے کہ ایک بندوق بردار شخص ایک خاتون صحافی کے ناروا ہی سہی مگر محض اصرار کرنے پر اسے کیمرے کے سامنے تھپڑ مار سکتا ہے تو وہ کسی بھی جھگڑے اور اختلاف کی صورت میں وہاں موجود دوسری خواتین کے ساتھ کیا سلوک کرنے کی اہلیت اور ہمیت رکھتا ہوگا۔ اگر خاتون اینکراپنی بات پر بے جا اور ناروا اصرار کر رہی تھی تو اسے چاہئے تھا کہ وہ اپنے افسروں کو نوٹس لینے کوکہتا۔ ٹیم کو جانے کے لئے کہہ دیا جاتا، کیمرہ مین یا پروڈیوسر سے بات کی جاتی، سب سے بہتر تھا کہ اس نادراسنٹر کا کوئی ذمہ دار آ کر اپنا موقف دیتا اور یوں ایک روایتی پروگرام روایتی انداز میں ختم ہوجاتا۔
اصل سانحہ لوگوں کا ردعمل ہے شاید انہوں نے دنیا کے سب سے عقل مند انسان کے خواتین سے روا رکھے جانے والے رویے بارے نہیں پڑھا۔ مجھے بدگمانی ہے کہ ایسے لوگوں کی ماؤں نے انہیں عورتوں سے سلوک بارے تربیت ہی نہیں دی ہو گی، اگر مائیں اپنے بیٹوں کو یہ تربیت دیں تو کوئی مرد کسی عورت پر ہاتھ نہ اٹھائے تو یہ حادثہ کبھی نہ ہوتا۔ سانحہ بھی یہی ہے کہ جب آپ اصولی طور پر عورت کے منہ پر تھپڑمارنے کو جائز تصو ر کرلیتے ہیں تو پھر آپ یہ کام خود بھی کر سکتے ہیں۔میں نے پوچھا، اگر آپ کی بہن، بیٹی، بیوی یا ماں باہر ہوں، ہو سکتا ہے کہ وہ کسی بات پر غلط اصرار ہی کر رہی ہوں اور جواب میں جس مرد کے ساتھ بحث کی جارہی ہو وہ انہیں تھپڑمار دے، تب میں دیکھوں گا کہ آپ کس طرح کسی غیر مرد کے مارے ہوئے تھپڑ کو جواز دیتے ہیں۔ ہمارے پاس کمزور اور طاقتور کے لئے علیحدہ علیحدہ اخلاقی روایات ہیں، ایک نوکری پیشہ عورت کو سرعا م پڑنے والے تھپڑ کو انجوائے کرتے ہوئے مرد اور عورتیں مجھے ذہنی مریض لگ رہے ہیں۔
یہ درست ہے کہ ہمارے بہت سارے اینکرز بنیادی صحافتی تربیت سے عاری ہیں اور کہا جاتا ہے کہ مالکان کم معاوضے پر غیر تربیت یافتہ لوگوں کو اینکرز اور رپورٹرز کے طور پر فیلڈمیں بھیج دیتے ہیں اور مجھے اس وقت ہنسی آتی ہے جب میں لاکھوں روپے ماہانہ لینے اور ملک گیر شہرت رکھنے والے چینلوں پر بیٹھے ہوئے تجربہ کاروں کو آئین ، قانون، جمہوریت اور انسانی حقوق کے خلاف دلائل دیتے ہوئے دیکھتا ہوں مگر مجھے پورا یقین ہے کہ کوئی انہیں تھپڑ نہیں مار سکتا۔
صحافیوں کو مارنا بلکہ جان سے مار دینا کوئی نئی او رانوکھی بات نہیں، پاکستان کوآئی ایف جے نے دو برس پہلے پاکستان کو صحافیوں کے لئے دنیا کا سب سے خطرناک ملک قرار دیا تھا، جہاں سب سے زیادہ صحافی جان سے مار دئیے گئے تھے۔ یہ ان ممالک میں ٹاپ پر ہے جہاں برداشت کا مادہ حکومت، بیوروکریسی، سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ عوامی گروہوں میں بھی نہیں۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ صحافیوں کو جنگ زدہ علاقوں میں نہیں بھیجنا چاہئے مگر یہاں ہر علاقے میں صحافت جنگ زدہ علاقوں جتنی ہی خطرناک ہے۔ یہ ایسا ملک ہے جس میں پتھر اور ڈنڈے مار مار کے دو بھائیوں کولوگ صرف اس وجہ سے قتل کر دیتے ہیں کہ ان پر سٹریٹ کرائم کا شک ہوتا ہے مگر مجھے اپنے معاشرے کے مجموعی ردعمل پر بھروسا تھا کہ یہ گولی ، گالی اور تھپڑ کا ساتھ نہیں دے گا مگر آج یہ اعتماد بھی ٹوٹ گیا ہے۔ میں اپنے صحافی بھائیوں اور بہنوں سے کہوں گا کہ وہ بھی ٹھنڈے سٹوڈیوز میں بیٹھ کر جمہورکے فیصلوں کو گالی دینا سیکھیں، جمہوریت میں سے کیڑے نکالیں کہ اگر آپ باہر نکلیں گے اور عوام کے مسائل کی نشاندہی کریں گے تو آپ کے منہ پر بھی تھپڑ پڑ سکتا ہے ۔ میں نے کہا میرے معاشرے میں حادثہ یہ ہوا ہے کہ ایک عورت کے منہ پر ایک بندوق بردار جاہل سرکاری ملازم نے تھپڑدے مارا ہے بلکہ اصل سانحہ یہ ہے کہ اپنی نوکری کے تقاضے نبھاتے ہوئے وہ بے چاری عورت جن عام لوگوں کی مشکلات حل کرنے کے لئے چیخ و پکار کر رہی تھی، وہی عوام اس کو پڑنے والے تھپڑ پر تالیاں بجا رہے ہیں ۔ حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا ہے کہ اس ردعمل نے میرے معاشرے کی انتہا پسندی بلکہ تھپڑ پسندی کو بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے کیا تالیاں بجانے والے یہ لوگ ذہنی مریض ہیں؟

مزید :

کالم -