ٹرمپ کے جنگجوانہ عزائم

ٹرمپ کے جنگجوانہ عزائم
 ٹرمپ کے جنگجوانہ عزائم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

19ستمبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں جو خطاب کیا، اس کی اقوام متحدہ میں اس سے پہلے کوئی نظیر ملنا ممکن نہیں۔ایک ایسے عالمی ادارے کہ جس کو دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے بعد اس مقصد کے لئے بنایا گیا تھا کہ انسانیت کو کبھی جنگوں کے باعث ایسی تباہی سے دو چار نہ ہونا پڑے، ایسے عالمی ادارے میں ٹرمپ نے واضح طور پر اعلان کیا کہ وہ شمالی کوریا کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ٹرمپ اقوام متحدہ میں کھڑے ہوکر دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ شمالی کوریا کے 25ملین افراد کو صفحہ ہستی سے مٹانے کو کوئی مسئلہ ہی نہیں سمجھتے۔ اسی طرح ایران کے ساتھ 2015ئکے ایٹمی معاہدے کو ختم کرنے کی دھمکی دینے کے ساتھ ساتھ ٹرمپ نے ایرانی حکومت کو ’’کرپٹ ڈکٹیٹر شپ‘‘، ’’بدمعاش ریاست‘‘ اور’’قاتل حکومت‘‘ بھی قرار دیا۔ جنوبی امریکہ کے ملک وینزویلا کی حکومت کو بھی جنگ کی دھمکی دیتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ وینزویلا کی داخلی صورت حال امریکہ کے لئے ناقابل قبول ہے، اس صورت حال کو امریکہ خاموشی سے نہیں دیکھے گا، اگر یہ صورت حال ایسے ہی چلتی رہی تو امریکہ، وینزویلا کی حکومت کے خلاف بھی ایکشن لے گا۔
دوسری طرف اقوام عالم کی بے بسی دیکھئے کہ اقوام متحدہ میں کسی بھی ریاست کے سربراہ یا نمائندے نے اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہنے کی جسارت نہیں کی کہ ٹرمپ اقوام متحدہ میں ایسی باتیں کرکے جنگی جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ ٹرمپ ایک ایسے وقت میں اپنے جنگی عزائم کا اظہار کر رہے ہیں جب حال ہی میں ان کی انتظامیہ نے 700ارب ڈالرز کا دفاعی بجٹ بھی منظور کروالیا ہے۔ اقوام متحدہ میں ٹرمپ کی تقریر ان کی انتخابی مہم ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کی پالیسی کی مکمل طور پر ترجمانی کررہی تھی۔ ٹرمپ جہاں ایک طرف قومی ریاستوں کی سالمیت کو انسانی ترقی کے لئے ناگزیر قرار دے رہے تھے وہیں دوسری طرف قومی ریاستوں کی سالمیت کو دھمکیاں دیتے ہوئے یہ بھی کہہ رہے تھے کہ جو بھی ریاست امریکی مفادات کے خلاف کام کرے گی۔ امریکہ اس کے خلاف جنگ کرنے کے لئے تیار رہے گا۔
جنرل اسمبلی اجلاس میں ٹرمپ کے خطاب کو دنیا بھر کے ساتھ ساتھ خود امریکی میڈیا کے سنجیدہ حلقوں نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے، مگر اس حوالے سے ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کا ٹویٹ بڑا دلچسپ ہے۔ جواد ظریف کے ٹویٹ کے مطابق ’’ٹرمپ کی جاہلیت پر مبنی نفرت انگیز تقریر کا تعلق قرون وسطیٰ کے وقت سے ہے، یہ تقریر اس قابل نہیں ہے کہ 21ویں صدی میں اس کا جواب دیا جائے‘‘۔


ٹرمپ کے خطاب سے قبل وائٹ ہاوس کے ایک عہدے دار نے’’سی این این‘‘ کو بتایا کہ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے ’’گہرے فلسفیانہ‘‘ خطاب کو تیار کر نے کے لئے بہت زیادہ سوچ بچار کی، اگر ٹرمپ کے اس خطاب میں کسی بھی قسم کے’’فلسفے‘‘ کو تلاش کیا جاسکتا ہے تو یہ فاشزم کا ہی فلسفہ ہوگا۔ خاص طور پر جس طرح ٹرمپ نے شمالی کوریا کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی بات کی تو اس پر بہت سے عالمی تجزیہ نگاروں نے اس کا تقابل ہٹلر کی 1939ء کی اس تقریر سے کیا جو اس نے Reichstag (جرمن پارلیمنٹ) میں کی تھی، جس میں یورپ کے یہودیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بات کی گئی تھی۔


ٹرمپ کی تقریر پر امریکی میڈیا کی تنقید انتہائی قابل ستائش ہے۔ خاص طور پر سی این این کے گیل تزمیک لیمن، بلوم برگ کے ایلی لیک، دی واشنگٹن پوسٹ کے پال والڈمین اور فاکس نیوز کے جوڈتھ ملرکی جانب سے ٹرمپ کی تقریر کو ایسی سطحی تقریر قرار دیا گیا جو کسی بھی طور اقوام متحدہ جیسے عالمی پلیٹ فارم سے پیش کی جانے والی تقر یر نہیں تھی۔ امریکی میڈیا کے دعویٰ کے مطابق ٹرمپ کی یہ جنگجوانہ تقریر اس کے سینئر پالیسی مشیر سٹیفن ملرنے لکھی جو واضح طور پر فاشسٹ نظریات رکھتا ہے۔ شمالی کوریا اور ایران کو دھمکیاں دراصل امریکہ کی سامراجی پالیسی کا حصہ ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی اس تقریر میں جب یوکرین اور جنوبی بحیرہ چین میں امریکی مفادات کا تحفظ کرنے کی بات کی تو اس میں واضح طور پر روس اور چین کے لئے اشارہ تھا کہ وہ یوکرین(روس) اور جنوبی بحیرہ چین (چین) میں امریکی مفادات کونقصان پہچانے سے باز رہیں۔ اسی طرح ایران کے ساتھ 2015ئکے ایٹمی معاہدے کو ختم کرنے کی دھمکی دیکر ٹرمپ نے اپنے یورپی حلیف ممالک پر بھی ثابت کردیا کہ اب امریکہ اپنے عزائم کی تکمیل میں اپنے اتحادیو ں کے مفادات کی بھی پرواہ نہیں کرے گا۔ 2015ء میں ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ ہونے کے بعد مغربی یورپی ممالک نے بڑی تیزی سے ایران کے ساتھ کئی تجارتی معاہدے کرنے شروع کردےئے تھے، اب اگر مفروضاتی طور پر ہی اس بات کو مان لیا جائے کہ ٹرمپ ایران کے ساتھ2015ء کا معاہدہ منسوخ کردیں گے اور ایران پردوبارہ اسی نوعیت کی معاشی پابندیاں لگ جائیں گی تو ایسی صورت میں یورپی ممالک کے لئے بہت مشکل ہوجائے گا کہ وہ امریکہ کی منشا کے لئے ایران کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو بھی ختم کر دیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس اجلاس میں فرانس کے صدر میکرون نے جنہوں نے ٹرمپ کے بعد تقریر کی ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کو منسوخ کرنے کی مخالفت کی۔


اقوام متحدہ کے اس اجلاس میں یہ بات بھی انتہائی غور طلب رہی کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن، چین کے صدر شی چن پنگ اور جرمن چانسلر مرکل اس ابتدائی سیشن میں غیر حاضر رہے، مغربی میڈیا کی بعض رپورٹس کے مطابق ان راہنماؤں کو ایک حد تک اندازہ تھا کہ ٹرمپ اپنے خطاب میں کس طرح کے فاشسٹ خیالات کا اظہار کرنے جارہے ہیں، ایسے میں اگر وہ ٹرمپ کی تقریر کے دوران اجلاس میں موجود رہتے تو ان کے اس رویے کو ان کے اپنے ممالک میں شدید نا پسند کیا جاتا۔


72سال پہلے جب اقوام متحدہ کوامریکہ کی ہی تجویز پر قائم کیا گیا تھا تو اس وقت امریکہ نہ صرف دوسری جنگ عظیم کا فاتح تھا، بلکہ اسی جنگ کے دوران اس نے زبردست معاشی، صنعتی اور عسکری ترقی بھی کی۔ امریکہ نے اس عالمی ادارے کی تشکیل میں اس بات کا خاص خیال رکھا کہ یہ ادارہ بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی طرح امریکہ کے سامراجی عزائم پورا کرنے میں اہم ڈھال کا کردار ادا کرے۔ اقوام متحدہ کے قیام سے لے کر اب تک کئی مثالیں ایسی ہیں جب امریکہ نے اقوام متحدہ کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا اورا گر کبھی ویٹوکی طاقت رکھنے والے ممالک نے امریکی عزائم کو اس ادارے کے ذریعے نکیل ڈالنے کی کوشش بھی کی تو امریکہ نے اس ادارے کو خاطر میں لائے بغیر ہی اپنے مقاصد حاصل کر لئے۔ 2003ء میں عراق پر حملہ اس کی صرف ایک مثال ہے۔ اب ٹرمپ نے اقوام متحدہ میں فاشزم سے بھرپور جو خطاب کیا ہے۔ اس سے ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ اس عالمی ادارے کی رہی سہی اخلاقی ساکھ بھی تباہ کرسکتا ہے۔

مزید :

کالم -