اب ٹرین چلے گی ، خوشبو لگا کے ۔۔۔!
ٹرین کا سفر ہمیشہ ہماری کمزوری رہا ہے ،جب بھی کہیں آنے جانے کا موقع ملتا ہے ، کوشش ہوتی ہے کہ ٹرین کا سفر نصیب ہو جائے ، ہم شاعر مزاج لوگوں کو ٹرین کی پٹڑی اور پلیٹ فارمز ویسے ہی ’’ ہانٹ ‘‘ کرتے ہیں ۔ رات کے وقت کسی دور دراز پلیٹ فارم کے خالی بنچ پر چپ چاپ بیٹھ کر تارے گننا۔۔۔چاند کا نظارہ کرنا۔۔۔ کسی ان دیکھے محبوب کو تصور میں لا کے شعر کہنا ۔۔۔ہلکے سر میں کوئی معروف گیت گنگنانا۔۔۔تازہ مصرعہ تراشنا ۔۔۔ خاموش بنچ کے ساتھ چپکے چپکے باتیں کرنا ۔۔۔ دور سے آتی ٹرین کی سیٹی سے چونک اُٹھنا۔۔۔ کبھی کبھار بلاوجہ ٹرین کی پٹڑی پر میلوں پیدل چلنا۔۔۔توبہ !! کوئی حال نہیں شاعر مخلوق کا ۔۔۔!
خیر چھوڑیے ! شاعری کا رونا بیچ ہجر کے ہی رہنے دیتے ہیں اور اے این پی کے سابق ریلوے منسٹر کی یاد میں ہلکا ہلکا کھانستے ہیں۔جی ہاں!سابق ریلوے منسٹر بڑی دلچسپ شخصیت تھے ، ہلکا ہلکا کھانستے جاتے اور ریلوے کا بیڑا غرق کرتے جاتے ،انہوں نے ایک ایک ٹرین باری باری کھڑی کر دی اور ریلوے کو ’’ گھاٹے کا سودا ‘‘ قرار دے دیا ، تب ہمیں لاہور کے میو گارڈن کو دیکھتے ہی شدید غصہ آ جاتا تھا ، ہم سوچتے تھے کہ جس ریلوے کا ستیا ناس ہو گیا، اس کے افسران میو گارڈن لاہور کے بڑے بڑے بنگلوں میں شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ سے کیوں رہ رہے ہیں ، میو گارڈن کے بنگلوں پر غصہ تو خیر اب بھی آجاتا ہے اور ہم سوچتے ہیں کہ کیا ہی اچھا ہو کہ میو گارڈن سے سارے افسران کو لاہور میں کسی چھوٹے گھروں کی کالونی میں منتقل کر دیا جائے اور میو گارڈن میں کوئی بڑا تعلیم اداراہ بنا دیا جائے لیکن بھلا ہماری کون سنتا ہے۔۔۔ ؟ ہاں البتہ ہم آپ کو ضرور آج کے ریلوے منسٹر خواجہ سعد رفیق کی سنانے لگے ہیں ،کوئی شک نہیں کہ خواجہ سعدرفیق نے جس طرح انتھک محنت سے ریلوے جیسے مردہ گھوڑے میں جان ڈالی اس پر دِل باغ باغ ہے ، سعد رفیق سے کسی کا ذاتی اختلاف ہو سکتا ہے ، انہیں اس حوالے سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے کہ وہ نوازشریف کی سپورٹ میں مخالفین کے لئے بہت سخت اور کرخت بولتے ہیں، مگر اس بات سے مخالفین بھی انکار نہیں کر سکتے کہ سعد رفیق نے نہ صرف ٹرینیں ریگولر کر دیں بلکہ ریلوے پلیٹ فارمز بھی سوہنے کر دیے ،ہمیں پلیٹ فارمز کا وہ گند کبھی نہیں بھول سکتا جب اے این پی کے لیڈر ریلوے منسٹر تھے اور ٹرینیں بند تھیں ، مسافروں کی کیا بات کرنی ریلوے سٹیشنوں پر روزی روٹی کی آس میں بیٹھے قلی جھولیاں اٹھا اٹھا کے حکومت کو بدعائیں دیتے تھے اور ویران سٹیشنوں پر چیلیں اور کوئے کائیں کائیں کرتے تھے ۔ہمیں شیخ رشید احمد کی وزارتِ ریلوے بھی یاد ہے، جب انہوں نے مختلف ٹرینوں میں چند ڈبے شاہوں کی ’’ عیاشی‘‘کے لئے طوائفوں کے کوٹھوں جیسے بنوا لئے اور باقی سب کی سب ٹرینیں کوڑے کچرے اور بدبو کا ڈھیر بن گئیں۔ہر ریلوے اسٹیشن سے تعفن اٹھ رہا تھا ، صفائی ستھرائی کا معیار پکھی واسوں کی جھونپڑیوں سے بھی بدتر تھا ،سعد رفیق کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے وزارت ریلوے کا قلم دان سنبھالتے ہی نہ صرف کرایوں کی مد میں بے بہا کمی کی بلکہ سینئر سٹیزنزکو مفت سفر کی سہولت دی ،بات یہیں نہیں رکی بلکہ چین جیسے ممالک سے نئی بوگیاں اور نئے انجن درآمد کرنے کے بھی معاہدے کئے ، ٹرینوں کے ٹائم ٹیبلز پر نہ صرف خاص توجہ دی، بلکہ بروقت ٹرینوں کی آمد و رفت کو یقینی بنایا ،سعد رفیق کا عزم ہے کہ وہ نہ صرف ٹرینوں کو نہلا دہلا کر ’’لش پش‘‘ کریں گے، بلکہ ایک ایک ڈبہ خوشبووں سے معطر ہو گا ،جو لوگ ریلوے کا مسلسل سفر کرتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ ٹرین میں سفر کرنا بالکل ایسے ہی تھا جیسے کوڑے کے ڈھیر پہ بیٹھ کر ’’ ماسی پنڈ‘‘ جانا۔
خبر یہ ہے کہ خواجہ سعد رفیق نے گذشتہ روز ریلوے ہیڈ کوارٹر زمیں اپنے محکمہ کی ہائی کمان کا اجلاس بلایا اور ٹرینوں کے لئے نئے واشنگ سنٹرز کا اعلان کیا ،وزیر ریلوے کہتے ہیں کہ اب مُلک بھر میں چلنے والی ٹرینیں اجلی دھلائی کے باعث صاف ستھری اور چمکتی دمکتی نظر آئیں گی ۔سعد رفیق کا کہنا ہے کہ ہر ٹرین سفر سے پہلے نہلائی دہلائی جائے گی اور جہاں جہاں سے گزرے گی سب کو بھلی لگے گی ،نہ صرف ٹرینوں کو باہر سے دھویا اور صاف کیا جائے گا،بلکہ اندر سے بھی ہر ٹرین لش پش نکھری نکھری ہو گی ، صرف یہی نہیں،بلکہ ہر بوگی میں داخل ہوتے ہی لاجواب خوشبوئیں مسافروں کا استقبال کیا کریں گی۔اجلاس میں وزیر ریلوے نے لاہور، راولپنڈی اور روہڑی میں تین بڑے ڈرائی کلیننگ منصوبوں کی منظوری دی اور کہا کہ ہر ڈبہ خوشبو سے معطر ہونا چاہئے ۔کراچی واشنگ کلینک کو پہلے ہی اپ گریڈ کرنے کی منظوری دی جا چکی ہے ۔سعد رفیق نے یہ بھی کہا کہ آخر کیوں اکانومی کلاس کے مسافر دھوپ ،گرمی اور ٹھٹھرتی سردی میں سفر کریں ، انہوں نے یہ بڑی خوشخبری بھی دی کہ جلد اکانومی کلاس کی بوگیوں کو فلی ائرکنڈیشنڈ کر دیا جائے گا اور سردیوں میں ہیٹر جلائے جائیں گے ۔
صاحبو ! کوئی شک نہیں کہ ہمارے روگ بڑے ’’اولے‘‘ ہیں ، ہم غربت ، بھوک ،بیماریوں ، ملاوٹوں ، گندگی ، بدبو، بدحالی ، بیروزگاری اور بے بسیوں ، بے کسیوں کے مارے لوگ ہیں ۔ہر حکومت نے ہمارے ساتھ ہاتھ کیا ہے ، سب نے لوٹ مار ، کرپشن اور اقربا پروری کا بازار گرم کیے رکھا ہے اور عام لوگوں کو ’’ بھاڑ‘‘ کا رستہ دکھائے رکھا ہے ۔ہم وہ قوم ہیں جسے گھر میں سکون ہے نہ سفر میں ، شکر والی بات یہ ہے کہ کم از کم ریلوے کو ایک ایسا منسٹر ضرور نصیب ہوا ہے، جس نے عوام کے مسائل کو قریب سے جاننے کی کوشش کی ہے اور جدید سفری سہولیات مہیا کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے، کوئی شک نہیں کہ یہ مٹی بہت نم ہے ،کام کرنے کے نہ صرف بہت مواقع ہیں بلکہ وسائل کی بھی کمی نہ ہے ،وزیر ریلوے کا یہ کہنا بجا کہ اضافی اخراجات کے بغیر ہی ٹرینوں کو نہ صرف اپ گریڈ کیا جا سکتا ہے، بلکہ عوام کی دعائیں بھی لی جا سکتی ہیں ۔ہم جانتے ہیں کہ خواجہ سعد رفیق بچپن سے سیاسی ورکر ہیں ، انہوں نے اپنے باپ کی گولیوں سے چھلنی لاش دیکھی ہے اور والدہ ماجدہ کو دلیرانہ سیاست کرتے ہوئے بھی ’’ فالو‘‘ کیا ہے۔ اندرون لاہور کی گلیوں میں جوان ہونے والے سعد رفیق بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ غربت کیا ہوتی ہے اور وسائل کی بھرمار کیسے انسان کی اوقات بدل دیتی ہے، یقیناًایک عام سیاسی گھرانے کا یہ فرزند بہت خوب سمجھتا ہے کہ سہولت کس طمانیت کا نام ہے اور مایوسی و بیزاری کیسے نسلوں کو بیمار کرتی ہے ،ریلوے نظام کی بہتری سعد رفیق کا مشن ہے اور وہ اپنے مشن کی تکمیل کے لئے صحیح سمت کا تعین کئے ہوئے ہیں ، یقیناً وہ دن دور نہیں جب پاکستان کو جدید ریلوے سسٹم نصیب ہوگا اور لوگ بھارت کے لالو پرشاد یادیو کو بھول جائیں گے،جنہوں نے بھارت کے کھوکھلے ریلوے سسٹم کی بحالی میں خاص کردار ادا کیا ۔
کالم کے آخر میں وزیراعلیٰ شہباز شریف کے نیو ورلڈ ریکارڈ کی بات ضرور ہونی چاہئے، جنہوں نے بھکی پاور پلانٹ کاافتتاح کیا ہے ، 1180میگا واٹ کا یہ عظیم الشان منصوبہ نئے پاکستان کا مستقبل ہے ،گیس سے چلنے والے اس پاور پلانٹ کی لاگت دُنیا میں سب سے کم ہے اور فی یونٹ بجلی کی قیمت صرف 7روپے ہے ، وزیراعلیٰ پنجاب نے شفاف ٹینڈرنگ کے باعث اس منصوبے میں 50 ارب روپے کی بچت کی ہے ،دوسری جانب وزیراعظم نواز شریف وزارت پانی و بجلی پر خوب برسے ہیں،یقیناًبے جا لوڈشیڈنگ نے عوام کو تڑپا کے رکھ دیا ہے، شدید گرمی کی لہر سے لوگ بلبلائے ہوئے ہیں ، وزیراعظم کا کہنا ہے کہ آخر کیوں شارٹ فال 7ہزار میگاواٹ پر جا پہنچا، وزیراعظم کا قوم سے وعدہ ہے کہ 2018ء تک لوڈشیڈنگ کا نام و نشان مٹا کے رکھ دینا ہے،مسلم لیگ کی حکومت خوب سمجھتی ہے کہ انرجی بحران مُلک کو دیمک کی طرح چاٹ گیا ہے ، پچھلی حکومتوں نے اس بحران کو شیطان کی آنت کی طرح بڑھاوا دیا ہے ، صنعت کا پہیہ رک گیا ہے ، کاروبار ماند پڑگیا ہے ، سرمایہ دار اور صنعتکار نہ صرف مُلک چھوڑ گئے ہیں بلکہ اپنا سرمایہ اور بزنس بھی ساتھ ہی لے گئے ہیں ،ان سب کو واپس لانا ہے ، واپسی کا ایک ہی طریقہ ہے کہ یہاں کبھی بھی کسی بھی طرح کی لوڈ شیدنگ یا مہنگی بجلی کا دور دورہ نہ ہو ، بیوروکریسی کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے کہ نہیں ، معاملہ نوازشریف اور شہباز شریف کی ذات کا ہے ، دونوں بھائیوں کا عوام سے وعدہ ہے کہ لوڑشیڈنگ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے ،اسی وعدہ کے ایفا ء میں ہی 2018ء کے الیکشن کی کامیابی مضمر ہے ، بے شک وزارتِ پانی و بجلی کے ایک ایک فرد کی جھاڑ بنتی ہے ، یقیناًاب پاکستانی عوام اس حکمران کو معاف نہیں کرتے جو اپنے وعدے کا پاس نہیں کرتا ، نوازشریف کا بھی فرض ہے کہ وزارت پانی و بجلی کے کسی ایک بھی فرد کو معاف نہ کریں جو ان کے وعدے سامنے حائل ہے ،یہ وقت عوام کو سہولت دینے کا ہے ، ووٹوں سے زیادہ دعائیں لینے کا ہے ، عوام بہت تھک چکے ہیں ، انہیں سہارا دینے کا ہے ۔یہی اصل حکمرانی ہے اور یہی 2018ء کا الیکشن ۔