حلقہ اربابِ ذوق کا تاریخی اتحاد اور رائٹرز گلڈ کا ملبہ

حلقہ اربابِ ذوق کا تاریخی اتحاد اور رائٹرز گلڈ کا ملبہ
 حلقہ اربابِ ذوق کا تاریخی اتحاد اور رائٹرز گلڈ کا ملبہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لاہور ادبی، ثقافتی، تاریخی، سیاسی، صحافتی حوالے سے جو مقام رکھتا ہے، وہ کسی دوسرے شہر کو حاصل نہیں۔اِس شہر کی مال روڈ پر ایسے ہوٹل، ریسٹورنٹ، چائے خانے اور بیٹھنے اُٹھنے کے مراکز موجو ہیں جو سالہا سال سے ادب و کلچر کی نشوونما میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ دہشت گردی، غربت اور مہنگائی نے پورے مُلک پر خوفناک وار کیا ہوا ہے، لاہور بھی اس کی زد میں ہے،لیکن مجال ہے جو لاہور کی ادبی و ثقافتی تقریبات پر کسی طرح کی نحوست کا پہرہ آیا ہو، ہاں کبھی کبھار حالات کی گردش ایسی تقریبات کو گھیرے میں لینے کی کوشش کرتی ہے،لیکن ادب و ثقافت سے وابستہ لاہوریئے بھلا حالات کی گردشوں کو کب خاطر میں لاتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ لاہور کا تاریخی پاک ٹی ہاؤس بند کر دیا گیا، لیکن ادیبوں، شاعروں اور صحافی برادری نے ایسی بھرپور تحریک چلائی کہ سرکار کو بے بس ہونا پڑا اور پاک ٹی ہاؤس کوئی نئی آن بان شان سے بحال کیا گیا، یقیناًاس تحریک میں ہر کسی نے اپنے حصے کا کردار ادا کیا، لیکن عطاء الحق قاسمی ایسی شخصیت ہیں جو موجودہ حکومت کے بہت قریب ہیں، میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی قربت کے باعث عطاء الحق قاسمی نے لاہور کے ادیبوں، شاعروں کے نمائندے کا کردار ادا کیا اور پاک ٹی ہاؤس کی نہ صرف بحالی کروائی، بلکہ تزئین و آرائش اور سج دھج کا اہتمام بھی کیا۔ عطاء الحق قاسمی کا یہ بھی وعدہ تھا کہ وہ لاہور کے الحمراء کی کسی نکڑ پر ایسا چائے خانہ بھی بنوائیں گے، جہاں دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں نہ صرف چائے کافی ملے گی،بلکہ بحث و مباحثے کے لئے خاص گوشہ بھی میسر ہو گا۔ عطاء الحق قاسمی اِن دنوں الحمراء آرٹس کونسل کے سربراہ نہیں، بلکہ پاکستان ٹیلی ویژن کے چیئرمین ہیں، یقیناًپی ٹی وی کی چکا چوند بڑے بڑوں کو بہت کچھ بھلا دیتی ہے، ہو سکتا ہے کہ عطاء الحق قاسمی بھی اپنے پرانے وعدے بھول بھال گئے ہوں؟؟


خیر! عطاء الحق قاسمی کے وعدوں کا ذکر یوں ہی آ گیا، ہم بات کر رہے تھے لاہور کی اور لاہور میں آباد ادبی ڈیروں کی جو کل بھی آباد تھے، آج بھی ہیں اور مستقبل میں بھی آباد و شاد رہیں گے۔اس حوالے سے بہت بڑی خوشخبری یہ ہے کہ حلقہ اربابِ ذوق جو لاہور کے ادیبوں، شاعروں کا اصل محور و مرکز ہے، وہ نئی طاقت و توانائی کے ساتھ متحد ہو گیا ہے۔ پانچ سال قبل حالات کے جبر نے حلقہ اربابِ ذوق کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ ایک حصہ ایوانِ اقبال میں رہ گیا تھا اور دوسرا پاک ٹی ہاؤس میں شفٹ ہو گیا تھا، دونوں حلقے ہر اتوار کی شام اپنے اپنے تئیں ایوانِ اقبال اور پاک ٹی ہاؤس میں اجلاس بھی منعقد کرواتے تھے،لیکن ایک خاص طرح کی ادبی و سیاسی سرد جنگ دونوں حلقوں میں موجود تھی۔ پھر یوں ہوا کہ ایک جسم کے یہ دونوں حصے کرشماتی طور پر آپس میں مل گئے۔ سچی بات ہے کہ یہ کرشمہ ایسے ہی نہیں ہو گیا،بلکہ اس کے پیچھے بعض دوستوں کی صدقِ دِل سے کی جانے والی انتھک محنت ہے جو دو حصوں میں بٹے حلقہ اربابِ ذوق کو پھر سے ایک کرنے میں کارگر ثابت ہوئی، ہم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ کن لوگوں نے حلقہ اربابِ ذوق کے حصے بخرے کئے،بلکہ ہمارے لئے حسین مجروح اور ڈاکٹر امجد طفیل کے نام بہت اہم ہیں جو اِس وقت حلقہ اربابِ ذوق وَن اور حلقہ اربابِ ذوق ٹو کے سیکرٹری ہیں اور اِن دونوں ہی کی صاف نیت کا ثمر ہے کہ حلقہ اربابِ ذوق پھر سے متحد ہوا۔ ڈاکٹر امجد طفیل جس قدر محب وطن، ادب دوست نثر نگار، مخلص اور شفیق انسان ہیں اس پر دو رائے ہی نہیں، جبکہ دوسری جانب حسین مجروح جیسی چاک و چوبند اور متحرک شخصیت کی انتھک محنت نے اس انہونی کو ہونی کیا ہے ،یوں حلقہ اربابِ ذوق کے اتحاد کی نئی تاریخ رقم ہوئی ہے۔ حسین مجروح کا کہنا ہے کہ وہ حلقہ اربابِ ذوق کے سیکرٹری ہی اس لئے منتخب ہوئے تھے کہ اِس تاریخی ادارے کو نہ صرف متحد کرنا ہے، بلکہ اِس کی بنیادوں کو اِس قدر مضبوط کرنا ہے کہ آئندہ کوئی بھی، کبھی بھی اسے توڑنے یا اکھاڑنے کی کوشش نہ کرے۔یقیناًگزشتہ اتوار کی شام وہ لمحات حلقہ اربابِ ذوق کی تاریخ میں بہت اہم تھے جب حلقہ اربابِ ذوق ایوانِ اقبال کے جاری اجلاس میں دوسرے حلقہ کے سیکرٹری ڈاکٹر امجد طفیل یکدم نمودار ہوئے اور اُن کی طرف سے منفرد لہجے کے استاد شاعر اشرف جاوید نے دونوں حلقوں کے اتحاد کا تاریخی اعلان کیا۔ بعد ازاں اِس حلقہ کے سیکرٹری حسین مجروح، ڈاکٹر امجد طفیل اور اشرف جاوید کے ہمراہ دوسرے حلقہ کے پاک ٹی ہاؤس میں جاری اجلاس میں جا پہنچے اور لاہور بھر کے ادیبوں شاعروں کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کیا۔ حسین مجروح کہتے ہیں کہ حلقہ اربابِ ذوق کے اتحاد میں ان کے علاوہ اشرف جاوید،ریاظ احمد اور دیگر دوستوں نے جو مثبت کردار ادا کیا ،وہ کسی طور بھلایا نہ جا سکے گا، بلکہ لاہور کی ادبی تاریخ گواہ رہے گی کہ اِن دوستوں نے حلقہ اربابِ ذوق کے لئے وہ کر دیا جو پانچ برسوں میں کوئی نہ کر سکا۔


قصہ مختصر طے یہ کہ12مارچ کو حلقہ ارباب ذوق کے الیکشن ہوں گے، اشرف جاوید کو بطور الیکشن کمشنر ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں،سیکرٹری اور جائنٹ سیکرٹری کا الیکشن لڑنے کے خواہشمند امیدوار 26فروری بطور اتوار حلقہ اربابِ ذوق کے دونوں اجلاسوں میں کاغذاتِ نامزدگی وصول کر سکیں گے اور منتخب باڈی12مارچ کے بعد پاک ٹی ہاؤس مال روڈ پر حلقہ اربابِ ذوق کا اجلاس ہر اتوار کی شام منعقد کروایا کرے گی، لیکن یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاک ٹی ہاؤس میں حلقہ اربابِ ذوق کا ہفتہ وار اجلاس سہولت کے ساتھ منعقد نہیں ہو سکے گا،کیونکہ حسین مجرح نے انتھک محنت کے باعث سو سے زائد ادیبوں، شاعروں کو ہر اتوار حلقے میں حاضر ہونے کی عادت ڈال دی ہے، ڈاکٹر امجد طفیل کے حلقے میں بھی ہر اتوار اچھی خاصی تعداد میں ادیب شاعر موجود ہوتے ہیں،یقیناًاتنی بڑی تعداد میں ادیب شاعر جب ہر اتوار کی شام پاک ٹی ہاؤس کا رُخ کریں گے تو اس چھوٹی سی جگہ پر بیٹھنا تو دور کی بات کھڑا ہونا بھی محال ہو گا ۔ بہتر یہی ہے کہ 12مارچ کے بعد حلقہ اربابِ ذوق کا اجلاس ایوانِ اقبال میں ہی منعقد کیا جائے تاکہ آنے والے ادیبوں شاعروں کو بیٹھنے اور پارکنگ کے مسائل درپیش نہ ہوں۔آخر میں عرض ہے تو صرف اتنا کہ ڈاکٹر امجد طفیل نے ڈاکٹر امجد ثاقب سے مل کر اخوت کے پلیٹ فارم سے ادیبوں و شاعروں کے لئے ایک لاکھ روپے تک قرض کا سلسلہ شروع کروایا ہے، نئے منتخب سیکرٹری کے لئے ضروری ہے کہ اِس منصوبے کو رکنے نہ دے،بلکہ اس پر مزید محنت کی جائے تاکہ ضرورت مند اور بیروزگار ادیب شاعر مستفید ہوتے رہیں۔ہم نے اپنے ایک گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ ’’رائٹرز گلڈ‘‘ کی عمارت کو ’’گھوسٹ بنگلہ‘‘ بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ اربابِ اقتدار اگر اس جانب تھوڑی سی توجہ دیں اور اس وسیع و عریض عمارت کو قبضہ گروپوں سے چھڑوا کر لاہور پریس کلب کی طرز پر ادیبوں شاعروں کا کلب بنا دیں تو اس کمیونٹی پر بڑا احسان ہو گا، ہم اپنے آج کے کالم میں بھی وزیراعظم نواز شریف کی توجہ اِس جانب مبذول کروانا چاہتے ہیں اور کہنا چاہتے ہیں کہ۔۔۔ ’’شاید کہ تیرے دِل میں اُتر جائے میری بات‘‘۔

مزید :

کالم -