تساہل کا سفر
ابھی لاہور دھماکہ کے زخم تازہ ہی تھے، سیہون دھماکہ کے زخم مُندمل نہیں ہوئے تھے کہ لاہور میں ایک اور دھماکہ ہوگیا۔ یہ دھماکہ جو گزشتہ روز ہوا، دھماکہ خیز مادہ نصب کر کے ریموٹ سے اڑایا گیا۔ پاکستان اور عوام ایک ایسی ان دیکھی جنگ میں گھر گئے ہیں جس کے لئے ہر لحاظ سے تیار ہونا ضروری ہے۔ ایک دھماکے کے بعد دوسرے دھماکہ کا انتظار تو مسئلے کا حل نہیں ہے لیکن تجربہ میں آیا ہے کہ ہمارے حکمران، پولس اور دیگر محکمے دوسرے دھماکے کے منتظر ہی ہوتے ہیں۔ لاہور میں یہ دھماکہ کیوں ہوا؟ اس سوال کا جواب حکومت دے گی یا پولس سے لیا جائے؟ سیہون میں دھماکے کے بعد صوبائی حکومت کو ہوش آیا کہ درگاہوں کی حفاظت کے لئے منصوبہ تیار کیا جائے۔ اب تک کیوں سو رہے تھے۔ کیا اس انتظار میں تھے کہ سب سے بڑ ی درگاہ پر دھماکہ ہو تو جاگیں گے ۔ کیا شکار پور میں کئے جانے والے دھماکے انتباہ نہیں تصور کئے جا سکتے تھے؟ کیا سکھر میں آئی ایس آئی کے دفتر پر دھماکہ الارم نہیں تھا؟ سیہون دھماکے کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سیہون درگاہ کے لئے حفاظتی منصوبہ تیار کرنے کا حکم صادر کیا ۔ سندھ میں محکمہ داخلہ کے مطابق سات سو بڑی اور چھوٹی درگاہیں موجود ہیں۔ ان تمام درگاہوں کی حفاظت کرنا تو کسی بھی حکومت کے بس کی بات نہیں ہے۔ لیکن اتنا ضرور ہو سکتا ہے کہ شہروں اور قصبوں میں داخل ہونے یا اخراج کے راستوں کی توجہ کے ساتھ دن رات نگہداشت کی جائے۔ہر دھماکہ کے بعد کئے جانے والے ’’اہم’’ اجلاسوں میں سوائے اخراجات میں اضافہ کے کچھ نیا سامنے نہیں آتا۔ سی سی ٹی وی کیمروں کا جال بچھانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ ایسے کیمروں کاکیا فائدہ جنہیں باقاعدگی سے مانیٹر نہیں کیا جائے۔ سیہون میں پہلے ہی 38 کیمرے نصب تھے۔ انہیں مانیٹر تو نہیں کیا جارہا تھا۔ وزیر اعلیٰ نے ایک اجلا س بھی کیا جس میں مزارات، مدارس، مندروں اور دیگر عوام کے اجتماع کے مقامات پر حفاظتی انتظامات زیر غور آئے۔ نوید سنائی گئی کہ سادہ لباس میں بھی پولس کو مقرر کیا جائے گا۔روزانہ کی بنیاد پر اطلاعات ایک دوسرے کو فراہم کی جا ئیں گی، وغیرہ ۔ یہ سارے اقدامات جو پہلے سے موجود ہیں یا اب کئے جارہے ہیں، بہت پہلے ان پر عمل در آمد کر لینا چاہئے تھا۔ مستعدی کے ساتھ عمل در آمد کی کمی ہے، اس کا انٹطام کیا جانا چاہئے۔ ان دیکھی جنگ کا شکار ہونے کی صورت میں تو تیاری ہونی چاہئے اور اس پر اتنی سرعت کے ساتھ عمل در آمد ہونا چاہئے کہ گھات لگائے بیٹھے دہشت گردوں کو مات دی جاسکے۔ دہشت گردی کی وجہ سے جہاں انسانی جانوں کا نقصان ہوتا ہے، جہاں عوام میں خوف کی لہر دوڑ جاتی ہے وہاں وہ معیشت کو بھی دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ نئے نئے اقدامات پر خرچہ آتا ہے۔ حکمرانوں کے فضول ہنگامی دور ے بھی خرچے میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔
حکومتوں نے کسی بھی طرح کی کوئی تیاری نہیں کی ہوئی آج تک تو تعلیمی اداروں میں طلباء و طالبات میں سے رضاکار تیار نہیں کئے گئے تاکہ انہیں ذہنی طور پر ہی تیار کیا جاسکے۔ ان کی ذہن سازی کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ مدارس میں اساتذہ اور طلبا ء کے ساتھ کسی قسم کی مشاورت نہیں کی گئی۔ ان سے گفتگو کرنے کوئی نہیں گیا تاکہ ان کی سوچ کے ساتھ ساتھ یہ اندازہ بھی کیا جاسکے کہ وہ اس معاملے میں کیا ذہن رکھتے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کی منظوری کے بعد افسران نے پولس اہلکاروں کو ذمہ داری سونپ دی تھی کہ مدارس کا جائزہ لیں۔ انہوں نے کسی منصوبہ بندی کے بغیر چھاپے مارے، مدارس کو سر بمہر کیا اور پھر سب بھول گئے کہ دیگر کیا اقدامات کئے جانے تھے۔ شہروں کی ناکہ بندی، آنے جانے والی گاڑیوں کی چیکنگ کا کوئی مناسب باضابطہ انتظام سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ داتا دربار ہو، قلندر ، بھٹ شاہ یا سچل سرمست کی درگا ہیں ہوں، ان کی ناکہ بندی میں کیا مشکلات حائل ہیں؟ لاہور کے گزشتہ روز کے دھماکے میں جو بارود استعمال کیا گیا، اس کے دیگر لوازمات وغیرہ کسی اور شہر سے تو نہیں لائے گئے ہوں گے۔یہ لاہور میں ہی خریدے گئے ہوں گے۔کیوں نہیں معلومات جمع ہو سکیں کہ یہ دھماکہ خیز مادہ کب، کیسے، کہاں سے اور کس نے خریدا۔دوکاندار ہوں یا رکشاؤں کے ڈرائیور یا کوئی اور شہری، پولس کو رضاکارانہ بنیاد پر کوئی اطلاع فراہم کرنے پر کیوں آمادہ نہیں ہوتا؟ کبھی وجہ تلاش کرنے کی کوشش کی گئی۔ حکمران اور حکام لوگوں سے ملاقاتیں کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے ہیں۔ سیکورٹی کے گھیرے میں دفاتر میں بیٹھے رہنے سے کام نہیں چلے گا۔
اس تماش گاہ میں خود کش بمبار ہو یا دھماکہ خیز مادہ نصب کرنے والے دہشت گرد، ان سے نمٹنے کے لئے ہمہ وقت حاضر دماغی کی اشد ضرورت ہے ، حکومتیں آج تک تو حفاظتی اقدامات کے سلسلے میں پولس یا دیگر سیکورٹی فراہم کرنے والے اداروں، رضا کاروں کی تربیت کے لئے کوئی قابل عمل ہدایت نامہ بھی تیار نہیں کرسکی ہیں حالانکہ پاکستان کے تمام بڑے شہر دہشت گردی کی تباہی سے دوچار ہو چکے ہیں۔ شہری دفاع کے رضاکاروں کو ابھی تک متحرک نہیں کیا گیا ہے۔ قومی رضاکار تنظیموں کو نئے سرے سے تیار کرنے کی ضرورت پر غور ہی نہیں کیا گیا ہے۔مساجد، مزارات اور دیگر عبادت گاہوں، اجتماعی مقامات، تقریبات، جلسے، جلوسوں، حساس مقامات اور دیگر مقامات پر لوگ واک تھرو گیٹ سے گزر ے بغیر کیوں داخل ہوں، مکمل جامہ تلاشی کیوں نہ لی جائے، کسی کو بھی بڑا بیگ یا پارسل مجمع میں کیوں لے جانے دیا جائے، کسی بھی تقریب کے ختم ہونے پر مجمع کو ایک ساتھ باہر کیوں نکلنے دیا جائے، ڈیوٹی کے اوقات میں رضا کاروں اور سیکورٹی اہلکاروں کو کیمرہ یا موبائل فون کے استعمال پر سختی سے پابندی کیوں نہیں عائد کی جائے،ہسپتالوں میں انتظامات کیوں نہیں مکمل رکھے جائیں، یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ دھماکوں کے بعد کہا جاتا ہے کہ ہسپتال میں ا یمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے، ہسپتال کا تو مطلب ہی ایمرجنسی میں کام کرنا ہوتا ہے شہروں میں ایمبولنس کی فہرست کسی مرکزی دفتر میں کیوں میسر نہ ہو کہ ایک فون پر ایمبولینس روانہ کی جاسکیں۔ ہر ضلع ہیڈ کوارٹر میں دھماکوں ، بڑی عمارت کے گرنے، بڑی آگ لگنے ، بڑے حادثات سے نمٹنے کے لئے مکمل انتظامات کیوں نہیں کئے جاسکتے۔ غرض یہ کہ سب کچھ کیا جا سکتا ہے اگر انتظامی افسران سنجیدگی کا مظاہرہ کریں، دل جمعی کے ساتھ غور و فکر کریں ، منصوبہ بندی کریں، اہل کاروں یا چھوٹے ملازمین پر کام یا ذمہ داری نہ چھوڑیں۔