آپریشن ردالفساد اور عوامی آگہی کے آبگینے
لیجئے ایک دھماکہ اور ہوگیا اور وہ بھی لاہور میں۔۔۔ میں نے تو اگلے روز بھی لکھا تھا کہ لاہور میں کراچی سے زیادہ ’’فساد‘‘ چھپا ہوا ہے۔ دوسرے لفظوں میں لاہوری ساز، ایک عرصے سے تشنہء مضراب چلا آ رہا تھا۔ اس پر آخر کسی روز تو کسی نے زخمہ چلانا تھا۔ اِدھر حکومت نے ردّالفساد کا زخمہ چلانے کا اعلان کیا اور اُدھر ’’نغموں‘‘ کے آبشار پھوٹنے لگے!
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
خبرہے کہ پاکستان بھر میں آپریشن ’’ردّالفساد‘‘ لانچ کر دیا گیا ہے۔۔۔ کل ہی کسی ٹی وی چینل پر یہ خبر بھی نشر کی جا رہی تھی کہ پاکستان کے طول و عرض میں پائے جانے والے 50عدد مفتیانِ کرام نے اس آپریشن کے نام کو بالکل جائز قرار دے کر اس کی ’’منظوری‘‘دے دی اور توثیق کردی ہے اور اس طرح عنداللہ ماجور ہو گئے ہیں۔لیکن عوام الناس کو شائد معلوم نہیں کہ ملٹری آپریشنوں کے یہ نام متعلقہ سروس کے آپریشنز ڈائریکٹوریٹس میں وضع کئے جاتے اور وہیں سے جاری ہوتے ہیں۔کسی سروس کے ایم او (M.O.) ڈائریکٹوریٹ میں جتنے آفیسرز بھی تعینات کئے جاتے ہیں وہ پیشہ ورانہ اعتبار سے اس سروس کی کریم ہوتی ہے۔ یعنی سب سے زیادہ پڑھے لکھے اور عسکری علوم و فنون کے ماہر سٹاف آفیسرز ہی ملٹری آپریشنز ڈائریکٹوریٹوں میں پوسٹ ہوتے ہیں۔ وجہ یہ ہوتی ہے کہ متعلقہ سروس کسی بھی اندرونی یا بیرونی دشمن کے خلاف جو آپریشن بروئے کار لاتی ہے اس کی پلاننگ کا سارا تانا بانا انہی ڈائریکٹوریٹوں میں بُنا اور تیار کیا جاتا ہے۔ ان میں جوشعبہ اندرونی آپریشنوں کے نام رکھتا ہے اس کو ہدایات ہوتی ہیں کہ آپریشن کا نام اسلامی اور ’’عربی الاصل‘‘ ہونا چاہیے۔ آپ نے دیکھا ہوگا ماضیء قریب میں راہِ نجات، راہِ حق، صراطِ مستقیم اور ضربِ عضب آپریشن اسی قاعدے کلیئے کے تحت کوائن (Coin) کئے گئے اور موجودہ نام ’’ردّالفساد‘‘ بھی اسی اصول اور نظریئے کو سامنے رکھتے ہوئے وضع کیا گیا ہے۔ ہمیں اس نام کو وضع کرنے والے افسر (یا افسروں) کو داد دینی چاہیے کہ انہوں نے مفتی یا مولانا نہ ہوتے ہوئے بھی یہ فصیح و بلیغ نام تجویز کئے اور افسرانِ بالا سے منظوری لینے کے بعد باقاعدہ ان کی رونمائی کی گئی۔چنانچہ ملک بھر کے ان مفتیانِ کرام کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا فتویٰ جاری ہونے سے پہلے آپریشنز ڈائریکٹوریٹ، جی ایچ کیو، راولپنڈی کا ’’مفتی ء اعظم‘‘ آپریشن ردالفساد جاری کر چکا تھا۔
عوام الناس کی دوسری غلط فہمی، اس آپریشن کی وجہ تسمیہ کے علاوہ اس کی تفصیلات سے ہے جن میں (1) اوقاتِ آغاز (2) مقصد و مقصودات (3) قوتِ نافذہ کی ترکیب (4) دائرۂ اختیارات اور (5) حدودِ ہدف شامل ہیں۔۔۔ ذرا ٹھہریئے اردو زبان سے ناشناسائی کے باعث، میں متذکرہ بالا اردو اصطلاحات کی انگریزی سے بھی بعض فوجی اور سویلین قارئین کو روشناس کروا دوں تو تفہیمِ مطالب میں آسانی رہے گی:
1ب۔Timing
2۔Aim and objectives
3۔Composition of force
4۔Limits of Authority
5۔ Scope and nature of Target
ایک اور قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ آئی ایس پی آر کے اربابِ اختیار کی طرف سے جو ٹویٹ جاری ہوتی ہیں وہ ’’ضرورت سے زیادہ‘‘ مختصر ہوتی ہیں۔عوام اب اس اجمال کی تفصیل مانگتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ فوج ٹویٹ کی عبارتوں کو مزید وسعت دینے پر غور فرمائے گی۔ مثلاً صرف یہ کہنا کہ ردّالفساد جاری کر دیا گیا ہے اور پھر اس کے بعد ذرا سا زیادہ مفصل نوٹیفکیشن جاری کر دینا، ہم جیسے خبروں کی جستجو میں مارے مارے پھرنے والوں کی تشفّی نہیں کرتا۔ لہٰذا درخواست ہے کہ متعلقہ ادارے اپنے ’’فتاویٰ‘‘ کی زبان کو زیادہ شرح و بسط سے بیان فرمانے کی طرف توجہ فرما دیں۔ آج نہیں تو کل اگر سپریم کورٹ نے افسروں کی سطح پر افواجِ پاکستان کی زبان بھی ’’اردو‘‘ کر دی تو کیا ہوگا؟۔۔۔ ہمارا مشورہ ہے کہ آنے والے طوفان کا پہلے سے کچھ مداوا سوچ لیں۔ اگر ’’ردّالفساد‘‘ جیسی عربی الاصل اصطلاحیں ایم او ڈائریکٹوریٹ میں بیٹھ کر وضع کی جا سکتی ہیں تو اس کی تفصیلات کے دائرے کو بھی اردو زبان میں کچھ مزید وسعت دی جا سکتی ہے!
پرنٹ میڈیا میں بالعموم اور الیکٹرانک میڈیا میں بالخصوص یہ غلط فہمی بھی عام ہے کہ یہ آپریشن (ردّالفساد) اکیلے آرمی چیف کی طرف سے جاری کیا گیا ہے۔ بعض چینل تو اس کی ٹائمنگ کو بنیاد بنا کر یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ وزیراعظم کے بیرون ملک دورے کے دوران اس آپریشن کی لانچنگ کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان آرمی، سیاسی قیادت سے ماورا اور اس کو آگاہ کئے بغیر یہ آپریشن لانچ کر رہی ہے۔ زیادہ زور اس امر پر بھی دیا جا رہا ہے کہ اب یہ آپریشن سارے پنجاب میں ہی نہیں ملک بھر کے سارے اضلاع ،سارے علاقوں اور سارے کونوں کھدروں میں لانچ کیا جائے گا۔ اخبارات میں اس کی باقاعدہ جداول (Tables)، نقشہ جات (Maps) اور رنگین توضیحی خاکے (Sketches) شائع کئے گئے ہیں جن میں آپریشن کی حدود و ثغور کو رنگین اشارات (Symbols) کی مددسے دکھایا گیا ہے۔ یہ ایک اچھی کوشش ہے لیکن فی الحال الیکٹرانک میڈیا اور انگریزی زبان کے پرنٹ میڈیا ہی میں ان جداول ا ور نقشہ/ خاکہ جات کو بار مل رہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر اردو زبان کے پرنٹ میڈیا میں بھی اس کی تقلید کی جائے۔ اردو اخبارات میں بھی اگر اس روش کو اپنا لیا جائے اور خبر کی اہمیت کے مطابق نقشوں اور جداول کو صفحہ اول (یا آخر) میں شائع کرنے کا چلن عام ہو جائے تو عوامی آگہیکے باب میں یہ ایک اچھی پیشرفت ہو گی۔ امید ہے پرنٹ میڈیا کے اربابِ اختیار میری اس گزارش پر توجہ فرما دیں گے۔
میں عرض کر رہا تھا کہ ہمارے میڈیا کا ایک حصہ بظاہر یہ کوشش کرتا آ رہا ہے کہ اس بات کو ثابت کرے کہ افواج پاکستان اور سویلین قیادت ایک صفحہ پر نہیں ہیں۔ میڈیا کے ان بزر جمہروں کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ اپنی دوکان چمکانے، ریٹنگ بڑھانے یا حلقہء ناظرین و قارئین وسیع کرنے کی کوشش میں عوامی آگہی کو ایک غلط سمت میں جا نکلنے کا عادی نہ بنائیں۔ وابستہ مفادات عوام کو آجکل یہ سمجھا رہے ہیں کہ آپریشن ’’ردّ الفساد‘‘ اچانک آرمی چیف کی طرف سے اس وقت لانچ کیا گیا ہے جب سویلین چیف ایگزیکٹو ، ترکی کے دورے پر ملک سے باہر ہیں۔۔۔ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔
آپ کو یاد ہوگا کوئی تین برس پہلے آپریشن ضرب عضب کی لانچنگ پر بھی اسی قسم کے خیالات و فرمودات کا اظہار کیا گیا تھا اور سادہ لوح عوام کو خواہ مخواہ فوجی اور سول قیادت کی اختلافی فضاؤں میں اڑان کو ایک غلط اور گمراہ کن سمت پر ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی۔ پھر جب سابق آرمی چیف نے سروس میں توسیع نہ لینے کا فیصلہ کیا تھااور حکومت نے عین وقت پر نئے آرمی چیف کے نام کو ’’بے نقاب‘‘ کیا تھا تو اس کی بھی کئی من گھڑت تاویلیں کی گئیں۔ ان برخود غلط میڈیا آئی کونوں کو کون سمجھائے کہ وہ اپنی تجوریاں بھرنے کے شوقِ فضول میں قوم کے دماغوں کی تجوریاں خالی کررہے ہیں۔�آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف وقت پر ہی ریٹائر ہوئے، حسبِ قاعدہ ان کو پنشن اور دیگر مراعات بھی دی گئیں اور حسبِ قاعدہ نئے آرمی چیف کو سلیکٹ بھی کیا گیا۔ یہ سب کچھ جمہوری عمل کا حصہ نہیں تھا تو اور کیا تھا؟ عوام کے ایک بڑے طبقے کو یہ کہہ کر بھی گمراہ کیا جاتا ہے کہ ماضی میں فوج کی بار بار مداخلت نے سویلین حکومت کے تسلسل میں دخل اندازی کی اور جمہوریت کی چلتی گاڑی کو بریک لگا دی۔ لیکن دیکھا جائے تو جتنی بریکیں آج میڈیا کے چند کرتا دھرتا لگا رہے ہیں، ان کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ وزیر اعظم اور سروس چیف تادیر الگ الگ دو صفحوں پر نہیں رہسکتے۔ ایک کو دوسرے پر فوقیت دینا اور الگ ظاہر کرنا انتہا درجے کی حماقت ہے جس کا ثبوت ماضی قریب میں بار ہا عوام کو مل چکا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ رینجرز کو پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں میں لانچ کرنے کا فیصلہ وزیر اعظم اور آرمی چیف نے مل کر کیا ہے اور یہ فیصلہ وزیر اعظم کے ترکی روانہ ہونے سے قبل کیا گیا ہے۔ اگر وزیر اعظم کے ذہن کے کسی گوشے میں یہ خیال آتا کہ آرمی چیف ان کی غیر موجودگی میں ان کی منشا اور مرضی کے خلاف کوئی اقدام کریں گے تو وہ کبھی بھی ’’بال بچوں سمیت‘‘ ترکی نہ جاتے۔
ایک اور حقیقت جس کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ وزیر اعظم نے اپنے وزیروں اور مشیروں کو جو یہ کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ خواہ مخواہ بے سروپا حکایات اور افواہوں پر میڈیا میں آکر تبصرے کیا کریں،حزبِ اختلاف کے موقف کو غلط قرار دیں اور اپنے ’’سرکاری موقف‘‘ کو درست اور جائز قرار دینے کے لئے طرح طرح کی دلیلوں اور بحثوں میں الجھیں تو یہ ایک بالکل غلط روش ہے۔ ان کو چاہئے کہ وہ اپنے رفقاء کو ایسا کرنے سے منع کر دیں۔ اس سے عوامی آگہی کے آبگینے چور چور ہونے کی راہیں صاف ہورہی ہیں۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ وزیر اعظم بھی آرمی کی طرح اپنا ایک ترجمان مقرر کر دیں اور صرف اسی کی زبانی مختصر یا تفصیلی بیانات اور ٹوئیٹس جاری کرنے کا اذن دے دیں؟۔۔۔ یہ جو حکومت نے جناب دانیال عزیز، جناب سعد رفیق، جناب رانا ثنا اللہ، محترمہ مریم اورنگ زیب، محترمہ انوشہ رحمان اور اس طرح کی دوسری ’’اہم شخصیات‘‘ (VIPs) کو اذنِ گفتار دے رکھا ہے، یہ غلط ہے اور ان کے شایانِ شان نہیں۔ ان خواتین حضرات کی زبانیں بعض اوقات (شائد جذبات میں آکر ) ضرورت سے زیادہ گرم ہو جاتی ہیں اور پھر یہیں سے عوامی آگہی کے فانوس پگھلنے شروع ہوتے ہیں! ۔۔۔۔۔۔ وزیر اعظم کو اس طرف دھیان دینے کی اشد ضرورت ہے۔ میڈیا کا زیادہ خیال نہ کریں۔ یہ چند روز دہائیاں مچا کر خاموش ہو جائے گا۔ آپ آزما کر تو دیکھیں!