میری یاد نگاری۔۔۔ کچھ اِدھر اُدھر کی
ایک زمانہ تھا جب اسی شہرِ زندہ دِلاں لاہور سے مقبول و مشہور ادبی ماہنامہ ’’فنون‘‘ بھی نکلا کرتا تھا۔ یہ دراصل حکیم حبیب اشعر دہلوی کے ماہنامہ ’’حاذق‘‘ کے نام کا بدلا ہُوا ڈیکلریشن تھا کہ احمد ندیم قاسمی کو اپنے نام سے ڈیکلریشن حاصل کرنا محال تھا ۔ وہ گورنمنٹ کی ’’گڈ بُکس‘‘ میں نہ تھے۔ لہٰذا شروع شروع میں ’’فنون‘‘ پر حکیم حبیب اشعر دہلوی اور احمد ندیم قاسمی دونوں کا نام اہتمام سے چھپتا رہا۔ حکیم حبیب اشعر دہلوی کے انتقال کے بعد احمد ندیم قاسمی ہی اِسے تن تنہا تاحیات چھاپتے رہے۔اگرچہ منصورہ احمد بھی برسوں شریکِ سفر رہیں۔تاہم مُدیر کی کلی طور پر چھاپ احمد ندیم قاسمی ہی کی تھی۔ اُس زمانے میں اِس عہد ساز جریدے کی اشاعت اور ترسیل میں ناگزیر وجوہ کی بناء پر تاخیر بھی ہو جاتی تھی۔ غالباً خلیل رامپوری نے اِسی پس منظر میں یہ پھبتی بھی کسی تھی:
ہے یہ بھی خوبیوں میں سے خوبی’’فنون‘‘ میں
چھپتا ہے جنوری میں نکلتا ہے جون میں
اس پھبتی سے اَوروں کے ساتھ ہم بھی محظوظ ہوئے تھے، مگر عہدِ رواں میں جب خود پر ایسی ہی بپتا آن پڑی تو پتا چلا کتنے بیسی کے سو ہوتے ہیں؟ جنوری کا ’’ادبِ لطیف ‘‘ بروقت چھپ گیا تھا۔ مگر ڈاک کے سُپرد کرتے کرتے اِتنی تاخیر ہوئی کہ فروری کا مہینہ آ گیا۔چنانچہ فروری کو نظر انداز کرتے ہوئے فروری، مارچ کو اکٹھا کر کے شمارہ تیار کیا گیا جو اصل ضخامت سے دوگنا تھا۔مگر ناگفتہ بہ وجوہ کی بنا پر اپنی اوقات میں رہنا پڑا۔۔۔ بہرحال! مزید تاخیر سے بچنے کے لئے مسلسل اشاعت کی ’’بیالیسیویں سالگرہ‘‘ کے موقع پر یہ خصوصی شمارہ بھی انھی محدود صفحات میں پیش کیا جا رہا ہے کہ محض ضخامت بڑھانے سے تو رسالہ باوقار نہیں ہو جاتا۔ہر چیز کی کمر توڑ مہنگائی کے باوصف اِس اشاعتِ خاص کی کھکھیڑ کو بھی لشٹم لشٹم سہنا ہی پڑا:
’’نظم ہے اپنی جگہ خوب مگر ہائے غزل‘‘
جیسے مشہورِ زمانہ ضرب المثل مصرعے کے خالق جناب فضل احمد کریم فضلی خوش گو شاعر ہونے کے ساتھ ناول نگار بھی تھے۔ اُن کا ایک ناول ’’خونِ جگر ہونے تک‘‘ تو کلاسیک کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ اس ناول کی اشاعت دوم کراچی کے ادارہ دبستان کے تحت 1961ء میں ہوئی۔ کتاب کے شروع میں ایک عجیب و غریب اشتہار چسپاں کیا گیا تھا۔۔۔۔عبارت کچھ یوں تھی:ضرورت ہے بلند پایہ اہلِ قلم کی ’’خونِ جگر ہونے تک‘‘ میں چند خاص باتیں ایسی ہیں، جو اسے دوسرے ناولوں سے ممیّز و ممتاز کرتی ہیں، جو حضرات ان خصوصیات کا تفصیلی جائزہ پیش کریں گے اور جن کا مضمون ادارے کی نظر میں سب سے اچھا قرار پائے گا،اُسے ادارہ اپنے قواعدِ ملازمت کے تحت درجہ اوّل کی ملازمت پیش کرے گا ،جس کی تنخواہ 300 روپے ماہوار سے شروع ہوتی ہے‘‘۔
مَیں اس خاص الخاص تحریر کو ’’قندِ مکرّر‘‘ کے طور پر پیش کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتا تھا کہ جو حضرات و خواتین ’’ادبِ لطیف ‘‘ کے اس شمارے کو پورے کا پورا بہ نظرِ غائر پڑھ کر اپنی گراں قدر رائے سے نوازیں گے اور اغلاط کی نشاندہی کریں گے،ان کی خدمت میں ’’ادبِ لطیف ‘‘ کا آئندہ شمارہ اعزازی بھجوایا جائے گا۔۔۔ مَیں حضرت حیدر دہلوی کے اِس شعر کے مصداق کڑوی کسیلی، نرم گرم خوشگوار، ناخوشگوار ہر تحریر کا خوش دلی سے خیر مقدم کروں گا کہ:
تنقیص سے خفا نہ ستائش پسند ہوں
یہ دونوں پستیاں ہیں مَیں اِن سے بُلند ہوں
اُردو کے عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا ذکرِ خیر کرتے ہوئے مَیں نے ایک جمل�ۂ معترضہ کبھی لکھا تھا کہ ’’مَیں نے اور نصیر انور نے مل کر جناب حامد جلال اور محترمہ صفیہ منٹو کے دستخطوں پر مشتمل سنگِ میل پبلی کیشنز کے نیاز احمد سے معاہدے کے تحت منٹو کو بھاٹی، لوہاری کے ناشروں کی چیرہ دستیوں سے نجات دلائی تھی اور منٹو کی تمام کتابیں سنگِ میل پبلی کیشنز کو چھاپنے کا حق دلایا تھا‘‘۔
میرے پہلے دورِ ادارت ادبِ لطیف کے مسلسل پندرہ برس 1966]ء تا1980ء[ بھاٹی، لوہاری ہی کے ناشرین کے درمیان گزرے۔اِس لئے بھاٹی، لوہاری کی تکذیب مقصود نہ تھی۔بھاٹی کو تو ادبِ لطیف نام کے بانی حکیم احمد شجاع نے ’’لاہور کا ادبی چیلیسی‘‘ قرار دیا تھا۔ اس لئے اس علاقے کے سب ہی ناشرین کو ایک لاٹھی سے نہیں ہانکا جا سکتا۔ مجھے دفتر ’’ادبِ لطیف ‘‘ میں سعادت حسن منٹو کے ہاتھ کی لکھی ہوئی 30عدد رسیدوں کی ایک فائل ہاتھ لگی تھی، جس سے معلوم ہوا تھا کہ منٹو نے ’’نیا ادارہ‘‘ اور ’’سویرا‘‘ کے مالک چودھری نذیر احمد کے ہاتھ روزانہ ایک افسانہ 30/-روپے کے خطیر اعزازیے کے عوض لکھا۔’’خطیر‘‘ اِس لئے کہ اُس دور کے30/- روپے آج کے دَور کے ہزاروں روپے بنتے ہیں، اُس وقت پانچ روپے من آٹا تھا۔ آج 50/-روپے کا ایک کلو آٹا ہے۔!
منٹو کے فن کا استحصال کرنے والوں میں کم از کم ’’نیا ادارہ‘‘ اور ’’سویرا‘‘ کے چودھری نذیر احمد جیسے پبلشر تو ہرگز نہیں تھے۔ مَیں آج بیانِ حلفی کے طور پر یہ سطور لکھ رہا ہوں۔افسوس، مَیں نے چودھری افتخار علی]منیجنگ ایڈیٹر ادبِ لطیف[ کے ایماء پر یہ رسیدیں اُن کے سامنے تلف کر ڈالی تھیں۔ چودھری صاحب ماشاء اللہ حیات ہیں اور اُن کا حافظہ بھی ہنوز ٹھیک ہے۔ وہ تصدیق یا تردید کر سکتے ہیں کہ قص�ۂ زمین برسرِ زمین رہے، ورنہ سچّی باتوں کو جُھٹلانے والے خیر سے وافر ہیں۔ خصوصاً اب جبکہ 36برس بعد ’’ ادبِ لطیف‘‘ کی ادارت پھر سنبھالی ہے تو بقولِ شاعر آفتاب خان مخمصے میں ہوں:
کھڑے ہیں راہ میں کتنے ہی خیر خواہ مرے
مجھے ادب کی سیاست نہ مار ڈالے کہیں
’’ ادبِ لطیف ‘‘ کے پہلے مُدیر طالب انصاری اور اپنے پیش رو جناب انتظار حسین کا ذکرِ خیر کر رہا ہوں کہ ٹرینڈ سیٹر جناب طالب انصاری ]بدایونی[ شاعر، ادیب، صحافی،فلمی گیت نگار، ماہر تعلیم، استاد ’’ادبِ لطیف‘‘ کے بانی ایڈیٹر تھے، جو ابتدائی چاہ ماہ مارچ، اپریل، مئی، جون1935ء تک مُدیر رہے وہ1900ء میں بدایوں میں پیدا ہوئے۔۔۔ 5 نومبر 1976ء کو 76برس کی عمر میں لاہور میں وفات پائی۔ لاہور میں ہی مدفون ہیں۔ اوّلین مجموع�ۂ کلام ’’سرودِ حیات‘‘ تاج کمپنی لاہور سے دسمبر 1947ء میں چھپا۔ مجھے ملاقاتوں کا شرف حاصل رہا۔ بات کرتے کرتے بھول جاتے تھے۔ یہ 1975ء کی بات ہے۔ مَیں نے ’’ ادبِ لطیف ‘‘ کا چالیس سالہ نمبر شائع کیا تھا اور محترمہ صباحت صبا میری ’صاحبہ‘ ایم اے ]جرنلزم[ کے لئے ’’ ادبِ لطیف ‘‘ کی چالیس سالہ خدمات پر تھیسس لکھ رہی تھیں۔ مَیں ڈھونڈ ڈھانڈ کے طالب انصاری صاحب کو ملا۔ اُن کا انٹرویو کیا۔ بہت سی باتیں ہوئیں۔اُن کا بھرپور تعارف تھیسس میں شامل کرایا۔ وہ تھیسس مل جائے تو الگ سے بھرپور مقالہ طالب انصاری پر ضرور لکھوں گا۔
عہدِ موجود کے عظیم افسانہ نگار، ناول نویس اور کالم نگار جناب انتظار حسین ولادت 7دسمبر 1923ء]ڈبائی ضلع بُلند شہر، انڈیا[، وفات 2فروری2016ء، تدفین 3فروری 2016ء ۔ فردوسیہ، لاہور’’ ادبِ لطیف ‘‘ کے کئی برس ایڈیٹر رہے۔ میرے پہلے طویل دورِ ادارت کے پیش رو تھے۔ ان پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے اور لکھا جاتا رہے گا۔ فی الحقیقت وہ لیجنڈریافسانہ نگار، ناول نویس اور کالم نگار تھے۔