کھلے گا پسِ مرگ احسان کیا تھا؟
حضرتِ احسان دانش نے اگرچہ جبراً ترکِ وطن نہیں کیا تھا اور نہ ہی دوسرے لاکھوں افراد کی طرح قیام پاکستان کے وقت ہجرت کی تھی، بلکہ وہ اپنی خوشی سے، اپنی مرضی سے حصول رزق حلال کی تگ و دو کے لئے شہروں کے شہر لاہور میں آ بسے تھے، مگر وہ بھی ہمیشہ اپنی ’’جنم بھومی‘‘ کاندھلہ ضلع مظفر نگر ]یوپی انڈیا[ کے ’’ناسٹلجیا‘‘ میں اُسی طرح مبتلا رہے ہیں، جس طرح انتظار حسین یا اور بہت سے ہجرت زدہ اہل ِ قلم، اہلِ فن مبتلا رہے۔احسان دانش کہا کرتے تھے کہ اُن کے چھوٹے سے قصبے نے علم و ادب کے بڑے بڑے پہاڑ اُسارے ہیں، کاندھلہ سے ملحقہ قصبے ’’تھانہ بھون‘‘ سے ’’بہشتی زیور‘‘ والے نابغہِ روزگار مولانا اشرف علی تھانوی مُدتوں برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو روشنئ خیال و فکر بانٹتے رہے تو مولانا احتشام الحق تھانوی اور شوکت تھانوی جیسے اہلِ قلم، علم و ادب کی دُنیا پر رُوحِ عصر بن کر چھائے رہے۔ تھانہ بھون کی طرح متعدد ’’کاندھلوی‘‘ لاحقے والے علماء اور ادباء اور بغیر لاحقے والے شعراء نے کاندھلہ کا نام روشن کئے رکھا۔
علم و ادب اور فہم و دانش کے زرخیز قصبے سے ہجرت کر کے انہوں نے خوشی خوشی کالجوں، یونیورسٹیوں اور باغوں، بہاروں والے شہر ’’لاہور‘‘ کو اپنا مستقر، بلکہ مستقل مسکن بنایا تو پھر اُن پہ جہانِ دیگر اور جہانِ دانش کے وہ در کھلے کہ باید و شاید۔۔۔! حالانکہ ترکِ وطن کرتے وقت اُنھیں گردشِ ایام کا کھٹکا لگا ہُوا تھا کہ:
کر رہا ہوں دوستوں کے غم پہ ترکِ وطن
شاید اب آغازِ دورِ گردشِ ایام ہے
انہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں اور فطری استعداد سے مزدوری کے پالنے میں علم و ادب کے پھاگ کھیلے۔ انہوں نے پانی کے رہٹ پر کھوپے بندھے بیل کی جگہ بغیر کھوپے باندھے، کھلی آنکھوں، اپنے کندھوں پر ؤوا رکھ کر پانی کھینچنے کے لئے مہینوں چکر کاٹے۔ اینٹ گارے کی عام مزدوری بھی کی، پنجاب یونیورسٹی لاہور کی عمارت کی تعمیر میں عملی حصہ لیا، دیواروں میں اینٹیں چُنیں، مگر بقول ڈاکٹر خیال امروھوی، عالم یہ رہا کہ:
دیوار کی ہر اینٹ پہ لکھا ہے مرا نام
تعمیر کسی اور سے منسوب ہوئی ہے
کسی سکول، کسی کالج، کسی یونیورسٹی سے کوئی علمی سندِ تحقیق نہ لینے والے احسان دانش تعلیم و تعلم کے میدان میں مستند محقق ٹھہرے۔ تصنیف و تالیف کی طرف آئے تو اپنا اشاعتی ادارہ قائم کر کے اپنی تمام تصانیف خود چھاپیں اوروں کی بھی چھاپیں کہ تنہا روی کو نظر نہ لگے۔ تمام عمر ناشروں اور کتب فروشوں کے خلاف عملی جہاد کیا اور اپنی مطبوعات کی نکاسی کے لئے ’’سولو فلائٹ‘‘ کا سہارا لیا اور ناشروں کی اس طمع کی چیرہ دستیوں سے زیادہ تر بچے رہے کہ ’’جناب آپ نے لاکھوں لگا کر اپنی کتاب خود چھاپنے کا جُرم کیا ہے تو پچاس ساٹھ فیصد کمیشن پر سیل اینڈ ریٹرن کی بنیاد پر کتابیں برائے فروخت رکھ دیں بِک جائیں گی تو کمیشن کاٹ کے آپ کو رقم ادا کر دی جائے گی‘‘۔ اور بعض بیوقوفوں کی یہ رکھوائی ہوئی کتب مصنف کے مرنے تک بھی ختم نہیں ہوئیں۔ وہ یوں کہ چالاک، عیار، مکار بُک سیلر ساری کتابیں فروخت کر کے ایک کتاب سامنے ریک میں نہ بیچنے کے لئے لگائے رکھتا کہ جب مصنف یوچھنے آئے تو جواب دے سکے کہ ’’کتاب سامنے لگی ہوئی ہے بِکتی ہی نہیں‘‘۔۔۔ کہا جاتا یہ تو ایک ہے باقی9یا19 یا49 یا99 کیا ہوئیں؟تو جواب ملتا۔’’گودام میں پڑی ہیں‘‘۔ مصنف کہتا کہ ’’اچھا وہ واپس ہی کر دو تاکہ مفت بانٹ دوں یا آگ لگا دوں‘‘۔ تو گھڑا گھڑا جواز ہوتا کہ ’’گودام میں دبی ہوئی اس وقت نکالنی مشکل ہیں، اگلے پھیرے پر لے لیجئے گا۔ نکلوا کے رکھ لوں گا‘‘۔۔۔ اور پھر مصنف پھیرے پہ پھیرے لگا کے ہلکان ہو جاتا، کرایہ آمدو رفت کی مد میں کتابوں کی قیمت سے کئی گنا خرچ کر کے بالآخر گھر بیٹھ کر خود کو کوستا اور دیکھتا کہ کتاب نہ بکنے کی شکایت کرنے والا تاجر پلازوں کا مالک بنتا جا رہا ہے، مگر کبھی نہ بکنے والے آئٹم یعنی کتاب فروشی یا کتاب چھاپنے کے کاروبار کو ترک نہیں کرتا۔ ایک آدھ نے کِیا بھی تو محض دکھاوے کو ’’ترکِ افیون گولیاں‘‘ بیچنے لگا، مگر دراصل کتابیں بیچ بیچ کر ہی لکھ پتی بنا۔ یونیورسٹی کا خود ساختہ وائس چانسلر تک بن گیا اور ایک تو بہت بڑا پراپرٹی ڈیلر بن کے عظمت حاصل کر گیا۔
بہ سب باتیں بخدا سولہ آنے پاؤ رتی سچ ہیں۔ ماہنامہ ’’ادب لطیف‘‘ کی پندرہ سالہ ادارت کے دوران اُردو بازار اور ناشرین سے دانت کاٹی روٹی کا تعلق رہا اور بے شمار اشاعتی اداروں میں دوست گاہکوں کی آمدو رفت دیکھ کر اور یا کاروبار کے طور پر سکولوں، کالجوں کے لئے بوریاں بھر بھر کے کتابیں لے جانے والے لائبریرین حضرات کے ساتھ فلمیں دیکھ دیکھ کر جو کچھ مشاہدہ کِیا، اُسے ہی بیان کیا ہے!اِن حالات میں احسان دانش کا بطور مصنف استقامت کے ساتھ ڈٹے رہنا اور اپنی کتابیں بُک سیلروں کے پاس ان کی شراط پر برائے فروخت نہ رکھوانا، اُردو ادب کا ایک ایسا واقعہ ہے جو ناقابلِ فراموش رہے گا۔
احسان دانش کے مطبوعہ شعری مجموعوں میں: نیرنگِ تغزل، حدیث ادب۔ وردِ زندگی۔ آتش خاموش، چراغاں۔ زخم و مرہم۔میراثِ مومن۔ جادۂ نُور۔ نفیر فطرت، نوائے کارگر۔ شیرازہ۔ مقامات۔ گورستان اور فصلِ سلاسل اور نعتیہ مجموعے۔۔۔ ’’دارین‘‘۔’’ ابرِ نیساں‘‘ شامل ہیں۔ نثر میں ایک تو عالمی شہرت یافتہ معرکہ آرا خود نوشت ’’جہانِ دانش‘‘ ہے جسے پاکستان رائٹرز گلڈ کے توسط سے سب سے بڑا انعام ’’آدم جی ادبی انعام‘‘ ملا اور اس کے مقابلے میں ایک اور بہت اچھی کتاب جناب مختار مسعود کی تصنیف ’’آواز دوست‘‘ اس سے محروم ہو گئی۔ احسان دانش کی دیگر کتب میں ’’اُردو مترادفات‘‘۔۔۔ رموزِ غالب و شرحِ غالب‘‘ اور بعد از مرگ شائع ہونے والی کتاب’’ جہانِ دیگر‘‘ یاد گار ہیں۔ احسان دانش کے ادبی کارناموں کی پذیرائی کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے ’’ستارۂ امتیاز اور نشانِ امتیاز‘‘ سے نوازا۔
’’شاعر ِ مزدور‘‘ کے عوامی لقب سے ملقب رہنے والے احسان دانش نے اپنے عروج کے دور میں اگرچہ انقلابی اور احتجاجی نظمیں خوب لکھیں، مگر ان کی نظموں، غزلوں سے رومان کا عنصر کِسی دور میں کبھی یکسر خارج نہ ہو سکا، اُن کی نثری کتاب’’جہانِ دانش‘‘ میں متعدد حشر خیز واقعات ملتے ہیں۔ اسی طرح اُن کی یادگارِ زمانہ نظم ’’بیتے ہوئے کچھ دن‘‘ آج بھی سینوں میں ہلچل مچاتی اور جوان ذہنوں پر قیامت ڈھاتی ہے۔ اختصار کے پیش نظر محض دو تین بند اس نظم کے ملاحظہ ہوں:
وہ قلب و نظر کے ایماء پر مطلوب زمانے کی نظریں،
روحوں میں و فا کی زنجیریں اس طرح کہ دل کے دل بس میں
وہ جوش میں وعدوں پر وعدے جذبات میں قسموں پر قسمیں
بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں تنہائی جنہیں دوہراتی ہے
وہ تپتی منڈیریں گرم چھتیں کوٹھے کے وہ پھیرے پر پھیرے
وہ تیز قدم اُڑتا آنچل چہرے کو پریشانی گھیرے
مل جائے جو کوئی ہمجولی افسانے وہ تیرے اور میرے
بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں تنہائی جنہیں دوہراتی ہے
دن بھر وہ ذرا سی آہٹ پر چلمن کے قریب آنا جانا
زینے پر وہ چھپ کر خط لکھنا، خط لکھ کے لرزنا تھرانا
تنہائی ملے تو رو لینا، تنہائی نہ ہو تو گھبرانا
بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں تنہائی جنہیں دوہراتی ہے!
احسان دانش کے ابتدائی مجموعہ غزل’’نیرنگِ تغزل‘‘ میں غزل کے ایسے ایسے اشعار بھی وافر ملتے ہیں جو غزل اور غزل گوئی کی آبرو کہے جا سکتے ہیں:
وہ دل ہی کیا جو تسلی سے بے قرار نہ ہو
وہ آنکھ کیا ہے جو تصویر انتظار نہ ہو
وہ حسن کیا ہے کہ برسیں نہ بجلیاں جس سے
وہ عشق کیا ہے جو صورت سے آشکار نہ ہو
نگاہِ شوق میں تابِ جمال، ناممکن
تجھے وہ دیکھ سکے جو اُمیدوار نہ ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترے سِوا مجھے کچھ بھی نظر نہیں آتا
مرے سِوا تجھے یوں کون دیکھ سکتا ہے
یہ بات کہاں بزم شبستانِ حرم میں
احسان جو ناکردہ گناہوں میں مزا ہے
نہ پوچھو پچھلے پہر اپنی یاد کا عالم
تمہارا ذکر ستاروں سے بار بار کِیا
گزر چکی ہیں جو احسان اُن کی محفل میں
اُنھیں قرار کی گھڑیوں نے بے قرار کِیا
کہاں وہ اوجِ کمال اور کہاں یہ قعرِ زوال!
الٰہی کس کی نگاہوں سے گر گیا ہوں مَیں
تابِ نظارا ہو نہ ہو رُخ سے نقاب اُٹھا بھی دے
جلوۂ صد حیات ہے جُنبشِ برقِ ناز میں
بھول سی بھول ہے احسان وہ فرماتے ہیں
ہاں کہیں آپ کو دیکھا ہے، مگر یاد نہیں!
مری بے باک نظریں اُن کی جانب اُٹھ ہی جاتی ہیں
ابھی احسان میں واقف نہیں آدابِ محفل سے
اِس محبت کا بُرا ہو کہ بدل دی دُنیا
تم نے کچھ غور سے احسان کی حالت دیکھی
ابھی شباب ہے احسان ذکرِ محشر چھوڑ!
گناہگار ہوں مجھ کو گناہ کرنے دے
دل منور ہے مرا احسان سوزِ عشق سے
بد نُما وھبہ نہ سمجھے حُسن کی دُنیا مجھے
بدلی ابٹھی، نسیم چلی، آرزو بڑھی
اس مفلًسی میں ہائے یہ عالم بہار کا
احساں یہ اُن کے لفظ قیامت ہی ڈھا گئے
’’آئینہ دیکھ کر ہمیں دیکھا کرے کوئی‘‘
میرے دل کی حسرتوں نے شعر کا بدلا ہے بھیس
سینکڑوں رنگینیاں لفظوں میں پنہاں ہو گئیں