اتحاد امت کا بیانیہ (2)

اتحاد امت کا بیانیہ (2)
 اتحاد امت کا بیانیہ (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


فقہی اختلافات میں مضائقہ نہیں لیکن تناؤ کی کیفیت نہیں ہونی چاہئے


فقہی اختلاف تکفیر کا باعث نہیں

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فقہی اختلافات تکفیر کا باعث نہیں بنے اور کسی نے فقہی اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے کو کافر نہیں کہا ،مثلانماز اوردیگر عبادات کی ادائیگی کے طریقہ کار میں اختلافات و غیرہ۔ مسالک کے درمیان بعض اوقات قرآن و حدیث کی تاویل و تفسیر میں فرق ہوتا ہے۔ ایک مسلک نے قرآن و حدیث سے ایک طرح کا حکم لیا ہے اور وہ اس پر عمل کررہے ہیں،جبکہ دوسرے مسلک نے دوسری طرح کا حکم لیا ہے اور وہ اس پرعمل کررہے ہیں۔ اس میں جتنی ہم آہنگی ہو سکتی ہے وہ اچھی ہے اور جہاں نہیں ہو سکتی وہاں اپنے نقطہ نظر پر عمل کرنا ہی مناسب ہے۔ اختلاف میں کوئی حرج نہیں لیکن تناوَ، قتل وغارت اور تشدد کی کیفیت نہیں ہونی چاہیے۔
وہ اختلاف جس کی نوعیت علمی و تحقیقی ہے وہ برا نہیں بلکہ قابلِ تعریف ہے، یہ اختلاف بلاشبہ باقی رہنا چاہیے کہ زندگی کی علامت اور علم و استدلال کے لیے مہمیز ہے،لیکن ایسا اختلاف جس کی عمارت دوسرے سے نفرت، اسے باطل ، بدعتی اور کافر وگستاخ قرار دینے جیسی خطرناک بنیادوں پر کھڑی ہوئی ہے۔ یہ باعثِ رحمت اختلاف کو بھی زحمت اور عذاب میں بدل دیتا ہے۔
فقہی اورفروعی اختلافات فتنہ و فساد
کا با عث نہ بنیں
یحیٰ بن سعید انصاری رحمۃاللہ علیہ جو جلیل القدر تابعی ہیں، فرماتے ہیں:اہل علم وسعت اختیار کرنے والے ہوتے ہیں، اس لئے ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے۔چنانچہ ایک ہی چیز کو ایک عالم اور مفتی حلال قرار دیتا ہے اور دوسرا اسے حرام قرار دیتا ہے، اس لئے نہ تو پہلا دوسرے کو برا کہتا ہے اور نہ ہی دوسرا پہلے کو۔(سیر اعلام النبلاء ، ؍)تحقیق : شعیب الاَرنووَط، طبع دوم الرسالۃ
امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کا قول ہے یہ جوکچھ ہے ایک رائے ہے جس پرہم کسی کومجبور نہیں کرتے اور نہ ہی یہ کہتے ہیں کہ کسی (دوسرے مجتہد) پراسے قبول کرنا لازمی ہے، جس کے پاس اس سے بہترکوئی بات ہو اور وہ لے آئے۔(یعنی ہم اسے بخوشی قبول کرلیں گے)۔(الانتقاء فی فضائل الثلاثۃ الائمۃ الفقہاء مالک والشافعی و اَبی حنی فہ للحافظ ابن عبد البر (تھ ص دار الکتب العلمیہ بیروت؍ تعلیق عبد الفتاح اَبو غدہ ص: مکتبۃ المطبوعات الاسلامیہ بحلب۔ ھ
عقیدے اور رائے کی آزادی
تکفیر کا مسئلہ کلامی اور عقیدتی بحثوں سے جڑا ہوا ہے اورہر ایک مسلک کے لوگ اپنا ایک خاص عقیدہ یا نظریہ رکھتے ہیں۔عام طور پرعوام کے نزدیک مذہبی نظریات ناقابل تغیر ہوتے ہیں اوراسی لیے زیادہ معتبر ہوتے ہیں۔ اس لئے جب کوئی مسلک اپنے عقیدے کااظہار کرتا ہے، دوسرے مسلک کے وابستگان کو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ ان کا عقیدہ درست نہیں یا وہ غلط کہہ رہے ہیں ، یا یہ کہنا کہ ان کا عقیدہ یہ نہیں کچھ اور ہے۔ کسی بھی مسئلہ پر دوسروں کی رائے اور دلیل جانے بغیر یکطرفہ رائے سے مسلکی اختلاف کوتقویت ملتی ہے۔
صدراسلام میں آنحضرت کی رحلت کے بعد خلافت کے معاملے کا فیصلہ جس طرح سے ہوا، اس پر مختلف مسالک کے پاس کیا دلائل ہیں اور اُن دلائل میں کتنا وزن ہے،اس سے قطعِ نظر ہمیں اس حقیقت کونظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ یہ معاملات اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں اور تاریخ کے واقعات کو ہم اکیلے اکیلے کیا باہم اتفاق رائے سے بھی نہیں بدل سکتے۔ آج جو مسالک موجود ہیں اِن کا اُن واقعات کی تخلیق میں قطعاً کوئی حصہ نہیں۔ اب اگرکوئی شخص ان واقعات کا مطالعہ کرکے ان کے بارے میں ایک رائے قائم کر لیتا ہے اور دوسرا کسی دوسری رائے تک پہنچتا ہے تو دونوں کے لئے باہمی احترام اور ایک دوسرے کو آزادیِ رائے دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ اس کے لئے دونوں کو ایک دوسرے کی رائے جاننے اور رائے رکھنے میں آزاد قرار دینا ہوگا ۔
فرقہ واریت کا وجود بھی مسلّم ہے اور ہر فرقے کا اپنے آپ کو ہی برحق سمجھنا بھی ایک حقیقت ہے۔ لیکن دیگر مسالک کے بارے میں ایسا طرزِعمل اختیار نہیں کیا جا سکتا جو کسی بھی قسم کی کشیدگی کا سبب بنے۔ہر ایک فرقے اور مسلک کو اپنے عقائد بیان کرنے کی اجازت ہے لیکن دیگر مسالک کے خلاف شدت پسندی کے جذبات کو فروغ دینا، کیچڑ اچھالنا، گالی گلوچ اور نفرت انگیزی مناسب نہیں۔
دین اسلام میں کوئی جبر نہیں
اسلام میں مذہبی منافرت اور انتہا پسندی کی کوئی گنجائش نہیں اور قرآن مجید کی متعدد آیات ایسی روش کی مذمت کرتی ہیں۔
دین اسلام کے اندر کسی قسم کا جبر، تنگی اور سختی نہیں ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہے دین میں کوئی زبردستی نہیں بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے(البقرۃ،)۔ ہر انسان کو زندگی کا راستہ و طریق منتخب کرنے میں کلی طور پر آزاد چھوڑ دیا گیا ہے، کسی کو حق حاصل نہیں کہ وہ جبر و زیادتی سے اپنا راستہ اور طریق زندگی دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش کرے۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے اگر تیرا پروردگار چاہتا کہ لوگوں کو مومن بنا دے تو زمیں کے سب لوگ ایمان لے آتے، تو کیا آپ لوگوں پر زبردستی کریں گے کہ وہ ایمان لے آئیں۔(سورۃ یونس) قرآن حکیم میں ایک مقام پر رسول کریمﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا گیااور فرما دیجئے کہ یہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے۔ پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کر دے۔
اسلام دین میں شدت اختیار کرنے سے منع کرتا ہے؛ فرمایا، کہہ دو اے کتاب والو، اپنے دین میں ناحق شدت اختیار نہ کرو۔ اور ایسے پہلے لوگوں کی خواہش پر نہ چلو جو خود بھی گمراہ ہوئے اور بہت سے دوسروں کو گمراہ کیا اور سیدھی راہ سے بھٹک گئے۔(المائدۃ:(
اما م مالک رحمۃاللہ علیہ سے خلیفہَ وقت نے درخواست کی کہ ان کے موَطا کو خلافت کی عمل داری والے تمام علاقوں میں نافذ کر کے تمام لوگوں کو اس پر عمل کا پابند بنا دیا جائے تو امام مالک نے اس تجویز کو پسند نہیں کیا اورخلیفہ کو ایسا کرنے سے منع کر دیا اور وجہ یہ بیان فرمائی کہ لوگوں تک دین کے بارے میں مختلف باتیں پہنچی ہیں اور انہوں نے مختلف احادیث سن رکھی ہیں، مختلف علاقوں کے لوگوں تک جس جس انداز سے دین پہنچا وہاں کے لوگوں نے اسے اختیارکر لیا، اب جس چیز کو وہ درست سمجھ کر اختیار کر چکے ہیں انہیں اس سے روکنا بہت سنگین ہو گا، اس لئے لوگ جس حال میں ہیں ان کو اسی پر رہنے دیا جائے۔ (الموَطا بروایۃ محمد بن الحسن، ؍، باب تاریخ تاَلیف الموَطا-طبع-دارالقلم، ، ت،تقی الدین ندوی)
مختلف مسالک کے مابین مذہبی اختلافات ایک ناقابل تردید اور ناقابل تبدیل حقیقت ہے۔ قرآن نے اعتقادی اختلافات کے باب میں حق وباطل کو آخری درجے میں واضح کرنے کے بعد بھی مخالف مذہبی گروہوں کے خیالات زبردستی تبدیل کرنے کا مطالبہ نہیں کیا، بلکہ یہ کہا ہے کہ یہ اختلاف ایسے ہی برقرار رہیں گے اور ان کا فیصلہ قیامت کے روز خدا کی بارگاہ میں ہی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم علیہ الصلاۃ و السلام سے بھی فرمایاتمہارا کام تو صرف پیغام پہنچانا ہے۔ حساب کتاب لینا ہمارا کام ہے۔(سورۃ الرعد، آیت نمبر۰)
قبولیت اور برداشت
اب اس بات کا امکان موجود نہیں کہ دومختلف مسالکاپنا اپنا قدیمی یا مروج مسلک ترک کر دیں اورعبادات کے بارے میں احکام سے قطع نظر کرتے ہوئے عقائد و احکام کے کسی نئے پروگرام اور نظام پر اتفاق کر لیں یا پھر کسی ایک مذہب کے ماننے والے اپنے عقائد و نظریات اور نظام عبادات کو ترک کر کے دوسرے مذہب کو پوری طرح اختیار کر لیں۔ ہاں ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک دوسرے کے بارے میں آگاہی کے ساتھ ایک دوسرے کو قبول یا برداشت کرنے کی بنیاد پراتحاد کرلیا جائے۔
شائستگی اور خیر خواہی
رواداری اور مسلکی ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے کہ دوسروں کو اہلِ بدعت،اور کافرو گستاخ کہنے کی بجائے ،اپنے نقطہ نظر کو مثبت انداز میں واضح کیا جائے،دوسرے کی اصلاح ہمدردی اورخیرخواہی کے جذبے کے تحت اورشائستگی سے کی جائے،اسے اپنا رقیب اورمخالف سمجھنے کی ذہنیت سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔
مقدسات کا احترام
مسلمانوں کے مابین محبت رسول، محبتِ آل رسول، احترام صحابہ کرامؓ اوراحترام ازواج پیغمبر کی بنیاد پر قربت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام مسالک کے علمائے کرام کودوسرے مسلک کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے احتیاط کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔
مسلمانوں کے مابین بہت سارے اختلافات محض غلط فہمی یا ایک دوسرے سے بدگمانی کی بنیاد پر پیدا ہوتے ہیں اور اس کی وجہ سے اختلافات میں شدت پیدا ہوتی ہے اور فریقین کے درمیان اختلافات کی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی جاتی ہے، لیکن جب ایسے دو افراد یا گروہ باہم ملتے ہیں جن کے درمیان مخاصمت اور عداوت ہو تو باہمی تبادلہَ خیال کے نتیجہ میں ایک دوسرے کے نقطہَ نظر سے واقفیت ہوتی ہے اور ایک دوسرے کی حسن نیت اور پاکیزہ مقصد کے بارے میں اطمینان حاصل ہوتا ہے تو آپس میں الفت و محبت اور وحدت ویگانگت کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔
مفتی محمد شفیع مرحوم کے صاحبزادے معروف عالم دین جناب مفتی محمد رفیع عثمانی نے اپنے ایک خطاب میں ، جو بعد میں ایک رسالے، اختلاف رحمت ہے، فرقہ بندی حرام ہے، کے عنوان سے طبع ہوا، مختلف فرقوں کے باہمی اختلافات کے حوالے سے کہا کہ مختلف مکاتبِ فکر کے اختلافات کو اس تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے کہ ایک کا موقف یقیناً غلط اور دوسرے کا یقیناً صحیح ہے، بلکہ اس حوالے سے دیکھنا چاہیے کہ جس پر ہمارا اطمینان ہے اس کے صحیح ہونے کا غالب امکان ہے اگرچہ یہ احتمال بھی موجود ہے کہ وہ غلط ہو۔اسی طرح دوسرے کا موقف ہمارے غالب گمان کے مطابق مبنی برِ خطا ہے، اگرچہ احتمال اس کا بھی ہے کہ وہ صحیح ہو۔
کسی بھی وقوع پذیر ہونے والے واقعہ پر بلاتحقیق ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنا اور اسے فرقہ وارانہ رنگ دینا نفرت اور فساد کو پھیلانے کے مترادف ہے ۔ (جاری ہے)
توہین اور گستاخ کے فتاویٰ سے اجتناب
گستاخ رسول ﷺکو سزا دینا اسلامی حکومت کا کام ہے کیونکہ کوئی گستاخ رسولﷺہے یا نہیں ہے اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار عوام کو نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اگر عوام کے ہاتھ میں دے دیا جائے تو وہ اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے شک کی بنیاد پر بھی لوگوں کو قتل کریں گے جس کی مثالیں موجود ہیں ۔قانون کو ہاتھ میں لینا جرم ہے اس لیے اس پر مقدمہ چلایا جائے۔
آپ دوسروں کے اعمال کے ذمہ دار نہیں
اللہ تعالیٰ نے یہ بات قرآن مجید میں بطور اصول واضح کر دی ہے کہ ہر شخص اپنے فعل کا خود ذمہ دار ہے۔ کسی شخص کے فعل کی ذمہ داری دوسرے پر نہیں ڈالی جا سکتی اور نہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے فعل کی ذمہ داری اپنے اوپر لے سکتا ہے۔ ہر فرد اپنے اعمال اور اقوال کا ذمہ دار ہے۔ ارشاد فرمایا ''یہ کہ کوئی جان کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی اور یہ کہ انسان کو (آخرت میں)وہی ملے گا جو اُس نے (دنیا میں)کمایا ہے۔(النجم:۔(
فرقہ وارانہ اختلاف کی مذمت اور باہمی محبت کی تلقین
اسلا م میں مسلکی منافرت اورمذہبی انتہا پسندی کی ہرگز گنجائش نہیں۔
سورۃ الحجر کی آیت 91،92میں اللہ کا فرمان ہے۔اور جنھوں نے قرآن کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا آپ ﷺکے پروردگار کی قسم ، ہم ان سب کاضرور مواخذہ کریں گے۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے، جن لوگوں نے اپنے مذہب کو بانٹ دیا اور فرقہ ،فرقہ ہو گئے آپﷺ کا اُ ن سے کوئی تعلق نہیں۔اُن کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور وہ انھیں جتا دے گا جووہ کرتے رہتے ہیں۔(سورۃ انعام کی آیت (159)
قرآن کی بہت سی آیتوں میں مسلمانوں کو اتحاد کا درس دیا گیا ہے اور مسلکی اختلاف کو مسلمانوں کی قوت میں کمزوری کا باعث بتایا گیا ہے۔
ارشاد ربانی ہے، 'اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو(آل عمران :)
قرآن پاک میں ارشاد ہے اور آپس میں جھگڑا مت کرو ورنہ )متفرق اور کمزور ہو کر(بزدل ہو جاوَ گے اور تمہاری ہوا )یعنی قوت (اکھڑ جائے گی ۔ )الانفال، :)
سرور کائناتﷺنے فرمایامسلمانوں کی باہمی محبت اور مودت کی مثال ایسی ہے ،جیسے ایک ہی جسم ہو، جس میں ایک عضو کو تکلیف پہنچے، تو ساراجسم بے خواب و بے آرام ہو جاتا ہے۔ (صحیح مسلم۔رقم ، باب تراحم الموَمنین و تعاطفھم۔ ؍البخاری رقم، باب رحمۃ الناس و البھائم)
یونس بن عبدالا علیٰ ، امام شافعی کے خاص تلامذہ میں سے تھے، کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی سے زیادہ عقل مند انسان کوئی نہیں دیکھا،میرا ان کے ساتھ ایک مرتبہ کسی مسئلہ پر مناظرہ ہو گیا، کچھ عرصہ کے بعد جب میری ان سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو میرا ہاتھ پکڑ کر فرمانے لگے کہ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ہم اس کے باوجود بھائی بھائی رہیں چاہے کہ ہمارا کسی ایک مسئلے میں بھی اتفاق نہ ہو۔ یعنی تمام مسائل میں ایک دوسرے سے اختلاف کے باوجود اخوت کے رشتے میں کوئی فرق نہ آئے۔ (فرقہ وارانہ ہم آہنگی برصغیرکی دینی روایت میں برداشت کا عنصر، مفتی محمد زاہد، نیریٹو پرائیویٹ لمیٹڈاسلام آباد)
سماجی روابط معاشرے کی ضرورت ہیں
کسی مسئلے کے بارے میں اگر ہم سمجھتے ہیں کہ کسی گرو ہ سے ہمارا اختلاف ہے اور ہمار ے پاس اس سلسلے میں منطقی دلائل موجود ہیں تو ہمیں اس مسلک یا گروپ سے ہی قطع تعلقی اختیار نہیں کر لینی چاہئے۔ اختلافات کے باوجود سماجی روابط رکھنے اورملنے جلنے میں ہی معاشرے کی بہتری ہے۔
تمام مسالک ایک دوسرے کے بارے میں آگاہی حاصل کر کے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کریں۔دوسرے مسلک کو امت مسلمہ کا حصہ سمجھتے ہوئے بین المسالک اتحاد قائم کرنا دین اسلام میں مطلوب ہے۔ ارشاد ربانی ہے، 'اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو(آل عمران :)اس آیت میں واضح طور پر فرقہ پرستی اور مسلکی اختلاف کی نفی کی گئی ہے۔ یہ آیت اخوت و اتحاد کی دعوت اور تفرقہ و انتشار کی مذمت، دونوں پہلووَں کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے۔ ظہور اسلام کا مقصد تمام نوع انسانی کو ایک مرکز پر لانا اور ایک دائمی وحدت کے رشتہ میں منسلک کرنا ہے۔ سرور کائناتﷺ نے فرمایامسلمانوں کی باہمی محبت اور مودت کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک ہی جسم ہو، جس میں ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو ساراجسم بے خواب و بے آرام ہو جاتا ہے۔ (صحیح مسلم-)

مزید :

کالم -