ایران
ایران سے ہمارے تعلقات گہرے دوستانہ، ہمہ جہتی لیکن پیچیدہ نوعیت کے ہیں۔ وہ ہمارا پڑوسی ہے، لیکن یہی نہیں ہمارے درمیان مذہبی اور گہرے تہذیبی رشتے ہیں۔ برصغیر کی تاریخ میں جائیں تو طویل عرصے تک یہاں کی سرکاری زبان فارسی تھی۔ انگریزوں کے آنے سے انگریزی نے اس کی جگہ لے لی، لیکن اُردو پر اس کے گہرے اثرات اب بھی موجود ہیں۔ میرے خیال میں اگر کسی کو فارسی سے شُدبُد نہیں تو وہ اچھی اُردو نہیں لکھ سکتا اور نہ اِس کا لطف اُٹھا سکتا ہے اور سچی بات ہے کہ علم و ادب کی دُنیا میں سعدی، حافظ فردوسی، اور خیام کا ذکر کئے بغیر بات میں گہرائی اور چاشنی پیدا نہیں ہو سکتی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایران کسی حد تک ہمارا حریف بھی ہے۔ افغانستان میں اس کے مفادات زیادہ تر ہم سے ٹکراتے ہیں اور بھارت کے ساتھ بھی اُس کے کافی گہرے تعلقات ہیں۔ ایران عالم اسلام کی لیڈرشپ کابھی متمنی اور دعویدار ہے۔ اس معاملے میں پاکستان بھی ایک اہم حیثیت کا مالک ہے۔
اِس حریفانہ کشمکش کا اظہار کئی طرح ہوتا رہتا ہے۔ حال ہی میں ایران کے ایک جرنیل نے پاکستان کے اندر کارروائی کرنے کی دھمکی دے دی ہے، چند ماہ پہلے ایران کے وزیر داخلہ نے بھی اسی قسم کی دھمکی دی تھی، لیکن پاکستان نے ہمیشہ دفاعی پوزیشن اختیار کی ہے ، کسی کمزوری کی وجہ سے نہیں،بلکہ ہمسائیگی اور مذہبی و تہذیبی رشتوں کے پیش نظر ایسا رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ ہم اپنے ایرانی دوستوں سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں کہ باہمی مسائل کو خاموش ڈپلومیسی کے ذریعے حل کیا جانا چاہئے۔
تہران میں ہمارے ایک پریس قونصلر ملک فضل الرحمن (سابق سیکرٹری اطلاعات) نے بتایا کہ ان کے دور میں جنرل ضیاء الحق نے ایران کا دورہ کیا۔ جوں ہی وہ دورہ ختم کر کے پاکستان روانہ ہوئے رہبر اول امام خمینی کی طرف سے ایک سرکاری بیان جاری کیا گیا، جس میں صدر جنرل ضیاء الحق کو امریکہ کا پٹھو قرار دیا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایران اور امریکہ کے درمیان بہت دوریاں تھیں۔ ماضئ قریب میں شیطان بزرگ سے صلح ہو گئی، لیکن ٹرمپ کے صدر بننے سے صورتِ حال میں ایک دفعہ پھر تبدیلی آ گئی ہے۔
مجھے سرکاری طور پر دو دفعہ ایران دیکھنے کا موقع ملا۔ 2004ء میں پی آئی اے نے کوئٹہ سے مشہد کے لئے فضائی سروس شروع کی تومیں افتتاحی پرواز پر جانے والوں میں شامل تھا۔اس زمانے میں نواز ٹوانہ پی آئی اے کے ایم ڈی تھے اور تعلقات عامہ کے شعبے کے انچارج خالد بٹ تھے۔ اسلام آباد میں ان کے نمائندے طارق انوار صاحب ہمارے دوست تھے۔ کافی بڑا وفد تھا۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس شیخ ریاض احمد اور ان کی بیگم (وہ اس وقت لاہور ہائی کورٹ میں تھے) ملک خدا بخش ٹوانہ، سرگودھا سے ہی نصرت علی شاہ (یہ سکندر مرزا کے داماد ہیں) اور اسلام آباد کے مشہور ٹریول ایجنٹ TSC کے مالک خالد میاں بھی اس میں شامل تھے۔ سب سے بہت اچھی گپ شپ رہی۔ مشہد میں ہمیں حضرت امام رضا کے روضے پرلے جایا گیا اور پھر تہران۔
تہران میں چند دن قیام رہا۔ وفد کے اعزاز میں ایران ایئرلائن نے ایک استقبالیہ دیا، روایتی تقریریں ہوئیں، ایرانی ایئرلائن کے ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر نے خطاب کیا۔ ان کی شخصیت ہرگز متاثر کن نہیں تھی۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ انقلاب میں ایران کا ایلیٹ طبقہ مارا گیا یا مُلک سے بھاگ گیا۔ ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر نے تقریر میں انقلاب کاخاصا ذکر کیا۔ موضوع کوئی بھی ہو انقلاب کا تقریر میں ذکر کرنا سرکاری افسروں کے لئے لازم تھا۔
1994ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے دورے کے سلسلے میں مجھے ایڈوانس ٹیم میں جانے کا موقع ملا۔ اس دورے میں رہبر اول سے بھی ہماری ملاقات ہوئی۔ اس کے لئے گاڑی دور چھوڑنا پڑی اور کافی پیدل چل کر رہبر کے دفتر پہنچے۔ دفتر میں انہوں نے ایک لسٹ میں ہمارے نام چیک کئے ۔ لہٰذا ہمیں کہا گیا کہ اپنے پرس قلم وغیرہ سب نکال کر میز پر رکھ دیں۔ ہمارے لیڈر تہران میں ہمارے پریس قونصلر عشرت شیخ کا نام لسٹ میں شامل نہیں تھا لہٰذا انہیں نہیں جانے دیا گیا۔ اگرچہ انہوں نے اپنا سفارتی کارڈ بھی دکھایا مگر بات نہ بنی ۔ وزیراعظم کے دورے کے سلسلے میں سیکیورٹی کی سختی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ہماری ٹیم کو کہا گیا کہ اپنا کیمرہ وغیرہ چوبیس گھنٹے ایڈوانس ایرانی حکام کے حوالے کر دیں۔ ہمارے کنٹرولر نیوز حبیب اللہ فاروقی صاحب اس پر بہت جزبز ہوئے، کیونکہ یہ ہمارے لئے بالکل نئی بات تھی تاہم اس ہدایت پر عمل کرنا پڑا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایرانی زعماء سے ملاقاتوں کے بعد حضرت امام رضا کے مزار پر حاضری دینے کی خواہش ظاہر کی اور اس طرح مجھے بھی ان کے ساتھ مشہدمیں مزار پر دوبارہ حاضری دینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس دورے میں ہمیں ایرانی حکومت کی discourtesyکا ایک ناخوشگوار تجربہ ہوا، جہاں بھی وزیراعظم یا صدر دورے پر جاتے ہیں تو میزبان حکومت عموماًاسی ہوٹل میں جس میں مہمان وفد کا قیام ہوتا ہے ایک کمرے میں پریس سینٹر قائم کردیتی ہے،جہاں صحافیوں کے لئے خبریں بھیجنے کی تمام سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں اور یہ سہولتیں مہمان کے چلے جانے کے بعد مناسب وقت تک جاری رہتی ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں تو عموماً ایڈوانس ٹیم کو سرکاری مہمان ہی رکھا جاتا رہا ہے جب تک ان کو واپسی کی فلائیٹ دستیاب نہیں ہوتی، لیکن یہاں یہ ہوا کہ وزیراعظم بینظیر بھٹو نے 11بجے دن پاکستان روانہ ہونا تھا ہم انہیں ایئرپورٹ پر خدا حافظ کہہ کر واپس ہوٹل پہنچے تو ہمارے سفارت خانے کا ایک ملازم ہمارا سامان لے کر ہوٹل کی لابی میں بیٹھا تھا۔ ایرانی حکومت نے 11بجے کے بعد کمروں سے ہمارا سامان نکال دیا اور پریس سینٹر بند کر دیا۔