اقدار بدلی جارہی ہیں

اقدار بدلی جارہی ہیں
 اقدار بدلی جارہی ہیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میڈیا اور سوشل میڈیا معاشرے پر کیا قیامت ڈھا رہے ہیں،اندازہ تو کسی نہ کسی حد تک ہر کسی کو ہے مگر آواز اٹھانے یارائے دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔طوفان بدتمیزی کے اس ماحول میں کوئی کتنی ہی ڈھنگ کی بات کیوں نہ کرے،اعتراض اٹھانے کے لیے ’’افلاطون‘‘ کونے کھدروں سے نکل آتے ہیں۔

شرم کا مقام ہے کہ ایوب او ر پھر بھٹو مرحوم کے ادوار کی طرح ایک بار پھر ایسا تاثر دیاجاتا ہے کہ دین کی بات کرنے والا دراصل دقیانوسی خیالات کا حامل ہے۔

جنرل پرویز مشرف کی اندھا دھند روشن خیالی غیر ملکی ایجنڈے کے تحت تھی(ویسے موصوف خود بھی عادات واطوار میں جنرل یحییٰ خان سے کم نہ تھے)۔دُکھ تو اس بات کا ہے کہ مسلم لیگ (ن)کے دور حکومت میں بھی بے راہ روی کی روک تھام کے لیے کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی جارہی۔سیاسی دھینگا مشتی، مخصوص مقاصد کے لئے کیے جانے والے ٹاک شوز اور ان میں استعمال ہونے والی زبان الگ سے معاشرے کو ہیجان اور خلفشار میں مبتلا کر رہی ہے۔

ایک زمانہ تھا جب ہر طرح سے فحاشی پر آمادہ پرفارمنس کے لیے تیار اداکارہ کو بولڈ کہا جاتا تھا۔اب حالات یہ ہیں کہ جو جتنی زیادہ گالیاں لکھے اور بکے اسے اتنا ہی جرأت مند صحافی یا اینکر گردانا جاتا ہے۔ہر کوئی اپنی اولاد کی تربیت کے حوالے سے پریشان ہے مگر معاشرتی سدھار کے لیے حصہ ڈالنے پر تیار نہیں۔

دنیا بالخصوص اسلامی معاشروں کو ان کی اقدار سے دور کرنے کے اس عالمی ایجنڈے پر بھاری رقوم اور جدید ٹیکنالوجی استعمال ہو رہی ہے۔ذہن سازی کیسے کی جارہی ہے،اس حوالے سے میرے فیس بک فرینڈ اور دیندار نوجوان آصف حسین نے ایک دوسرے دوست یاسر خان سواتی کی وال سے ایک خاتون ٹیچر کو اپنی ہی کلاس میں پیش آنے والے واقعہ کے بارے میں جو لکھا ہے آنکھیں کھول دینے بلکہ دل دہلا دینے کے لیے کافی ہے۔

ملاحظہ فرمائیں
’’آج فری ٹائم میں بچوں سے گپ شپ لگانے کا دل کیا تو ایسے ایسے انکشافات ہوئے کہ حیرت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، کلاس ششم کی طالبات کے کمرہ جماعت میں موجود تھی، میں نے باری باری سب سے ایک ہی سوال کیا آپ بڑی ہوکر کیا بننا چاہیں گی؟ ٹوٹل 14بچیاں تھیں جن میں سے تین کے جوابات نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا آخر ہمارا مستقبل کیا ہوگا؟ ایک بچی نے کہا میں سنگر بننا چاہتی ہوں، جب میں نے اسکی وجہ پوچھی تو کہنے لگی۔

Teacher because I love music. Music is my life ۔دوسری بچی نے جواب دیا میں ڈانس سیکھنا چاہتی ہوں لیکن میرے پیرنٹس (والدین) سپورٹ نہیں کرتے، اس لیے جب وہ گھر نہیں ہوتے میں کمرہ بند کر کے فل والیوم میوزک پر ڈانس کرتی ہوں۔

تیسری بچی نے کہا میں قندیل بلوچ جیسی بننا چاہتی ہوں، میں نے پوچھا لیکن وہ کیوں؟ تو اس نے جواب دیا ٹیچر! وہ بہت مظلوم تھی اس نے نہ صرف اپنے گھر والوں کو سپورٹ کیا بلکہ اپنے خوابوں کو بھی پورا کیا، میں نے پوچھا یہ سب آپکو کیسے پتاہے؟ تو جواب ملا ٹیچر! اس کی لائف پر جو ڈرامہ بنا ہے میں نے وہ دیکھا ہے۔

یہ سب سن کر پہلے تو مجھے سمجھ ہی نہ آئی کہ کون سی دیوار سے جا کر سر ٹکراؤں، پھر میں نے سوچا کم از کم مجھے تو اپنی ذمہ داری ہر صورت پوری کرنی چاہیے، خیر بچیوں کو اگلے بیس منٹ میں ان عظیم خواتین کا تعارف کروایا جنہوں نے حق کی سربلندی کی خاطر اپنی جان، مال اور اولاد تک قربان کر دی۔

آسیہ ؑ سے لے کر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی مثالیں بھی دیں، انکے چہروں کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ کچھ اثر بھی ہوا ہے، اس کا وقتی اثر تو ہوگا لیکن مستقل حل والدین کے پاس ہی ہے، اس لیے سوچا ہے ان کے والدین سے ایک میٹنگ رکھوں اور ان کے والدین سے ڈسکس کرکے انکا ماحول چینج کرنے کا کہوں کہ بچوں کو ذرا میڈیا ایفیکٹس سے بچائیں۔

خاتون ٹیچر نے اپنے ساتھ پیش آنے والے اس واقعہ کے بعد حل بھی تجویز کیا ہے مگر اس کی بنیادی ذمہ داری اگر والدین پر ہے تو حکومتی اداروں، سیاسی جماعتوں بلکہ ملک کے کسی بھی شعبہ ہائے زندگی کو اس حوالے سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔


عالمی امور کے ماہر دانشور ڈیرک ہیلبنگ تازہ ترین مضمون میں کہتے ہیں کہ اس وقت ایک بڑا سوال یہ ہے کہ جمہوریت، جیسی کہ ہمارے سامنے ہے، معلومات کے سیلاب اور مصنوعی ذہانت کے سامنے اپنی بقاء یقینی بنانے کی اہلیت رکھتی ہے۔

اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اس وقت سوچ طرز فکر و عمل پر خطرناک حد تک اثر انداز ہونے والے مختلف طریقے مستعمل اور نتیجہ خیز ہیں۔ ہم اس حقیقت کو تسلیم کریں یا نہ کریں، آج کی خفیہ ایجنسیوں اور بگ ڈیٹا کمپنیوں کے پاس ہمارے بارے میں اس سے کہیں زیادہ معلومات ہیں جو ماضی میں مطلق العنان حکومتوں کو درکار ہوا کرتی تھیں۔

اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ ان معلومات کو کسی نہ کسی مرحلے میں ہمارے خلاف بروئے کار نہیں لایا جائے گا۔ ہمیں آج کے ڈیجیٹل معاشروں کی درج ذیل خصوصیات پر غور کرنا چاہیے۔ بڑے پیمانے پر نگرانی ۔۔۔انسانوں پر غیر اخلاقی نوعیت کے تجربات۔۔۔ سوشل انجینئرنگ۔۔۔ عوام کو ایک سانچے میں ڈھالنے کا عمل۔۔۔ پروپیگنڈا اور سینسر شپ۔۔۔ ’’فلاحی‘‘ آمریت۔۔۔ غیر معمولی حد تک متوقع پولیسنگ۔۔۔ لوگوں کی الگ الگ قدرو قیمت کا تعین۔۔۔ صورت حال کے مطابق انسانی حقوق کا بدلتا تصور۔۔۔ ’’قتل بربنائے رحم‘‘ ۔ طریقے تبدیل ہو گئے ہیں۔

اب جبر اور تلخی سے کام لینے کے بجائے نرمی اور مٹھاس کا سہارا لیا جاتا ہے۔ شہریوں کو ہدف بنایا جارہا ہے، ان کا ڈیٹا جمع کیا جارہا ہے اور اس ڈیٹا کے تجزیے کی بنیاد پر طے کیا جارہا ہے کہ معاشرے اور معیشت کو کیا رخ اور رنگ دینا ہے۔

ہر شخص کا ایک مکمل پروفائل بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لوگوں کے مزاج اور عادات کی بنیاد پر طے کیا جارہا ہے کہ انہیں کیا کھانا پینا چاہیے، کیا پہننا چاہیے، کیا پڑھنا چاہیے، کس طور اپنا فارغ وقت گزارنا چاہیے اور زندگی کے بارے میں ان کی مجموعی سوچ کیا ہونی چاہیے۔

ہمارے ورچوئل سیلف پر مختلف تجربات کے ذریعے یہ طے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہمیں کیا سوچنا چاہیے، ہمارا طرز عمل کیا ہونا چاہیے اور ہمیں کیسے ماحول میں زندگی بسر کرنی چاہیے۔

یاد رکھیے، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے تمام جغرافیائی سرحدوں کو عملاً ختم کردیا ہے۔ اب پوری دنیا کو کسی ایک مقام پر بیٹھ کر بھی کنٹرول کرنے کا مرحلہ آچکا ہے۔


اس مضمون میں جو انکشافات کیے گئے ہیں وہ تہلکہ خیز ضرور ہیں مگر غیر متوقع ہر گز نہیں۔ ریاستی اداروں کو یہ امر یقینی بنانا ہو گا کہ آئین میں دی گئی آزادی اظہار کے حق کو برقرار رکھتے ہوئے ایک جامع فریم ورک تیار کریں۔ معاشرتی اقدار کے تحفظ کیلئے سازگار ماحول فراہم کریں۔

بیرونی فنڈنگ اور اس کے ذریعے کھیلے جانے والے اس خطرناک کھیل کے سامنے بند باندھنے کیلئے اداروں اور عوام کو یکسو ہونا ہو گا۔ مین سٹریم میڈیا کو بھی لغویات سے پاک کرنے کیلئے اقدامات کرنا ہونگے۔

ثقافتی سرگرمیاں زندہ معاشرے کا جزو لاینفک ہیں مگر یہ کیا کہ فیض امن میلے میں اداکاروں کو بلا کر ان کے نجی معاملات پر باتیں کرائی جائیں۔ اس میلے میں فنکاروں کو مدعو کر کے کلام فیض پر ڈرامے یا پرفارمنس پیش کی جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر کوئی اداکارہ یہ کہہ دے کہ فلاں بھارتی ہیرو کے ساتھ قابل اعتراض تصاویر کے ردعمل نے اسے طاقت فراہم کی ہے تو اس کا معاشرے پر کیا اثر جائے گا۔

فنکاروں کے کریکٹراور نجی معاملات پر انٹرویو کر کے نئی نسل پر مضر اثرات مرتب کرنے کے بجائے ان سے وہی کام لیا جائے جس کے لیے وہ مشہور ہیں۔ فلم فن و ثقافت میرا موضوع نہیں پھر بھی لکھا تو بہت کچھ جا سکتا ہے اور کھلا کھلا بھی ،مگر فی الحال اتنا ہی کافی ہے۔

اللہ تعالیٰ سب کی عزتوں کی حفاظت فرمائے۔ہمارے اہل خانہ، اہل وطن اور آنے والی نسلوں کو ہر قسم کی برائیوں سے محفوظ رکھے۔

مزید :

کالم -