مشاعرہ، مشاعرہ، مشاعرہ!

مشاعرہ، مشاعرہ، مشاعرہ!
مشاعرہ، مشاعرہ، مشاعرہ!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ جو مَیں نے عنوان میں تین بار مشاعرہ، مشاعرہ، مشاعرہ لکھا ہے۔ اس کا مطلب ہے اوپر تلے لگا تار تین مشاعرے، جن میں ایک مشاعرے کو ہماری صدارت کا اعزاز حاصل تھا اور دو میں ہم بطور مہمانِ خصوصی شریک تھے۔ صدارت والا مشاعرہ ریڈیو پاکستان لاہور سے قومی نشریاتی رابطے پر نشر کیا گیا۔ عفت علوی اور شیبا ارشد پروڈیوسر اور نیلما ناہید درانی کمپیئر تھیں،جبکہ بقول ابصار عبدالعلی ایک اخبار ’’نوئے وقت‘‘ میں خبر چھپی کہ ناصرِ زیدی نے نظامت کی اور نیلما ناہید درانی نے صدارت کی۔۔۔ بہرحال خُدا کرے کہ یہ دن بھی ہماری زندگی میں آ جائے! مشاعرے کے اصل کرتا دھرنا جواں عزم اسٹیشن ڈائریکٹر ساجد درانی تھے کہ اُن کی لاہور اسٹیشن پر آمد سے ریڈیو لاہور کی رونقیں بحال ہو گئی ہیں۔ مشاعرے، محفلِ موسیقی، ڈرامے، مذاکرے، انٹرویوز، ادبی پروگرام تواتر سے، معیاری انداز میں پیش کئے جا رہے ہیں اور سینئر فنکاروں کا احترام کیا جا رہا ہے۔


ریڈیو کے متذکرہ مشاعرے میں ہمارے علاوہ نجیب احمد۔ لطیف ساحل۔ قائم نقوی، حسن سلطان کاظمی۔ عرفان صادق۔ جاوید قاسم۔ شاہدہ دلاور شاہ۔ علی اصغر عباس۔ سعد اللہ شاہ۔ نیئر راجا۔ واجد امیر۔ زبیدہ حیدر زیبی۔ عمرانہ مشتاق مانی سمیت پندرہ شعراء و شاعرات نے حصہ لیا۔ہماری صدارت کا اعلان کیا ہوا کہ سرِ مشاعرہ تقریباً ہر ایک شاعر نے اپنی اپنی جلدی جانے کی خود ساختہ مجبوری بیان کرنی شروع کی اور پہلے پڑھ کر جانے کی رَٹ لگائی۔ ہم نے بڑے تحمل سے تجویز دی کہ جس جس نے ’’ضروری کام‘‘ سے جانا ہے وہ سب سے پہلے پڑھتا جائے اور جاتا جائے۔ یوں اکثر شعراء خوش ہو گئے کہ چلو وہ اپنا اپنا کلام سُنا کے رخصت ہو لیں گے‘‘۔۔۔ کہ مَیں نے اچانک پلٹا کھایا اور کہا کہ’’مجھے آپ سب سے زیادہ ضروری کام یہ ہے کہ آخر میں ’’صاحبِ صدارت‘‘ کی حیثیت سے اکیلا مائیک پر ’’کلام شاعر بہ زبان شاعر‘‘ نہیں سُنا سکتا، کیوں کہ مَیں شکل سے تو بیوقوف نظر آتا ہوں،لیکن ہُوں نہیں، اس لئے نیلما ناہید درانی کی اناؤسمنٹ اور سب سے پہلے ان کے کلام کے بعد مَیں نے کلام سُنایا اور سٹوڈیو سے رخصت ہو کر اسٹیشن ڈائریکٹر کے کمرے میں آ بیٹھا اور عمدہ چائے کی چسکیوں سے اپنی ’’ٹینشن‘‘ کو ’’ریلیز‘‘ کیا۔ یوں اپنا اپنا کلام سُنا کے جانے اور صاحبِ صدارت کو بیوقوف بنانے والوں کی سازش کو ناکام بنایا۔۔۔!


ایک اور مشاعرہ’’عید ملن مشاعرے‘‘ کی طرح ’’ایسٹر ملن مشاعرہ‘‘ کی شکل میں سینٹ اینتھونی کالج اور ہائی سکول کے پرنسپل شاہد امبروز مغل کی مساعی جمیلہ کے سبب18اپریل کو کامیابی سے منعقد ہوا، ہمیں ’’چیف گیسٹ‘‘ ہونے کا اعزاز حاصل تھا، جبکہ جناب کنول فیروز نے صدارت کی۔ اس مشاعرے کی نظامت کے فرائض بُحسن و خوبی محترمہ حنا عاطف نے انجام دیئے۔ چُنیدہ شعراء و شاعرات میں کرامت بخاری۔ پروین سجل۔ منور سلطانہ بٹ۔ فاطمہ غزل، صائمہ الماس۔ کوثر ایمن، تسنیم کوثر، اعجاز اللہ ناز،ہارون عدیم، نعیم سلیم، آفتاب جاوید اور ایک دلچسپ شاعر یوسف رحمت یوسفی بھی تھے۔ اُن کی مزیدار شاعری کسی بھی قسم کی حدود و قیود کی پابند نہ تھی۔ معلوم ہُوا کہ وہ ’’اُردو کے استاد‘‘ ہیں۔!


مشاعرے سے پہلے پرنسپل شاہد امبروز مغل نے مشاعرے کی باقاعدہ شمع روشن کی، ڈورس کھوکھر نے نظامت کی، ڈائس پر آ کر کہا ’’ میرا قد چھوٹا ہے!‘‘ حنا عاطف نے جملہ مکمل کیا کہ ’’ قد چھوٹا ہے تو کیا، کام تو بڑا ہے‘‘۔۔۔ پھر فادر مورس جلال نے بڑی خوبی و خوش اسلوبی سے ’’ایسٹر‘‘ کے معنی سامعین کو سمجھائے۔ انہوں نے کہا ’’ایسٹر‘‘ اور ’’عید پاشکا‘‘ منانے والے لوگ زندگی بانٹنے والے ہیں۔ گویا:
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
ایک اور مشاعرہ’’قومی یومِ کتاب‘‘ کے حوالے سے قائداعظم لائبریری کے ہال میں ظہیر احمد بابر، ڈائریکٹر جنرل پبلک لائبریریز پنجاب، سیکرٹری بورڈ آف گورنرز قائداعظم لائبریری کی ذاتی کاوش سے منعقد ہُوا۔ الحمراء آرٹ کونسل لاہور کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور خوش گو شاعر کیپٹن (ر) عطا محمد خاں نے صدارت کی، جبکہ مہمانانِ خصوصی میں ہمارے ساتھ منفرد لب و لہجے کے جواں فکر شاعر عباس تابش بھی تھے۔نظامت کے فرائض وقاص عزیز نے انجام دیئے۔ دیگر شعراء میں حسن جاوید۔ خالد خواجہ (امریکہ)۔ حمیدہ شاہین، کنور امتیاز احمد۔ جاوید آفتاب۔ اشرف جاوید۔ کنول فیروز۔ حسنین محسن۔ عاصم شجاع۔ بشریٰ حزیں۔ عدنان نواز۔ واصف اختر۔ غافر شہزاد۔ حافظ احسان الحق مظہر اور شاہدہ دلاور شاہ نے خوبصورت کلام پیش کر کے سامعین سے خوب داد سمیٹی۔ آخر میں ڈاکٹر ظہیر احمد بابر نے تمام شعرائے کرام اور سامعین کا شکریہ ادا کیا، کتاب کی اہمیت و افادیت پر بھرپور روشنی ڈالی اور لائبریری میں ہونے والی ہفتے بھر کی ادبی و ثقافتی تقاریب سے حاضرین کو آگاہ کیا۔ ہم نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے اپنے خصوصی خطاب میں چند جملے کہے کہ یہاں موجود دونوں بیورو کریٹ حقیقی معنوں میں ادب دوست شخصیتیں ہیں۔ ڈاکٹر ظہیر بابر نے ایک خصوصی پراجیکٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے 2009ء 2010ء اور 2011ء میں جرمنی کے خطیر فنڈ سے پنجاب میں لائبریریوں کے جال پھیلانے کا عملی کام کِیا۔ ہر مصنف کی17،17ہزار کتابیں حاصل کی گئیں اور تمام لائبریریوں کو سپلائی کی گئیں اس طرح انہوں نے ادب کی پروموشن کر کے مصنفوں کو لکھ پتی اور پبلشروں کو کروڑ پتی بنایا!
ان تمام مشاعروں کا ماحصل اچھے شعروں، اچھے ماحول کی ترویج ہی تھا، تینوں مشاعروں میں سے کچھ یاد رہ جانے والے اشعار:
یُوں عمر گزرتی نہ کبھی دَر بدری میں
کُھلتا جو کبھی ہم پہ درِ یار کا سایا
(جاوید قاسم)
اک بار اُس کی آنکھوں میں دیکھی تھی بے رُخی
پھر اس کے بعد یاد وہ آیا کبھی نہیں
( محترمہ تسنیم کوثر)
مَیں جب بھی ٹوٹتی ہوں شعر کہنے لگتی ہوں
کہ میرے واسطے یہ سائبان باقی ہے
(منور سلطانہ بٹ)
مُسکرانے کی سزا کتنی کڑی ہوتی ہے
پوچھ آؤ یہ کسی کِھلتی کلی سے پہلے،
(محترمہ پروین سجل)
لبوں کی پیاس نے گھیرا ہُوا ہے
اِسی احساس نے گھیرا ہُوا ہے
(محترمہ صائمہ الماس)
مَیں نے اس کے نام کی بارش مانگی تھی
اُس نے میرے نام ستارا بھیجا تھا
(اعجاز اللہ ناز)
دِل سے اک شخص کو رخصت نہیں ہونے دوں گی
بارِ دیگر مَیں محبت نہیں ہونے دوں گی
(شاہدہ دلاور شاہ)
چارہ گرُ تو نے یونہی زحمتِ مرہم کی ہے
زخمِ دل زخم تو تھا، باعثِ آزار نہ تھا
(کنول فیروز)
میرے دِل کی ہر دھڑکن سے
تیرے نام کی آئے خوشبو
(محترم تسنیم کوثر)
آرزوؤں کا خون ہوتا ہے
آرزوؤں کی آرزو نہ کریں
(کرامت بخاری)

مَیں نے کہا کہ چاہئے تھوڑا سا التفات
اُس نے کہا مزاج نہ بادِ صبا کے رکھ
مَیں نے کہا کہ ہجر میں جلتا ہے یہ بدن
اس نے کہا جلے تو جلے دل بچا کے رکھ
مَیں نے کہا کہ وصل کا امکان ہے کبھی
اُس نے کہا چراغِ تمنا جلائے رکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے خبر کہ مرتے ہو ایک آفتِ جاں پر
پھر سے اِن دنوں ناصر باؤلے ہوئے ہو کیا؟
(ناصر زیدی)

مزید :

کالم -