ہندو بھارت نہ جائیں تو کہاں جائیں ؟

ہندو بھارت نہ جائیں تو کہاں جائیں ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app





2002ءمیں 28 جنوری کے روز جیکب آباد کے بھرے بازار میں دن کی روشنی میں دو افراد نمودار ہوتے ہیں اور پستول سے گولی چلاتے ہیں، جو ان کے آگے چلنے والے شخص کی پشت پر لگتی ہے، لیکن وہ شخص اسپتال پہنچنے سے قبل ہی دم توڑ بیٹھتا ہے۔ پلک جھپکتے ہی پورا شہر بند ہوجاتا ہے۔ لوگ خصوصا ہندو دھرم کے ماننے والے اپنے اپنے گھروں میں دبک جاتے ہیں۔ اس خوف سے کہ نہ جانے اب کیا ہوگا۔ یہ کسی عام شخص کا غیر دانستہ قتل نہیں تھا ،بلکہ یہ تو سدھام چند چاولہ کی صورت میں ہندو برادری کے اعتماد، بھرم اور ایک ایسے نیتا کا قتل تھا جو بالائی سندھ میں ہندو برادری کے تحفظ اور یقین، کی علامت بن چکا تھا۔ جنوری سن دو ہزار میں سدھام چند کا قتل ہوتا ہے۔ ان کے بھائی کنور چاولہ اپنے بھائی کے کریا کرم کے بعد جو ایف آئی آر درج کراتے ہیں اس میں وہ اعجاز جاکھرانی، آج کے رکن قومی اسمبلی اور سابق وفاقی وزیر، ان کے رشتہ دار ممتاز جاکھرانی اور دیگر کے نام بحیثیت ملزمان نامزد کرتے ہیں ۔
 سدھام چند کے قتل کے بعد سندھ بھر میں ہندو برادری نے شدید ا حتجاج کیا تھا ۔ آنجہانی ہندو برادری کے رہنما ءبن کر ابھر رہے تھے۔ اپنے قتل سے قبل وہ ہندوﺅں کی طرف سے جداگانہ انتخابات کے خلاف مہم چلارہے تھے اور ہندو برادی کے لئے تحفظ اور برابری کے سلوک کا مطالبہ کر رہے تھے ۔ اس کے علاوہ وہ ہندوﺅں کے مال کے تحفظ کے لئے بھی آواز بلند کر رہے تھے ۔ ہندو کے لئے ان کے رہنماءکا صرف قتل ہی نہیں ہوا، بلکہ پوری ہندو برادری کا اعتماد ڈھیر ہواتھا ۔ ہندو برادری کے لئے مرے پر سو درے اس وقت ہوا جب کنور کو خطر ناک نتائج کی دھمکیاں ملنا شروع ہوئیں۔ ہندوﺅں کے احتجاج پر پولیس نے ممتاز جاکھرانی کو حراست میں بھی لیا حالانکہ وہ اس وقت تعلقہ ناظم تھے ۔ سدھام چند چاولہ کے قتل کے وقت جیکب آباد پولس کے سربراہ اختر گورچانی تھے جو آج کل سندھ میں ایڈیشنل آئی جی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
وقت گزرتا رہا ۔ آنجہانی سدھام چند کی معمر والدہ صورت حال سے آگاہ تھیں ۔ وہ اپنا ایک بیٹا کھونے کے بعد دوسرے بیٹے کو کھونے کی متحمل نہیں ہو سکتی تھیں سو انہوں نے کنور کو رضامند کیا کہ اب بھارت کوچ کرو۔ اسی سال آٹھ نومبرکو جیکب آباد شہر کے مصروف چوک میں کھڑے ہو کو کر کنور چاولہ نے اعلان کیا کہ وہ اور سدھام چند کا خاندان بھارت جارہا ہے اگر کسی کی کوئی رقم سدھام چند یا ان کے خاندان پرواجب ہے تو وہ وصول کر لے۔ اور پھر یہ خاندان بھارت منتقل ہو گیا۔ آج بھی کنور بھارت سے اپنے جان پہچان والوں کو فون کر کے دہائی دیتے ہیں کہ کوئی چیف جسٹس سے کہے کہ ان کی درخواست پر غور کریں اور ان کے بھائی کے قتل کے نامزد ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ کنور کا اصرار ہے کہ اختر گورچانی سے حلف پر معلوم کیا جائے کہ انہوں نے جو تحقیقات کی تھیں ان کی روشنی میں ایف آئی آر میں نامزد ملزمان کس حد تک ملوث تھے، لیکن اس وقت کی حکومت اور بعد کی حکومتوں نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔
پاکستان میں جو ہندو برادری رہائش رکھتی ہے۔ وہ پاکستان کی اصل آبادی ہے۔ یہ صدیوں سے یہاں رہتے ہیں، انہیں بھی دیگر ملک کی غالب آبادی یعنی مسلمانوں کی طرح ہی مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے ۔ چوری ڈاکے رہزنی لوٹ مار کے بعد انہیں جس انداز میں اغواءبرائے تاوان کی وارداتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بھاری بھاری رقمیں تاوان میں ادا کر کے رہائی حاصل ہوتی ہے وہ بھی قابل برداشت تھا، لیکن جب ان کی جوان بیٹیوں کے اپنے والدین کی رضامندی کے بغیر اپنے گھروں سے چلے جانے کی وارداتوں میں اضافہ ہوا تو انہیں مجبور ہو کر شور کرنا پڑا۔ حال ہی میں ذرائع ابلاغ نے ان کے ایک بڑے گروپ کو بھارت منتقل ہونے کا نام دیا ، حالانکہ یہ گروپ یاترا کے ویزے پر جانے کے لئے نکلا تھا ،لیکن اسے منتقل ہونے کا نام دیا گیا ۔ بس پھر کیا تھا ملک بھر میں ایک شور بلند ہوا اور سب لوگوں کی نظریں ان پر ہی جم گئیں۔ سندھ کے بعض اضلاع میں ہندو آبادی مسلمانوں سے اگر زیادہ نہیں تو ان کے ہی لگ بھگ ہے، لیکن کاروبار میں ان کا حصہ مسلمانوں سے زیادہ ہے۔
حکومت نے وفاقی وزیر مولا بخش چانڈیو کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی جس میں ہندو نمائندے بھی شامل ہیں اور کمیٹی نے جیکب آباد جا کر نمائندہ شخصیات سے ملاقاتیں بھی کیں۔ حیدرآباد میں بھی ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جاری رہا ۔ سندھ بھر سے تعلق رکھنے والے ہندو برادری کے منتخب نمائندوں اور نمائندہ شخصیات کا حکومت نے حیدرآباد میں 27مئی کو بھی ایک اجلاس منعقد کرایا تھا ۔ اجلاس میں حکمران پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی ڈاکٹر مہیش ملانی، رمیش ، لعل چند، کھٹو مل جیون، صوبائی وزرا مکیش چاﺅلہ اور موہن لعل کوہستانی، سینٹر ہری رام کشوری ، پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کی رکن قومی اسمبلی رینا کماری کے علاوہ کئی ممتاز ہندو نمائندہ شخصیات نے شرکت کی تھی۔ کانفرنس میں شریک بعض لوگوں نے مختلف نمائندہ شخصیات کو نظر انداز کرنے کی شکایت کی۔ جس کے جواب میں منتظمین کی جانب سے کہا گیا کہ صوبہ بھر سے تنتالیس ہندو پنچائتوں کے نمائندے شریک ہیں ۔ اجلاس میں ایک اور کمیٹی قائم کی گئی جو سندھ بھر میں موجود ہندو پنچائتوں اور منتخب نمائندوں کے درمیاں رابطے کی ذمہ داری انجام دے گی، لیکن وہ اجلاس بھی ایک بے نتیجہ نششت سے زیادہ کچھ نہیں ثابت ہوا۔

ایسا نہیں ہے کہ ہندو پاکستان میں پھلے پھولے نہیں ہیں ۔ ہندو سرمایہ کاروں کی بہت بڑی سرمایہ کاری ہے۔ کراچی سے لے کر جیکب آباد تک رائس ملز، کاٹن جننگ، دال ملز، فلور ملز، پیٹرول پمپ وغیرہ کے علاوہ اناج منڈی اور کھاد اور زراعت میں استعمال ہونے والی دواﺅں کے کاروبار میں ان کی سرمایہ کاری ہے، لیکن ہندو تاجروں کی بڑی اور بھاری رقمیں پھنسی ہوئی ہیں پھر درمیانے درجے کے ہندوﺅں کی رقمیں سود پر لگی ہوئی ہیں، جن کی وصولی راتوں رات ممکن نہیں ہوتی۔ وہ ہندو تاجر جو ضلع تھرپارکر میں اپنے ہی لوگوں کو سانپ سے کاٹے انجکشن کی خریداری کے لئے رقوم سود پر دے وہ بھلا اپنی رقم کس طرح چھوڑ سکتا ہے۔ ان کی بڑی رقمیں ان لوگوں کے پاس پھنس گئی ہیں جو معاشرے میں اہم ترین مقام رکھتے ہیں اور حکومتوں کے قریب بھی تصور کئے جاتے ہیں اور ان رقموں کی واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ رقم وصولی کا جب کوئی سہل راستہ نظر نہیں آیا تو مختلف معاملات کو بہانہ بنا کر بھارت منتقل ہونے کا شور کھڑا کیا گیا ۔ اس شور پر حکومت نے کان تو دھرا ۔
ہندو برادری کے لئے بھارت منتقل ہونا اتنا آسان نہیں ہے جتنا تصور کیا جارہا ہے۔ پاکستان کے روپے کی بھارت میں قدر ویسے ہی آدھی ہے۔ کوئی جائے تو کیسے جائے۔ کہاں سے رقم لائے۔ پھر سندھ کے بعض علاقوں میں تو بااثر زمینداروں نے منادی کر دی ہے کہ ہندوﺅں کی جائیداد خریدی نہ جائے۔ ضلع قمبر کے علاقے غیبی ڈیرو میں تو کوئی ہندو اپنی جائداد فروخت ہی نہیں کرسکتا۔ البتہ ضلع سانگھڑ کے علاقے کھپرو غیرہ سے ایسے کئی افراد چلے گئے ہیں جو میڈیکل کے پیشے سے وابستہ تھے ۔ یہ سلسلہ نیا نہیں ہے۔ گزشتہ کئی عشروں سے جاری ہے کہ ہندو بچے کوٹہ سسٹم کی بنیا پر میڈیکل کالج میں داخلہ پا لیتے ہیں، تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ان میں سے چند بھارت منتقل ہو جاتے ہیں ۔ وہ لوگ بھی چلے جاتے ہیں، جن کے بھارت میں مقیم قریبی رشتہ دار انہیں مدد کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں یا پھر خاندان کے کچھ لوگ پہلے سے بھارت جا کر آباد ہو گئے ہیں ۔ بقایا تو جاتے اور آتے ہیں، جس پر اب بھارت نے بھی اس طرح کی پابندی عائد کر ی ہے کہ انفرادی ویزا نہیں دیا جاتا، بلکہ یاترا کے نام پر گروپ کو ویزہ دیا جاتا ہے ،جو لوگوں خصوصا ٹریول ایجنٹوں نے اسی طرح کا کارروبار بنا لیا ہے ۔ جیسا مسلمانوں کے مقدس مقامات کی زیارت کرانے کا کاروبار کھڑا کر دیا گیا ہے۔
بھارت نے جب تک راجستھان میں سرحد پر باڑ نہیں لگائی تھی ، ضلع تھرپارکر ، عمرکوٹ، سانگھڑ اور گھوٹکی وغیرہ سے لوگ کسی قدغن کے بغیر آتے اور جاتے ہی تھے۔ ان علاقوں میں تو رشتہ داریاںجسم اور جان کی طرح قریبی ہیں۔ سندھ میں آباد ہندو راجپوت خصوصا ٹھاکر آج بھی اپنی اولادوں کے رشتے بھارت میں ہی تلاش کرنے پر سماجی لحاظ سے مجبور ہیں ۔ ان کے لئے کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں ہے۔ آنجہانی رانا چندر سنگھ کے جانشین بیٹے رانا ہمیر سنگھ تو اپنی ہر محفل میں کہتے ہیں کہ جو عزت اور حیثیت پاکستان میں نصیب ہے، وہ بھارت میں کہاں نصیب۔ انہوں نے سندھ اسمبلی کے رکن رام سنگھ سودھو کی بھارت منتقلی کے بارے میں کہا تھا کہ اسے سات پیڑیوں میں بھی وہ مقام حاصل نہیں ہوگا، جو اسے پاکستان میں حاصل ہوا، لیکن رام سنگھ جیسے لوگ کتنے ہیں جو بھارت چلے گئے، جو لوگ جانے کے اخراجات برداشت کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں اور بیروں ملک کاروبار کر سکتے ہیں۔ وہ دبئی کا رخ کرتے ہیں۔ اپنی پاکستانی شہریت برقرار رکھتے ہیں۔ بھارت منتقلی کو اپنے لئے بہتر تصور نہیں کرتے ہیں ۔ بھلا وہ بھارت کیوں جائیں گے ، جب پاکستان میں ان کی جائداد ہی کوئی خریدنے والا نہیں ہوگا۔ سندھ میں آباد ہندو تو قیام پاکستان سے قبل بھی کاروبار کرنے کے لئے اس وقت کے جاوا، سماترا، وغیرہ وغیرہ کوچ کیا کرتے تھے۔ اسی لئے سندھ ورکی پکارے جاتے تھے۔ حیدرآباد کے ہیرآباد کے خوبصورت مکانات ان ہی سندھ ورکیوں کی ملکیت تھے۔ (جاری ہے) ٭

مزید :

کالم -