پاکستان زندہ باد

پاکستان زندہ باد
 پاکستان زندہ باد

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ شرمناک بات تو ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ فلاں کام نہ ہوا تو ملک ٹوٹ جائے گا، یا ہمیں حقوق نہ دیئے گئے تو پاکستان کے حصے بخرے ہو جائیں گے۔ ایسے لوگوں کو ہم نے کبھی پکڑ کر عبرت کا نشان نہیں بنایا،انہیں سرعام چوراہوں پر لٹکا کر سزائیں نہیں دیں، یہ کردار آج بھی ہمارے سینے پر مونگ دل رہے ہیں، انہیں بچانے والے تو حکومت میں بہت ہیں، پکڑنے والا کوئی نہیں، لیکن الطاف حسین نے تو حد ہی کر دی ہے، اس سے پہلے بھی وہ کئی بار پاکستان کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے رہے ہیں، مگر اس بار تو انہوں نے جو کچھ کہا، اس پر ہر پاکستانی کا خون کھول رہا ہے، کوئی اگر یہ کہتا ہے کہ ان کا دماغی توازن ٹھیک نہیں تھا، اس لئے وہ یہ سب کچھ کہہ گئے تو یہ بات شرمناک ڈھٹائی کے زمرے میں آتی ہے۔ یہ سب کچھ سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ تھا، تاکہ ایم کیو ایم کے حوالے سے جو ایک ٹھہراؤ کی کیفیت ہے، اس میں بھاری پتھر پھینکا جائے اور ہر طرف پھر ایم کیو ایم کے تذکرے ہونے لگیں، اس تکنیک کو الطاف حسین پہلے بھی کئی بار اپنا چکے ہیں، بس اتنا ہے کہ اس بار ذرا کچھ زیادہ ہو گیا یا شاید اس بار کچھ زیادہ ہی کرنے کا پلان بنایا گیا تھا۔


بد قسمتی تو یہ ہے کہ ہم اب تک پاکستان کے ساتھ ایک یتیم بچے جیسا سلوک کررہے ہیں، کوئی ترکی میں ترکی مردہ باد کا نعرہ لگائے تو سہی، طیب اردوان اسے انقرہ کے چوک پر لٹکا دیں گے۔یہاں سب طیب اردوان بننے کی خواہش تو رکھتے ہیں، لیکن ان جیسی جرأت کسی میں نہیں، امریکہ،برطانیہ،بھارت، سعودی عرب، ملائشیا، بنگلہ دیش عرض کوئی بھی ملک لیں، اور سوچیں کہ کیا وہاں دوسرے ملک میں بیٹھا ہوا کوئی شخص اس طرح ٹیلیفونک خطاب کرسکتا ہے اور خطاب میں وہ سب کچھ کہہ سکتا ہے،جو پاکستان کے بارے میں کہا گیا۔ سعودی عرب میں سعودی عرب تو رہا دور کی بات، کوئی آل سعود کے بارے میں بھی مخالفانہ جذبات کا اظہار کرے تو سیدھاگردن زدنی ٹھہرتا ہے ،لیکن دوسری طرف پاکستان ہے۔بات اگر یہاں تک پہنچ جائے کہ سرزمینِ وطن پر پاکستان مردہ باد کے نعرے لگائے جائیں، اُسے دنیا کا منحوس ترین ملک قرار دیا جائے اور پیرو کاروں کو یہ ہلہ شیری دی جائے کہ وہ ریاستی اداروں کو تہس نہس کر دیں تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں ہو گی۔


22 اگست کو کراچی میں جو کچھ ہوا، اسے تاریخ کے ایک تاریک باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا، مگر تاریخ کے سیاہ باب کے طور پر تو ہم نے سقوط ڈھاکہ کو بھی رکھا ہوا ہے۔ کیا ہم اتنے ہی بے بس ہو چکے ہیں کہ بس تاریخ کے ایسے ابواب تیار کرتے رہیں اور انہیں یاد کر کے اپنا قومی فریضہ ادا کریں۔ کیا اس معاملے میں بھی سیاسی مصلحتوں سے کام لیا جا سکتا ہے؟ کیا یہ سب کچھ صرف اس لئے برداشت کر لیا جائے کہ ایک شخص نے خودکو ریاست سے بالا کر لیا ہے اور اس تک ریاست کا ہاتھ نہیں پہنچ رہا۔ حکومت نے اس سارے المیے کے بعد اب تک کیا عملی قدم اٹھایا ہے؟ ایسے بیانات کیا اشک شوئی کر سکتے ہیں کہ جو کچھ کہا گیا، اس کے ایک ایک لفظ ایک ایک سیکنڈ کا حساب لیا جائے گا۔ یہ’’گا، گے، گی‘‘ والے بیانات کیا عوام کے مجروح جذبات پر مرہم رکھ سکتے ہیں؟۔۔۔ جن کروڑوں پاکستانیوں نے پاکستان کے ساتھ مردہ باد کا لفظ کبھی دیکھا، ہو نہ سنا ہو، انہیں یہ خبر ملے کہ یہ نعرہ پاکستان کی سرزمین پر ہی لگایا گیا ہے، تو ان کی دلی کیفیت کیا ہو گی؟۔۔۔ کل میری شیدے ریڑھی والے سے ملاقات ہوئی تو وہ باقاعدہ رونے لگا۔ اس کا یہ جملہ مجھے اندر سے زخم لگا گیا کہ بابو جی یہ سننے سے پہلے میں مر کیوں نہیں گیا۔ پھر اس نے بتایا کہ کس طرح اس کے تین بھائی اور دو بہنیں ہجرت کے دوران راستے ہی میں مارے گئے تھے۔ اس نے کہا: ’’آج تو میں اندر سے دکھی ہوں، مجھے لگتا ہے میں نے اپنے بہن بھائیوں کی قربانی کو بھلا دیا ہے‘‘۔۔۔ یہ جذبات صرف شیدے ریڑھی والے کے ہی نہیں، بلکہ ہر پاکستانی کے ہیں، ہجرت صرف کراچی میں رہنے والے مہاجروں نے تو نہیں کی، مہاجروں سے تو پورا ملک بھرا پڑا ہے،لیکن ایسا تو کوئی بھی نہیں سوچتا کہ پاکستان کے لئے ہمارے آباؤاجداد نے قربانی دے کر غلطی کی یا اسے نہیں بننا چاہئے تھا۔


ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے مطابق الطاف حسین ذہنی دباؤ میں تھے، اس لئے وہ یہ سب کچھ کہہ گئے۔ یہ کیسا لیڈر ہے جو ذہنی دباؤ میں توازن کھو بیٹھتا ہے اور اسے یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ اس نے کیا کہنا ہے اور کیا نہیں کہنا۔۔۔ چلیں وہ تو ذہنی دباؤ میں تھے، ان لیڈروں اور کارکنوں کو کیا ہوا تھا جو بھوک ہڑتالی کیمپ میں موجود تھے اور الطاف حسین کے نعروں پر مردہ باد کہتے رہے۔ انہیں ایک لمحے کے لئے بھی یہ خیال نہیں آیا کہ وہ جس جگہ بیٹھے ہیں، اسی کو کھود رہے ہیں۔ اس طرح تو وہ خود اس میں ڈوب جائیں گے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کتنے ظلم کر رہا ہے، سات لاکھ فوج کے ذریعے کشمیریوں کو یرغمال بنائے ہوئے ہے، ان پر زندگی تنگ کر رکھی ہے۔ مقبوضہ کشمیر ایک ایسی سرزمین بن کر رہ گئی ہے، جہاں کشمیریوں کے لئے مرضی سے سانس لینا بھی ممکن نہیں رہا، مگر آج تک کسی کشمیری نے کشمیر مردہ باد کا نعرہ نہیں لگایا، البتہ بھارت مردہ باد کے نعرے ہر وقت سنائی دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اپنی زمین کو مردہ باد تو غلام بھی نہیں کہتے، مگر اس دن کراچی کے پنڈال میں بیٹھے ہوئے کون بے حس، سنگدل اور بدطینت لوگ تھے، جنہوں نے تمام تر نعمتیں فراہم کرنے والے وطن عزیز کے خلاف مردہ باد کے نعرے لگائے۔ حیرت ہے انہیں یہ نعرے لگاتے ہوئے ابکائی نہیں آئی، ان کے ضمیر نے انہیں کچوکے نہیں لگائے کہ وہ کس منہ سے اپنے ان گھروں کو واپس جائیں گے جو اسی زمین پر واقع ہیں، جس کے خلاف انہوں نے مردہ باد کی صدائیں بلند کیں۔
ہر حد سے گزر جانے کے بعد معافی مانگ لینا یا کوئی دوسرا عذر تراش کر اپنی سنگین غلطی کی تاویل پیش کرنا ذاتی معاملات میں تو گورا ہو سکتا ہے، لیکن وطن اور قوم کے لئے اس قسم کی غلطیاں سنگین جرم، بلکہ بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں۔ پاکستان کو ایک تماشا سمجھ لیا گیا ہے یا پھر اسے کھلونا سمجھا جاتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے بارے میں اپنے خبث باطن کا اظہار کرنے والوں کے خلاف کبھی کوئی نتیجہ خیز کارروائی نہیں کی گئی، بلکہ ہمیشہ مصلحتوں کی وجہ سے در گزر سے کام لیا جاتا رہا ہے۔ ایم کیو ایم کو بھی اس کا شدید احساس ہے کہ 22 اگست کو جو کچھ کہا گیا، جو کچھ کیا گیا، اس کا کسی صورت دفاع نہیں کیا جا سکتا، اس لئے چاہے دکھاوے کے طور پر ہی سہی، الطاف حسین سے اعلان لاتعلقی کر دیا گیا ہے۔ یہ اعلانِ تعلقیان باتوں کی تلافی تو نہیں کر سکتا جو پاکستان کے بارے میں کہی گئیں، تاہم اس بات کا احساس ضرور دلاتا ہے کہ پاکستان کے خلاف زہر اگلنے والوں کے لئے پاکستان کے اندر کوئی جائے پناہ نہیں اور بالآخر انہیں اس دھرتی کی عظمت تسلیم کر کے اس کے پاؤں میں گرنے ہی سے زندہ رہنے کی مہلت مل سکتی ہے، کیونکہ ہر پاکستانی کا یہ نعرہ ہے۔۔۔ ’’ پاکستان زندہ باد، پاکستان زندہ باد‘‘۔

مزید :

کالم -