افسوس ، افسوس، سیاسی جماعتیں ذاتی ملکیتیں
یہ بات حقیقت ہے کہ مٹی کے بے جان بتوں کی پرستش اتنی نقصان دہ نہیں جتنی نقصان دہ انسانوں کی پرستش ہے۔ بے جان بت اتنی گمراہی پیدا نہیں کرتے جتنی گمراہی انسان نما بت کرتے ہیں۔ اسی لئے جہاں جمہوریت کو بہترین طرز حکومت کا درجہ حاصل ہے۔ وہاں جمہوریت میں انسانوں کی پرستش کی بھی کوئی اجازت نہیں۔ یہ بات اپنی جگہ افسوسناک ہے کہ پاکستان میں ایک مضبوط جمہوریت کے لئے کوشاں سیاسی جماعتیں اپنے اندر جمہوریت قائم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتیں۔
پاکستان میں موجود سیاسی جماعتیں افراد کے گرد گھومتی ہیں۔ یہ سیاسی جماعتیں پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنیاں بھی نہیں ہیں بلکہ پروپرائٹر شپ پر چل رہی ہیں۔ ہر جماعت ایک خاندانی ملکیت بن گئی ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ چونکہ ووٹ بنک اس شخصیت کا ہے۔ اس لئے جماعت بھی اسی کی ملکیت ہے۔ یہ امر کس قدر افسوسناک ہے کہ ہمارے ملک میں فخر سے کہا جاتا ہے کہ فلاں سیاسی جماعت کا ووٹ بنک فلاں شخصیت کی وجہ سے ہے۔ اس لئے سمجھا جاتا ہے کہ اگر پوری سیاسی جماعت بھی اسی ایک شخص سے بغاو ت کر دے یا اختلاف کر دے تب بھی اس ایک شخص کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ افسو س کی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے علاوہ سب سیاسی جماعتیں اس حمام میں ننگی ہیں۔ وہ اسٹبلشمنٹ سے تو جمہوریت مانگ رہی ہیں لیکن خود اپنی جماعت کے اندر جمہوریت دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔اس ضمن میں الیکشن کمیشن کا کردار بھی نہایت افسوسناک ہے۔ الیکشن کمیشن پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں جمہو ری کلچر رائج کرنے میں نا کام رہا ہے۔
آج کراچی میں جو ہو رہا ہے وہ بھی پاکستان کے اسی کلچر کی وجہ سے ہے۔ کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ایم کیو ایم ہے۔ لیکن ایم کیو ایم فرد واحد کی ملکیت ہے۔ پاکستان کے مخصوص سیاسی کلچر کی وجہ سے پاکستان کا پورا نظام اس فرد واحد کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔اگر یہ شخص پاکستان مردہ باد کا نعرہ بھی لگوا دے تب بھی پاکستان کا سیاسی نظام اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ پاکستان کے خلاف نعرہ بازی کے باوجود وہ کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا قائد ہے۔ گزشتہ روز کراچی کا میئر منتخب ہونے کے بعد بھی بالواسطہ وسیم اختر اسی شخص کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔ جس سے اعلان تعلقی بھی کر رہے تھے۔ یہ کیسا مذاق تھا کہ ا علان لا تعلقی بھی ہے اور قائد بھی ہے۔ اعلان لاتعلقی بھی ہے اور تعلق بھی ہے۔ یہ مذاق بھی صرف پاکستان کی سیاست میں ہی کیا جا سکتا ہے۔ شاید کسی اور جمہوریت میں اس کی گنجائش نہ ہو۔
پاکستان کی سیاسی جماعتیں چونکہ اپنی اپنی جگہ فرد واحد کی ملکیت ہیں ۔ اس لئے ان کے اندر اختلاف رائے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ صرف اس حد تک ہی اختلاف رائے کیا جا سکتا ہے۔ جتنی اجازت دی جائے۔ جہاں ریڈ لائن کھینچ دی جائے۔ اس کے آگے بات کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ہر ایک پر ریڈ لائن کا احترام لازم ہے۔ اگر آپ نے ریڈ لائن عبور کی تو آپ باغی ہیں۔ اور باغی کی سزا موت ہے۔
اکثر یہ موت سیاسی موت ہی ہوتی ہے۔ باغیوں کی کسی بھی سیاسی جماعت میں کوئی جگہ نہیں۔ اکثر ایک جماعت کے باغی کو کوئی بھی جماعت قبول نہیں کرتی۔ مفاد پرستی پر تو قبول کر لیا جاتا ہے۔ لیکن بغاوت کی کوئی جگہ نہیں۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ایسی صورتحال صرف ایم کیو ایم میں نہیں ہے۔ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) میں بھی ہے۔ تحریک انصاف میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ عمران خان خود کافی دفعہ اعلان کر چکے ہیں کہ جسے ان سے اختلاف ہے وہ پارٹی چھوڑ دے۔ پیپلزپارٹی میں بھی یہی صورتحال ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ کی تبدیلی اس کی ایک عمدہ مثال ہے۔ جس میں سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے ارکان کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ ایک خاندان نے ملک سے باہر بیٹھ کر بس فیصلہ کر دیا۔صرف جماعت اسلامی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جو کسی فرد واحد کی ملکیت نہیں ہے۔ جہاں ایک لیڈر کے انتخاب کا ایک جمہوری نظام موجود ہے۔ ورنہ باقی سب سیاسی جماعتوں میں تو ایک فرد ہی بادشاہ ہے۔اور وہ اپنی سیاسی جماعت کو اپنی ذاتی ملکیتی فیکٹری کی طرح ہی چلاتا ہے۔ سارا فائدہ بھی اسی کا ہے اور سارا نقصان بھی اسی کا ہے۔ نہ وہ کسی کے ساتھ فائدہ شئیر کرنے کے لئے تیار ہے۔ اور نہ ہی نقصان کی بھی کسی شراکت داری ماننے کو تیار ہے۔
یہ بات بھی حقیقت ہے کہ موجودہ صورتحال سیاسی جماعتوں کی آمرانہ قیادت کے فائدہ میں ہے۔ اس لئے وہ اس کو تبدیل کرنے کی خواہاں نہیں ہیں بلکہ براہ راست اس کے محافظ ہیں۔ اسی لئے پاکستان کے جمہوری نظام کے اندر سے اس صورتحال کی تبدیلی کی صورت نظر نہیں آرہی۔ لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی اس ضمن میں مجرمانہ خاموشی نا قابل معافی ہے۔ کیونکہ یہ سیا سی جماعتیں الیکشن کمیشن کے پاس ہی رجسٹرہیں۔ اور وہی ان کی مانیٹرنگ کا کوئی نظام وضع کر سکتا ہے۔ اسی طرح پاکستان کی عدلیہ کا کردار بھی اس ضمن میں کوئی بہتر نہیں ہے۔ پاکستان کی عدلیہ کے پاس کئی دفعہ ایسے مقدمات آئے ہیں جن میں سیاسی جماعتوں کے اندر آمریت کا سوال اٹھا یا گیا ۔لیکن عدلیہ نے اس کو وہ اہمیت نہیں دی جو دی جانی چاہئے تھی۔ پاکستان کی جمہوریت کو اگر آگے چلانا ہے۔ اسٹبلشمنٹ سے بچانا ہے تو اب سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر بھی جمہوریت لانا ہو گی۔و رنہ جمہوریت پر سوالیہ نشان اٹھتے رہیں گے۔