اورئینٹل کالج توجہ چاہتا ہے

اورئینٹل کالج توجہ چاہتا ہے
اورئینٹل کالج توجہ چاہتا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پنجاب یونیورسٹی کا اورئینٹل کالج مشرقی زبانوں کی تدریس کا یونیورسٹی سے بھی قدیم ادارہ ہے۔ یہاں عربی، فارسی، اردو، کشمیری اور پنجابی ادب پڑھایا جاتا ہے۔ میں یکم ستمبر 1981ء کو شعبہ پنجابی سے بطور لیکچرار وابستہ ہوا اور مارچ 2012ء میں تقریباً تیس برس کی تدریس کے بعد ریٹائر ہوگیا۔ میں نے سروس کے آخری چند سال نہایت بے دلی اور بیزاری کے ساتھ گزارے۔ اس کی بڑی وجہ پورے کالج کا تدریسی طریق کار تھا، جس سے میں قلبی اور ذہنی طور پر اپنے آپ کو ہم آہنگ نہ کرسکا۔ بلکہ بعض معاملات میں صاحبان اختیار سے اختلاف کرنے کی پاداش میں کئی طرح کی اذیتیں بھی برداشت کیں۔


اصل میں شعبے سے وابستگی کے جلد ہی بعد مجھے تدریسی نظام کی فرسودگی کا احساس ہوگیا اور میں نے اپنے اور دیگر شعبہ جات کے اساتذہ کرام سے تبادلہ خیال شروع کردیا اور یہ سلسلہ ریٹائرمنٹ تک جاری رہا۔ میری ریٹائرمنٹ کے وقت جناب ڈاکٹر سید مظہر معین پرنسپل کالج تھے، انہوں نے میرے اعزاز میں جو الوداعی تقریب منعقد کی، اس میں میں نے بتایا کہ اصل میں تو میں شعبہ سے کئی سال پہلے ہی ریٹائر ہو گیا تھا کیونکہ میں تدریسی نظام کو جدید خطوط پر استوار کروانا چاہتا تھا اور نصابات میں بھی تبدیلیوں کا خواہشمند تھا لیکن میں کسی کو بھی قائل نہیں کرسکا۔خاص طور پر مقتدر اصحاب تو میرا نقطۂ نظر سمجھ ہی نہ پائے یا انہوں نے تجاہل عار فانہ سے کام لیا،شاید وہ تبدیلی کا دروازہ کھولنا نہیں چاہتے تھے کیونکہ اس صورت میں ان کی ذمہ داریاں بڑھ جانے کا امکان تھا۔ کالج کے اکثر رفقا کا نصب العین تو پروفیسر یا ڈین بننا تھا اور اس کے لئے وہ ریسرچ آرٹیکلز کی مطلوبہ تعداد پوری کرنے میں ہمہ وقت جتے رہتے تھے۔


ریٹائرمنٹ کے فوری بعد مجھے یونیورسٹی کی طرف سے ہر سال کے معمول کے مطابق بی اے پنجابی کے پرچے موصول ہوئے۔ ظاہر ہے پرچوں کی مارکنگ مالی منفعت کا ذریعہ ہوتی ہے لیکن اب میں نے یہ کام کرنے سے انکار کردیا۔وائس چانسلر صاحب کو چٹھی لکھی کہ پرچے واپس منگوالیے جائیں۔ آئندہ مجھے کوئی پرچہ بنانے یا چیک کرنے کی ذمہ داری نہ سونپی جائے۔ نصابات اور تدریسی طریقہ کار کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کروانے کے لئے میری تمام کوششیں بے ثمر ہوگئی ہیں۔ مجھے اب اس کام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جناب وائس چانسلر نے میری چٹھی پڑھی اور اسے روائتی طریق کار کے مطابق ڈین صاحب کو مارک کر دیا۔ ان دنوں ڈین اور ہمارے صدر شعبہ آپس میں گھی شکر تھے چنانچہ میری گزارشات فائلوں میں دب گئیں۔ ہاں میں نے اپنی چٹھی کی اختتامی سطور میں لکھا تھا کہ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ میں نے اس سے پہلے ایسی کوئی چٹھی کیوں نہیں لکھی تو اس کا جواب یہ ہے کہ میں اپنی طویل سر وس سے یہ سبق سیکھ چکا ہوں کہ اگر کسی شعبے کا سربراہ کوئی کام نہ کرنا چاہے تو اسے حکام بالا کسی طرح بھی مجبور نہیں کرسکتے کیونکہ اس کے پاس گریز کے ایک سو ایک بہانے ہوتے ہیں۔


اس سلسلے میں ایک مثال بھی عرض کردوں۔ جب محترمہ ڈاکٹرجمیلہ شوکت ہماری ڈین تھیں تو ایک روز میں نے انہیں بتایا کہ ہمارا ایم اے پنجابی کا نصاب تیس بتیس سال پرانا ہے تو انہیں جیسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ کہنے لگیں، نصابات میں تو وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں ناگزیر ہوتی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے میری ہی سربراہی میں تین افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں میرے علاوہ دو اور رفقا بھی شامل تھے۔ ہم نے تین چار ماہ کی زبردست محنت و مشقت کے بعد ایک معقول سانصاب ترتیب دے دیا تو ڈین صاحبہ نے بورڈآف سٹڈیز پنجابی کا ایک خصوصی اجلاس طلب کیا جس میں ڈاکٹر وحید قریشی ، ڈاکٹر اختر حسین اختر اور پروفیسر شریف کنجا ہی ایسے جید سکالرز کو بھی شرکت کی دعوت دی۔


ہماری کمیٹی کے ترتیب دیئے گئے نصاب کی جب ایک کاپی صدر شعبہ ڈاکٹر عصمت اللہ زاہد کے سامنے آئی تو انہوں نے مذکورہ نصاب کے خلاف پروپیگنڈہ مہم اٹھا دی۔ الزام یہ لگایا کہ نصاب سیکولر مزاج کا ہے۔ ڈین صاحبہ نے چونکہ صدرِ شعبہ کوکمیٹی میں شامل نہیں کیا تھا اس لئے وہ اندر سے ناراض تھے۔ بورڈ آف سٹڈیز کا اجلاس شروع ہوا تو شرکاء نے ہمارا مرتب کردہ نصاب یہ کہہ کر ایک طرف رکھ دیا کہ ابھی اتنی تبدیلیوں کی ضرورت نہیں۔ طے پایا کہ پرانے مروجہ نصاب ہی میں تھوڑی بہت تبدیلیاں کرلی جائیں چنانچہ کافی بحث و تمحیص کے بعد نظر ثانی شدہ نصاب پاس ہوگیا مگر اِدھر اجلاس ختم ہوا، اُدھر صدر شعبہ نے بورڈ کی سفارشات کو فیکلٹی بورڈ کو بھیجنے کی بجائے سرد خانے میں پھینک دیا۔ بعد میں انہی صدر شعبہ پنجابی نے پرنسپل اور ڈین کے مناصب بھی سنبھال لئے تو اب انہیں کون پوچھتا، ان کے تو پاؤ بارہ ہوگئے۔


نئے تشریف لانے والے وائس چانسلر صاحب کی خدمت میں دست بستہ عرض کرتا ہوں کہ بڑی دیر سے یونیورسٹی کو یہ روگ لگا ہوا ہے کہ ایک شخص تین تین چار چار مناصب سنبھال کر بیٹھ جاتا ہے اور مراعات انجوائے کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کی گردن میں جو اکٹراؤ آجاتا ہے وہ اس پر مستزاد! کیا ہی اچھا ہو کہ ایک شخص ایک ہی کرسی پر قناعت کرلے اور اس کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کرے۔


جناب وائس چانسلر اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوں گے کہ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں وقت کے ساتھ ساتھ نصابات اور طریقہ ہائے تدریس میں تبدیلیاں لائی جاتی ہیں لیکن اور ٹینٹل کالج کا باوا آدم نرالا ہے۔ شعبہ پنجابی نے تقریباً چالیس برس قبل بی اے اور ایم اے کے جو نصابات ترتیب دیئے تھے، آج تک ان میں ایک شوشہ بھی تبدیل نہیں کیا گیا۔ جب پنجابی مضمون نیا نیا متعارف کروایا گیا تھا تو اس کا نصاب بے حد مختصر رکھا گیا تھا۔ دوسرے، پنجابی پرچوں (بی اے اور ایم اے) کی مارکنگ میں ہاتھ کھلا رکھنے کی خاموش پالیسی اختیار کی گئی تاکہ طلبہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں پنجابی پڑھنے کی طرف مائل ہوسکیں۔ یہ پالیسی آج بھی جاری ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس مضمون میں اب ہر سال ہزاروں کی تعداد میں امیدوار پرائیوٹ اور ریگولر دونوں سطحوں پر شریک امتحان ہوتے ہیں۔
گزشتہ چاردہائیوں کے دوران پنجابی نثر اور نظم میں کئی نئے رحجانات متعارف ہوئے ہیں،جنہیں نصاب کا حصہ بنانے کی اشد ضرورت ہے لیکن شعبہ کی باگ ڈور جن ہاتھوں میں رہی، انہیں ذاتی ترقیوں کے حصول کے علاوہ کسی چیز سے قطعاً کوئی دلچسپی نہ تھی۔


نئے تشریف لانے والے وائس چانسلر صاحب کے علم میں یہ تلخ حقیقت بھی لانا ضروری خیال کرتا ہوں کہ یہاں طریقۂ تدریس بھی بہت فرسودہ ہے۔ ہر پرچے کے چند لگے بندھے TOPICS ہوتے ہیں جنہیں اساتذہ ہر سال دہرادیتے ہیں۔ سیشن کے اختتام پر امتحان سے کوئی مہینہ بھر پہلے طلبہ و طالبات ان لیکچروں کے نوٹس فوٹو اسٹیٹ کروا کر رٹ لیتے ہیں اور بڑی آسانی سے امتحان پاس کرلیتے ہیں۔ ان کا مبلغ علم ان نوٹس تک ہی محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔کوئی بارہ تیرہ برس پہلے سمیسٹر سسٹم رائج تھا۔ اس میں اساتذہ کو بار بار پرچے بنانے، دیکھنے اور نتائج تیار کرنے پڑتے تھے۔ اسائنمٹیں الگ تھیں جن کو تیار کرنے کے لئے طلبہ کو لائبریری جانا پڑتا تھا۔اس طرح سے وہ کچھ ریسرچ تیکنیکس سیکھ لیتے تھے اس سسٹم میں اساتذہ کو وقت زیادہ دینا پڑتا تھا۔ بالآخراساتذہ اسے جنرل ارشد صاحب کے دور میں ختم کروانے میں کامیاب ہوگئے۔اب وہ لیکچر دینے کے بعد اپنے مقالے لکھتے ہیں جن کی بنا پر ان کو تیزی سے ترقیاں ملتی جاتی ہیں۔


میری ذاتی اطلاع کے مطابق نئے وائس چانسلر جناب ڈاکٹر ظفر معین ناصر یونیورسٹی کا قبلہ درست کرنے کا عزم صمیم رکھتے ہیں، اسی لئے میں نے یہ چند سطور قلمبند کردی ہیں، ممکن ہے وہ میری گزارشات کو قابلِ اعتنا سمجھ لیں اور شعبہ پنجابی کی ترقی کی کوئی سبیل بن جائے۔
طوفانِ نُوح لانے سے اے چشم فائدہ
دو اشک ہی بہت ہیں گرکچھ اثر کریں

مزید :

کالم -