شریکِ جرم نہ ہوتے تو۔۔۔
پاکستان کے دبنگ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے پیپلز پارٹی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپنے پانچ سالہ دور میں کرپشن کے ریکارڈ قائم کرنے اور حلال و حرام کی تمیز ختم کر دینے والی جماعت ہی اگر کرپشن کے خلاف مہم چلانے کا اعلان کرے تو اسے ستم ظریفی کی انتہا کہنا چاہیے۔ ہمیں چودھری صاحب کی اس بات سے سو فیصد اتفاق ہے۔ لیکن سچائی اور دیانت داری کا اگر دامن نہ چھوڑا جائے تو مسلم لیگ(ن) کی صفوں میں بھی جو کرپٹ سیاست دان ہیں۔ ان میں سے کوئی چہرہ چودھری نثار علی خاں سے چھپا ہوا نہیں۔ اس لئے جب چودھری صاحب کرپشن میں سر سے پاؤں تک ڈوبی ہوئی پیپلز پارٹی کی قیادت کا حوالہ دیتے ہیں تو انہیں یہ اعتراف بھی کرنا چاہیے کہ مسلم لیگ(ن) کے اندر بھی بد عنوان سیاست دان موجود ہیں۔
2013ء کے عام انتخابات کے دوران بھی تقریباً ہر انتخابی جلسے میں مسلم لیگ (ن) کے مرکزی قائدین اپنی تقاریر میں پیپلز پارٹی کی کرپشن کی داستانیں بیان کرتے رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ نے ملک و قوم کی جو دولت لوٹ کر بیرون پاکستان بینکوں میں چھپارکھی ہے وہ سب کا سب قومی سرمایہ واپس لایا جائے گا اور بدعنوان سیاست دانوں کو چوکوں میں الٹا لٹکا دینے کے اعلانات بھی کئے گئے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ محترم شہباز شریف کی پرجوش تقریروں کی آواز تو آج بھی کانوں میں گونجتی ہوئی محسوس ہوتی ہے جن تقریروں میں وہ زرداری کو سٹرکوں پر گھسیٹنے کا بار بار ذکر کرتے تھے۔ لیکن شاید یہ محض تقریریں ہی تھیں اور تقاریر کرنے والوں کو خود بھی اچھی طرح علم تھا کہ انہوں نے بھی اپنی کہی ہوئی ان باتوں پر عمل نہیں کرنا۔
چودھری نثار علی خاں کے نزدیک تو یہ ایک بڑی ستم ظریفی کی بات ہے کہ کرپشن کے ریکارڈ بنانے والی جماعت ہی کرپشن کے خلاف مہم چلانے کا اعلان کررہی ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں یہ بھی بڑے ظلم اور نا انصافی کی بات ہے کہ مسلم لیگ کی حکومت کے سامنے پیپلز پارٹی کی لوٹ کھسوٹ اور قومی خزانے سے ڈاکازنی کا تمام تر ریکارڈ اور ثبوت موجود ہیں اور پھر بھی ڈاکا ڈالنے اور قومی خزانہ لوٹنے والوں کے خلاف مسلم لیگ (ن) کوئی قانونی کارروائی کرنے کے لئے تیار نہیں۔ آخر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کیوں کسی مصلحت اور خوف کا شکار ہو کر ملک و قوم کے اربوں اور کھربوں روپے لوٹ لینے والوں کے احتساب پر آمادہ نہیں ہو رہی۔ اگر مسلم لیگ(ن) کی مرکزی قیادت کا اپنا دامن صاف ہے تو پھر پیپلز پارٹی کے کالے کرتوتوں سے مجرمانہ چشم پوشی کیوں؟ اگر اثر ورسوخ رکھنے والے بڑے مجرموں اور مگر مچھوں کے خلاف مسلم لیگ(ن) اپنے احتساب کے وعدوں پر عمل نہیں کرتی تو پھر ملک سے نا انصافی ، رشوت ستانی، بد عنوانی اور اقربا پروری کا خاتمہ کیسے ممکن ہوگا؟ ہمارے ملک میں لاقانونیت اور دہشت گردی کا بڑا سبب کرپشن بھی ہے۔ اگر ہم ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لئے سنجیدہ نہیں ہیں تو پھر لاقانونیت ، ناانصافی اور دہشت گردی سے بھی ہم جان نہیں چھڑا سکتے۔ حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں جماعتوں کی قیادت ایک دوسرے کے خلاف کرپشن کے سنگین الزامات تو عائد کرتی ہے لیکن اپنے اپنے دور میں کوئی برسر اقتدار پارٹی بھی بدعنوان سیاست دانوں کے خلاف کبھی کوئی ٹھوس کارروائی کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آئی۔ یہ حقیقت بھی ہر کوئی تسلیم کرتا ہے کہ ہمارے ملک میں سب سے بڑی لعنت رشوت ستانی اور بد عنوانی ہے۔ باقی تمام خرابیاں ان ہی دو برائیوں سے جنم لیتی ہیں۔ قومی اثاثوں کو لوٹنے والوں کے خلاف اگر مسلم لیگ (ن) قانون کو بروئے کار نہیں لاتی تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے اپنے ہاتھ بھی صاف نہیں ہیں۔ اگر مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت کے اپنے دامن کرپشن سے آلودہ نہیں ہیں تو پھر بقول چودھری نثار علی خاں کرپشن کے ریکارڈ بنانے والی جماعت سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کا احتساب کرنے کی راہ میں رکاوٹ کیا ہے؟ مسلم لیگ کی موجودہ حکومت کا یہ چوتھا سال ہے۔ کیا ان چار سال میں کوئی ایک مثال بھی دی جاسکتی ہے کہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے کسی ایک بھی بڑے مگر مچھ کو بدعنوانی کے جرم میں سزا دی جاچکی ہو۔ پیپلز پارٹی کا بار بار ذکر اس لئے آرہا ہے کیوں کہ یہ حکومتی جماعت مسلم لیگ (ن) کا مؤقف ہے کہ پاکستان کی سب سے کرپٹ سیاسی قیادت کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔ لیکن شاید مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت قومی خزانہ لوٹنے اور ٹیکس چوری کو خود بھی کوئی جرم نہیں سمجھتی۔ اس لئے عملی طور پر کبھی بد ترین کرپٹ عناصر کے خلاف کچھ بھی نہیں کیا جاتا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں سات آٹھ سال تک آصف زرداری کو کرپشن کے الزامات میں جیل میں رکھا گیا۔ لیکن بعدازاں بدنام ترین این آراو کے ذریعے سب کو معاف کردیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) ابھی تک کوئی نیا این آر او تو سامنے لے کر نہیں آئی لیکن ملک میں کرپشن مافیا کے لئے این آر او سے بھی بہتر صورت حال موجود ہے۔ لیکن کرپشن کے معاملہ میں دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی حلیف ہیں۔ پاکستان میں احتساب کا نعرہ اپنی سیاست کو چمکانے کے لئے تو ضرور بلند کیا جاتا ہے لیکن کرپشن کا خاتمہ کسی بھی جماعت کا مقصود نہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ جب بد عنوانی کے حمام میں سارے ہی عریاں ہوں گے تو پھر بد عنوان عناصر کا احتساب کون کرے گا۔ آخرمیں ہمیں ایک گزارش وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں سے بھی کرنی ہے کہ وہ دوبارہ کبھی پیپلز پارٹی کو کرپشن کے ریکارڈ قائم کرنے والی جماعت قرار نہ دیں۔ کیونکہ ہمیں اس وقت بہت ندامت محسوس ہوتی ہے جب کرپٹ ترین پیپلز پارٹی کے احتساب کے معاملہ میں ہمیں مسلم لیگ (ن) مکمل طور پر بے بس نظر آتی ہے۔پاکستان کی ترقی، روشنی اور خوشحالی کی سب سے بڑی دشمن کرپشن ہے۔ اور کرپشن کے خاتمے کے معاملے میں مسلم لیگ (ن) کی بے عملی اور غیر سنجیدگی اب کوئی راز نہیں رہی۔ ازہر درانی مرحوم کا ایک شعر ہے۔
شریکِ جرم نہ ہوتے تو منجری کرتے
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی
شاید یہی صورت حال مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بھی درپیش ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر وفاقی حکومت ہمیں اپنا وہ ریکارڈ دکھادے جو انہوں نے کرپشن کرنے والے بڑے لٹیروں کے خلاف اقدامات کے حوالے سے قائم کیا ہے۔