عدالت، صحافت اور سیاست

عدالت، صحافت اور سیاست
 عدالت، صحافت اور سیاست

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کچھ دوست سمجھتے ہیں کہ عدالت میں جماعت اسلامی کے وکیل کی اچھی خاصی بے عزتی ہو گئی، انہیں یہ تک کہہ دیا گیا’ وکیل صاحب کچھ تو پڑھ کر آیا کریں‘ تو اس کامطلب یہ ہوا کہ حکومت مخالف موقف کمزور ہو گیا، وہ اپنا مقدمہ ثابت نہیں کر سکے لہذا غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ بھی نکالا جا سکتا ہے کہ ججوں نے اپنا ذہن بنا لیا۔ میں یہی سب کچھ بہت دنوں سے عدالت کے اندر اور باہر دیکھ رہا ہوں۔ جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف کی عدالت میں کارکردگی کم و بیش ویسی ہی تھی جیسی ان کی موکل جماعت کی ملکی سیاست میں ہے۔ بی بی سی کے نمائندے کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کے وکیل کے دلائل سن کر ان کی حلیف جماعت تحریک انصاف کو یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ جماعت اسلامی ان کے ساتھ ہے یا حکومت کے ساتھ؟ یہ کوئی نئی بات نہیں ، یہ کنفیوژن بہت عرصے سے ہے کہ جماعت اسلامی کس کے ساتھ ہے اور مجھے تو شبہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ بھی ہے یا نہیں۔ جماعت اسلامی کے ایک وکیل کو اگر یہ علم نہیں تھاکہ ظفر علی شاہ کیس میں اگر نواز شریف فریق ہی نہیں تھے توخالد انور ان کے وکیل کیسے ہو سکتے ہیں اور یہ کہ جب ایک شخص کسی مقدمے میں فریق ہی نہ ہو تو اس کا دفاع کیسے کیا جا سکتا ہے مگر دوسرے وکیل شیخ احسن الدین کے دلائل تو پہلے کے سونے پر بھی سہاگہ نکلے۔ انہوں نے تجویز دی کہ ان تمام درخواستوں کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے سپین میں رائج طریقہ کار کو اپنا یاجائے جہاں لوگوں پر تشدد کر کے بیانات لئے جاتے ہیں۔ اس پر جسٹس عظمت سعید نے جو ریمارکس دئیے وہ اپنی جگہ پر اہم ہیں مگر مجھے یقین ہو گیا کہ یہ دونوں وکیل ہمارے بھائی سراج الحق کے ہی ہیں۔ میں نے چشم تصور میں اس تجویز پر عمل ہوتے ہوئے دیکھا جس میں سب سے پہلے ان کے موکل سے ہی سچ اگلوانے کے لئے سپین میں رائج طریقہ کار کے تحت بیان لیا جا رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے وکیل سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کریں کہ انہوں نے اس مقدمے کو ہی مذاق بنایا ہوا ہے۔


میرا موضوع جماعت اسلامی کی مضحکہ خیز سیاست اور وکالت نہیں ہے، جماعت اسلامی کے وکیل نے عدالت میں زیر کفالت ہونے کا یہ تشریح کی کہ جو شخص کسی دوسرے کا سہارا یاتائید حاصل کرے تو وہ زیر کفالت ہے۔ اس پر بنچ کے سربراہ نے جماعت اسلامی کے وکیل شیخ احسن الدین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پھر تو توفیق آصف آپ کے زیر کفالت ہوئے کیونکہ انہوں نے اس مقدمے میں آپ کا سہارا لیا ہے۔ لہذا جماعت اسلامی کی وکالت کے غیر سنجیدہ موضوع سے ہٹتے ہوئے صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم عدالت میں ججوں کی طرف سے کیے گئے سوالات پر ہر روز اپنے تئیں ایک نیا فیصلہ تشکیل دیتے ہیں۔ جس روز تحریک انصاف کے وکیل ثبوتوں کے بغیر ردی کے ڈھیروں کی مدد سے یوولیاں مارتے ہیں، ججوں کے سوالوں کے جواب میں آئیں بائیں شائیں پر زور ہوتا ہے تواس روز مسلم لیگ نون والوں کے چہرے کی مسکراہٹیں چھپائے نہیں چھپتیں، وہ سمجھتے ہیں کہ دھوبی پٹخا مار دیا گیا، تحریک انصاف کے وکیل کی طرف سے دوستوں سے گپ شپ کرتے ہوئے یہ قرار دینا کہ وکیل مقدمہ نہیں ہارتا بلکہ صرف موکل ہارتا ہے یاعدالت میں کہہ دینا کہ وہ اصل وکیل نہیں ، وہ تو سٹپنی ہیں، کامیابی کے اشاروں کے طور پر لئے جاتے ہیں مگر دوسری طرف جس روزشریف خاندان کے وکلاء سے سوال کئے جاتے ہیں،یہ آبزرویشن آتی ہے کہ وزیراعظم کے وکیل نے قانونی نکات کے انبار لگا دئیے مگر ثبوت کوئی نہیں دیا تو تحریک انصاف والے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے حکومت کے غبارے سے ہوا نکال دی حالانکہ تمام فریقوں سے یہ سوالات معزز و محترم ججوں کے حقائق کی تہہ تک پہنچنے کے لئے ہوتے ہیں اور یہاں میڈیا کی مجبوری یہ ہے کہ اس نے بال ٹو بال کمنٹری کے اصول کے تحت ایک ایک سوا ل اور ایک ایک تبصرے کو بیان کرنا ہوتا ہے۔ یہاں سے رپورٹروں کا کام ختم ہوجاتا ہے اور ٹی وی چینلوں اور اخبارات کے نیوز روم متحرک ہو جاتے ہیں۔ وہ سوال اور تبصرے ڈھونڈ کر نیوز بلیٹن کی ہیڈ لائن یاشہ سرخی بنائے جاتے ہیں جو ان اداروں کے مالکان کی طے کردہ پالیسی کے مطابق ہوتے ہیں لہذا آپ کو ملک کا سب سے زیادہ ریٹنگ والا نیوز چینل جو کچھ دکھا رہا ہے عین ممکن ہے آپ کے سامنے دوسرے کم ریٹنگ والے تین ، چار چینلز کوئی دوسری تصویر پیش کر رہے ہوں۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ سوالات فیصلہ نہیں ہوتے مگر ہم روزانہ انہیں فیصلوں کے طور پر ہی پیش کرتے ہیں۔ میں نے تین روز تک جماعت اسلامی کے وکیلوں کے دلائل کے مختلف پہلو دیکھے، میں نے دیکھا کہ انہیں کڑے وقت کا سامنا کرنا پڑا لیکن کیا مجھے اس کی بنیاد پر یہ فیصلہ دے دینا چاہئے کہ وہ وزیراعظم اور ان کا خاندان بری ہو گیا، میرے خیال میں یہ مناسب نہیں ہو گا۔
پاناما بنیادی طور پر ایک سیاسی مقدمہ ہے اورسیاسی انداز میں ہی لڑا جا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عدالت کے باہر سیاستدان اپنی اپنی عدالتیں لگا تے ہیں جہاں مخالفین کی ایسی تیسی کی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ وہ مقدمہ جیتنے جا رہے ہیں۔یہ بھی شتر بے مہار بلکہ مادر پدر آزادی کی وہ صورت ہے جسے ہم اس وقت بھگت رہے ہیں۔ اپوزیشن کے نمائندہ وکیل اور اینکرز کہتے ہیں کہ وہ اس وقت ملک میں بدترین آمریت ہے، یہ بادشاہت ہے۔ آمریت کے بھونپووں کو یہ علم ہی نہیں کہ آمریت اصل میں ہوتی کیا ہے کیونکہ انہوں نے ہمیشہ آمریت کی حمایت کی ہے۔انہیں کیا علم کہ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے اسی جمہوریت کی خاطر آمریتوں کے دوران کوڑے کس طرح کھائے، جیلیں کس طرح کاٹیں۔ ہماری اپنی اپنی تشریحات ہیں مگر عدالت کس تشریح کے ساتھ جاتی ہے اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔عدالت نے کہا کہ سچ جھوٹ کا فیصلہ ابھی باقی ہے مگر یہاں میڈیا رپورٹوں کے ذریعے یہ فیصلے ہو رہے ہیں۔ بی بی سی نے لندن فلیٹوں کے بارے میں ایک رپورٹ آن ائیر کی جس میں یہ کہا گیا کہ مذکورہ فلیٹیس کی ملکیت 1991 سے نہیں بدلی، اس کی تشریح اپوزیشن نے یہ کی کہ یہ فلیٹس چھبیس برسوں سے ہی شریف فیملی کی ملکیت ہیں اور دوسری طرف اس کی ایک تشریح یہ پیش کی گئی کہ لندن فلیٹس1991 سے جن آف شور کمپنیوں کی ملکیت تھے، اب بھی ان ہی کی ملکیت ہیں مگر ان کمپنیوں کی ملکیت 2006 میں بدل گئی ۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے پیمرا رولز کے مطابق ٹی وی چینل کے کسی لائسنس کو نہیں بیچا جاسکتا اور یہ نان ٹرانسفر ایبل ہے مگر جس کمپنی نے وہ لائسنس حاصل کیا ہوتاہے وہ اپنے پچاس یا سو فیصد شئیرز کسی دوسری پارٹی کو فروخت کر دیتی ہے اور یوں نیا مالک کمپنی اور حقیقت میں چینل کو چلانے لگتا ہے۔


اس وقت عدالت، سیاست اور صحافت ایک مشکل کا شکار ہیں اور اس مشکل کو کچھ سیاستدان گھیر گھار کر لائے ہیں۔ میں نے ایک مرتبہ پہلے بھی کہا کہ عمران خان کی واحد کامیابی یہ ہے کہ ا نہوں نے میاں محمد نواز شریف کو کامیابی کے ساتھ ٹارگٹ بنا رکھا ہے، وہ اپنے موقف کا اعادہ اتنے زور دار انداز میں اور اتنے تسلسل کے ساتھ کر رہے ہیں کہ لوگوں کو ان کے سچے ہونے کا تاثر مل رہا ہے۔ یہ کھیل وہ اس سے پہلے انتخابی دھاندلیوں کے معاملے میں بھی کھیل چکے اورمنہ کی کھا چکے ہیں۔ وہ اگلے انتخابا ت میں خیبرپختونخوا میں ظاہرکی گئی کسی پرفارمنس کی بجائے الزامات کی بوچھاڑ کے ساتھ جانا چاہتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اپنے موقف کا اتنا اعادہ کرو کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں۔ مجھے کہنے میں عارنہیں کہ ہمارے ملک میں ایسے ناپختہ ذہنوں کی کوئی کمی نہیں جو آئین، قانون اور نظام کو کچھ نہیں سمجھتے، وہ الزامات کے ساتھ جاتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ مخالفین نے عمران خان صاحب کی سیاست کی وہ واحد مثبت بنیاد انہی کے آزمودہ ہتھیار سے توڑنے کا فیصلہ کیا ہے جسے وہ شوکت خانم میموریل ہسپتال کہتے ہیں۔

مزید :

کالم -