خواری ہی خواری!
موسم خوشگوار تھا، اسلام آباد اور گردونواح میں تو بارش ہوئی۔لاہور تک ہلکے بادل آ گئے۔آسمان ڈھک گیا۔سورج کی شدت زمین تک پہنچنے میں ناکام رہی اور مغربی ہوا چل رہی تھی جو بھلی محسوس ہوئی۔موسم کی اس مہربانی پر اللہ کا شکر کرتے ہوئے دفتر کی طرف روانہ ہوئے تو یاد بھی نہیں تھا کہ جمعرات اور سی این جی کا دن ہے، وحدت روڈ کی طرف مڑنے لگے تو پٹرول پمپ پر گاڑیوں کی لمبی قطار نے یاد کرا دیا، جیب میں ہاتھ ڈالا تو معلوم ہوا کہ ڈیڑھ دو سو روپے ہیں، واپس گھر جا کر بیٹی سے ادھار لیا اور ٹھوکر نیاز بیگ کی طرف روانہ ہو گئے کہ وہاں ایک قطار ہی میں متعدد پمپ اور سی این جی سٹیشن ہیں ان میں دو کے پاس جنریٹر بھی ہے، گھر کے نزدیک والے پمپوں کی خدمات سے اس لئے مستفید نہیں ہوئے کہ ہر ایک گھنٹے بعد بجلی چلی جاتی اور سب لوگوں کو لوڈشیڈنگ کے اس دورانئے کا انتظار کرنا پڑتا، نیاز بیگ پہنچے تو حالت خراب ہی تھی ہر سٹیشن پر لمبی قطار تھی اللہ کا نام لے کر نسبتاً کم گاڑیوں والی قطار میں لگ گئے اس پٹرول پمپ پر جنریٹر نہیں تھا، خیال آیا کہ لوڈشیڈنگ ہوئی تو، بہرحال اللہ کا نام لے کر کھڑے ہو گئے۔قطار آہستہ آہستہ کھسکتی رہی اور پھر پون گھنٹے بعد باری آ گئی۔اتفاقاً لوڈشیڈنگ میں تقریباً اٹھارہ منٹ تھے اور اسے قسمت کی خوبی ہی جانئے کہ لوڈشیڈنگ سے پہلے نہ صرف ہماری گاڑی بلکہ اس سے پچھلی والی کو بھی گیس مل ہی گئی، اس پورے عمل میں پون گھنٹہ خرچ ہوا۔
یہ مشق یوں کرنا پڑی کہ صاحبزادہ ذرا دیر سے اٹھا اور جلدی جلدی اپنے دفتر روانہ ہو گیا ورنہ وہ خود ہی یہ ذمہ داری نبھاتا تھا، بہرحال ہر کام میں کوئی نہ کوئی مصلحت بھی ہوتی ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو ہمیں بھی ذاتی تجربہ نہ ہوتا، پون گھنٹے کے انتظار میں گاڑیوں کی لمبی قطار میں بڑے بڑے معزز حضرات کو منتظر پایا اور ان کی بے چینی دیکھی کہ گاڑی میں بیٹھنے سے پسینہ آتا، باہر ذرا ہوا تھی۔کھڑے ہوتے تو تھوڑی دیر بعد گاڑی آگے کرنا پڑتی۔کئی معززین کو سفید بالوں کے ساتھ گاڑی کو دھکا لگا کر آگے کرتے دیکھا، اس کے بعد باری آتی ہے۔سی این جی سٹیشن والوں کی گیس کا دباﺅ (پریشر) معمول سے کم تھا۔اس کے علاوہ گیس بھر گئی تو میٹر پر قیمت 465روپے آئی۔ سیلز مین کو 500 کا نوٹ دیا تو اس نے جلدی سے تیس روپے واپس کر دیئے۔پانچ روپے خود اس نے رکھ لئے۔جب وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ سکے نہیں ہیں۔اس سے یاد آیا کہ پاکستان میں کرنسی کی یہ حالت کر دی گئی ہے کہ یہاں روپے اور پانچ روپے کے سکے کی اہمیت نہیں۔چہ جائیکہ آپ پیسوں کا حساب کریں، 25پیسے اور پچاس پیسے کے سکے تو بنانا ہی بند کر دیئے گئے ہیں۔حکومت کی طرف سے حساب تو پیسوں میں کیا جاتا ہے، لیکن مارکیٹ میں ایک پیسے سے پچیس اور پچاس پیسوں کا سکہ ہی دستیاب نہیں اور لوگ بھی عادی ہو گئے ہیں، جبکہ ایک دو اور پانچ روپے کے سکے ہیں جو کبھی کبھار چلتے بھی ہیں لیکن دوکان دار یہ سکہ لیتے دیتے نہیں، وہ آپ کے دو تین چار روپے ہضم کر جاتے ہیں اور عموماً دس روپے واپس کرتے یا لیتے ہیں۔یوں یہ بے قدری جاری ہے، حتیٰ کہ بھکاری بھی پانچ روپے کے سکے کو حقارت کی نظروں سے دیکھتا اور دس روپے والا نوٹ لینا ہی پسند کرتا ہے۔
گیس لینے اور معززین کی خواری دیکھنے کا جو تجربہ ہوا اس سے بڑا سبق ملا اور اندازہ ہوا کہ دھوپ والے دن کیا حال ہوتا ہوگا۔حکومت نے ہفتے میں دو دن جمعرات اور پیر مقرر کئے ہیں، ان دو دنوں میں صبح 6بجے سے چار بجے تک نو گھنٹے کے لئے گیس ملتی ہے۔جو عملی طور پر چار سے پانچ گھنٹے ہی ہیں کہ معمول کے مطابق ہر گھنٹے بعد لوڈشیڈنگ ہو جاتی ہے اور درمیان میں دس دس پندرہ پندرہ والی ٹرپنگ الگ ہے۔یوں عملی شکل یہی ہے کہ یہ سہولت چار سے پانچ گھنٹوں کے لئے ہے۔گزشتہ دنوں وزیرپٹرولیم نے سی این جی سٹیشن مالکان کے وفد سے ملاقات کے دوران اسے تین دن تک چلانے کا وعدہ کیا، لیکن اس پر عمل نہیں ہو سکا۔شہریوں کا شکوہ بجا ہے کہ اگر گیس نہیں تو دیتے کیوں ہو؟ اگر گیس مہیا کرتے ہو تو پھر تین دن اور وقت بھی ناکاتی ہے چہ جائیکہ تم صرف دو روز کے لئے گیس دو، اب تو تنگ آمد بجنگ آمد کے مطابق لوگ اس حد تک آ گئے ہیں کہ حکومت معیاد بڑھائے اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر بات بن سکتی ہے ورنہ موجودہ صورت حال سے تو بہتر ہے کہ گیس ہر شعبہ کے لئے بند کر دی جائے۔گاڑیوں کے لئے بھی نہ ہو، لوگ از خود مجبور ہو کر اپنے معمولات کو پٹرول کی سطح پر لے آئیں گے۔اگرچہ یہ مشکل کام ہے۔
گیس کے حوالے سے بھی عوام نے بہت واویلا کیا لیکن کسی نے کوئی توجہ نہ دی، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگی تو فائدہ! حکومت پاکستان مسلم لیگ کی ہے اور سابقہ حکومت کے دور میں ان مسائل پر لٹریچر تک تقسیم کیا گیا، سابقہ حکومت کے خلاف یہی لوگ الزام لگاتے جو اب ذمہ دار ہیں خود حالت پہلے سے بھی بدتر کر دی ہے۔
بجلی کی حالت بہت ہی بُری ہے۔لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھتا ہی جا رہا ہے، بجلی نے زندگی حرام کر رکھی ہے، قیمتوں میں اضافہ کے بعد بھی ضرورت پوری نہیں کر سکے۔لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بہت بڑھ گیا اور یہ لوگ جو ماضی میں ریلیاں نکال کر بیانات دے کر حکومت کو زچ کرتے تھے، اب کہاں ہیں؟ اب تو ان کے دعویٰ کا ایک ایک وعدہ پورا نہیں ہوا، لوڈشیڈنگ پہلے سے بھی زیادہ ہو گئی ہے اور لوگ مظاہرے کررہے ہیں، اس پر بجلی تقسیم کرنے والے اداروں کی بہبود کا بھی خود خیال کرکے گئے ہیں۔ان کی ”عقلمندی“ ملاحظہ فرمانا ہو تو جون کے بلوں میں پڑھیں، جون کے لئے جو بل آئے اس میں اس کمی کو بھی موقع دیا گیا ہے جو فیول ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے غالباً ستمبر یا اکتوبر 13کی تھی، بل میں سبسڈی کے خاتمے میں یونٹوں کے حساب سے رقم لکھ دی گئی جسے منفی کرنا بتایا گیا لیکن پورے بل میں سے کسی بھی جگہ یہ رقم بل کی اصل رقم میں سے منہا نہیں کی گئی صرف دل کے بہلانے کے لئے منفی لکھ کر وہ رقم لکھی ہے جو منہا کرنا مقصود ہے لیکن ایسا کیا نہیں گیا۔رقم درج ضرور ہے لیکن اس کا تعلق واپسی کے لئے نہیں۔یوں لوگوں کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ ٭