انتخابی اصلاحات کو مزید بہتر کریں

انتخابی اصلاحات کو مزید بہتر کریں
 انتخابی اصلاحات کو مزید بہتر کریں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

انتخابی اصلاحات پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات اور مسودہ بل پر اراکین کمیٹی نے دستخط کر دیئے ہیں اور رپورٹ قومی اسمبلی بھیجنے کی تیاری ہے ، تاکہ اسے منظوری حاصل ہو جائے۔ قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی تحریک انصاف کے پہلے دھرنے کے فوری بعد تشکیل دی گئی تھی، تاکہ انتخابی قوانین میں اصلاحات کی جائیں۔ مہینوں نہیں بلکہ برسوں کے بعد اسحاق ڈار کی سربراہی میں بنائی جانے والی کمیٹی کی سفارشات سامنے آئی ہیں۔ کمیٹی نے یہ مسودہ تیار کرنے کے لئے ایک سو انیس اجلاس کئے۔ کمیٹی نے بظاہر جو تاخیر کی ہے اس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی سوائے اس کے کہ اسحاق ڈار کیوں اصلاحات میں سنجیدہ ہوں، انہیں تو ایسا انتخابی عمل چاہئے جس میں ان کے قبیل کے لوگ ہی منتخب ہوتے رہیں۔ اس پارلیمانی کمیٹی میں سینٹ کے اراکین کو شامل کرنا بے مقصد تھا ، قومی اسمبلی کے اراکین ہوتے اور کمیٹی کو وسعت دی جاتی، تاکہ انتخابی اصلاحات بھر پور طریقہ سے با مقصد ہوتیں۔ کمیٹی نے بظاہر جو سفارشات تیار کی ہیں ان سے پاکستان میں انتخابی عمل میں بہت ہی معمولی تبدیلی آسکے گی ، انتخابی عمل کے بارے میں عام لوگ جس قسم کی تبدیلی چاہتے ہیں ، کمیٹی نے اس پر غور ہی نہیں کیا حالانکہ الیکشن کمیشن نے عام لوگوں سے تجاویز بھی طلب کی تھیں۔ کمیٹی نے جو مسودہ منظور کیا ہے وہ الیکشن کمیشن کے اختیارات سے زیادہ ہی تعلق رکھتا ہے۔ عام لوگ انتظامی اختیارات کے ساتھ ساتھ زیادہ ہی تبدیلی کے خواہش مند ہیں۔ سب سے زیادہ اہم ضرورت تو اس بات کی ہے کہ انتخابی حلقے چھوٹے کئے جائیں ، انتخابی حلقوں میں سیاسی اجارہ داری کے خاتمہ کے لئے بامقصد اقدامات کئے جائیں۔


پاکستان میں انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے ساتھ ساتھ قوانین کے علاوہ آئین میں ایسی تبدیلیوں کی انتہائی ضرورت ہے جو ملک میں حکمرانی کو بہتر بنا سکے۔ کیوں نہیں یہ قانون بنایا جا سکتا ہے کہ پچاس فیصد سے کم ڈالے گئے حلقے میں انتخاب دوبارہ ہوگا، کامیاب امیدوار کو حلقے میں ڈالے گئے ووٹوں کا پچاس فیصد حاصل کرنا ضروری ہوگا۔ اگر امیدوار مقررہ تعداد حاصل نہیں کر سکتے تو پولنگ دوبارہ ہونا چاہئے۔ سیاست میں خاندانوں کی اجارہ داری کو ختم کرنے کے لئے قانون سازی کیوں نہیں کی جاسکتی ہے۔ یہ کیسا مذاق ہے کہ ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے قریبی رشتہ دار ایک ہی وقت میں اسمبلی میں منتخب ہوجاتے ہیں۔ اس پر پابندی کیوں نہیں ہونا چاہئے۔ کیا کسی بھی خاندان کے تمام افراد کو بیک وقت سیاست کرنے کی اجازت ہونا چاہئے ؟ کیا وہ سب لوگ سیاست کرنے کے اہل ہوتے ہیں؟ کیا ان میں اتنی قابلیت ہوتی ہے کہ وہ سیاست کر سکیں؟ یہ تو صرف سرکاری خزانے سے تن خواہ وصول کرنے اور اپنے ذاتی مفادات کے حصول کا بھونڈا طریقہ ہے جس پر حکمرانی کرنے والے تمام ہی لوگ دانستہ آنکھیں اس لئے بند رکھتے ہیں کہ سب ہی اس وبا کا شکار ہیں۔ کس کس کا نام لیا جائے؟ دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر ایک شخص قومی اسمبلی کا رکن ہے تو اسی قومی اسمبلی کے حلقے کی صوبائی نشست سے بیٹا، بھائی، یا قریبی رشتے دار منتخب ہوجاتا ہے۔ مخصوص نشستوں پر بھی رشتہ دار خواتین کو منتخب کرایا جاتا ہے۔ کمیٹی نے یہ قابل تحسین فیصلہ کیا ہے کہ کسی بھی حلقے میں خواتین کے دس فیصد سے کم ووٹ کے نتیجے میں انتخاب کالعدم قرار دیا جائے گا۔ دس فیصد کی بجائے اسے پہلے مرحلے میں تیس فیصد کیا جاتا تو بہتر ہوتا۔

سیاسی جماعتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ خواتین کو پانچ فیصد ٹکٹ دیں گی، پانچ فیصد ہی کیوں، زیادہ کیوں نہیں، تیس فیصد ٹکٹ خواتین کو کیوں نہیں دیا جائے۔ پیپلز پارٹی یا ن لیگ جیسی جماعتیں بھی اس کاروبار کا حصہ ہیں۔ ان جماعتوں نے انتخابی سیاست کو دولت مند افراد کے ہاتھوں میں کھلونا بنا دیا ہے۔ انہوں نے چنگل میں جکڑ لیا ہے۔ آئین میں درج شق 62 اور 63 کے استعمال پر جو بے دریغ ، غٰیر قانونی، اور غیر شرعی عمل کیاجاتا ہے، وہ ان شقوں کا مذاق اڑانے کے برابر ہوتا ہے جس کی ذمہ داری ریٹرننگ افسران کے ساتھ ساتھ امیدواروں اور حلقے کے تعلیم یافتہ ووٹروں پر بھی عائد ہوتی ہے۔پاکستان میں لوگ جس انداز میں منتخب ہوتے ہیں وہ انتخابات اور جمہوریت کے ساتھ کسی مکروہ مذاق سے کم نہیں ۔ کیوں نہیں بامقصد اصلاحات کی طرف توجہ دی جاتی ہے ۔ کیوں ضروری ہے کہ انتخابی قوانین ایسے ہی بنائے جائیں جو مخصوص طبقے اور حلقوں کے مفادات کے لئے فائدہ مند ثابت ہوں اور ضمانت دیتے ہوں ۔


قومی یا صوبائی اسمبلیوں میں کوئی شخص کتنی بار منتخب ہو سکتا ہے، اس پر کیوں نہیں غور کیا جاسکتا۔ کوئی تو مدت مقرر ہو۔ کیوں کر اس سہولت کی آزادی ہو کہ کوئی رکن تا حیات منتخب ہوتا رہے۔ یہ بات کیوں معیوب نہیں سمجھی جاتی کہ قومی اسمبلی میں شکست خوردہ امیدوار کا سینٹ کا رکن منتخب ہونا جمہوریت کی کوئی خدمت نہیں ہے؟ ایسا شخص کیا خاک صوبہ کے مفادات کے لئے آواز اٹھا سکے گا جس کے ذہن میں ذاتی مفاد بھرا ہوا ہو ۔ انتخابی عمل میں جس طرح کے بنیادی نقائص موجود ہیں اور ووٹروں کی نا خواندگی، غربت، محرومی، مجبوری، امیدواروں کے سماجی اثرات، وغیرہ ایسے عوامل ہیں جن کے پیش نظر پا بندیوں کی ضرورت ہے۔ حکمران طبقہ کبھی نہیں چاہے گا کہ انتخابی عمل کے ذریعہ ایسے لوگ بھی اسمبلیوں میں پہنچ سکیں جو ان کے لئے چیلنج کا سبب بنیں یا وہ لوگ حلقے کے عام لوگوں کے مفادات کی نگرانی کر سکیں ۔


بااثر امیدواروں کی انتخابات میں مداخلت اور من پسند عملہ متعین کرانے کے عمل پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاسکتی ہے؟ با اثر امیدوار من پسند اساتذہ کی پولنگ سٹیشن پر تقرری کراتے ہیں، تاکہ وہ ان کے مدد گار ثابت ہو سکیں۔ ووٹوں کی خریداری کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے ، پیسے دے کر ووٹروں کے شناختی کارڈ رکھ لئے جاتے ہیں ، پولنگ والے روز یہ لوگ اسی امیدوار کے نشان کو ووٹ ڈالتے ہیں جس کے بارے میں انہیں بتایا جاتا ہے۔ کیوں نہیں ایسے سلسلے بند کرا ئے جا سکتے ہیں؟ مفاد پرست حلقے اسی طرز عمل کو جمہوریت کا نام دیتے ہیں۔ ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن پر لانے کی سہولت فراہم کرنے پر پابندی، سپریم کورٹ نے عائد کی تھی ،لیکن انتظامیہ اور الیکشن کمیشن نے اس پر عمل در آمد کرانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ پاکستان میں جس قسم کے حالات ہیں اور سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں نے جس انداز میں اسمبلیوں میں اپنا اثر پیدا کر لیا ہے اس کی روشنی میں سخت انتخابی قوانین کی ضرورت ہے، لیکن موجودہ پارلیمنٹ کے اراکین کیوں ایسی پابندیاں عائد کرنے لگے جن کی وجہ سے ان کے خیال میں ان کے مفادات پر ضرب لگ سکتی ہو۔ پاکستان میں اگر طرز حکمرانی بہتر کرنا ہے، عوام کے مفادات کا خیال رکھنا ہے اور ملک کو حقیقی ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو معاملات کو از سر نو استوار کرنا ہوگا۔


اس کالم میں ایک بار پھر نقل کیا جارہا ہے کہ الطاف گوہر اپنے وقت کے ایسے سول افسر تھے جنہیں انتظامی معاملات کا وسیع تجربہ ہو گیا تھا۔ انہوں نے روزنامہ نوائے وقت میں کالم تحریر کئے تھے جنہیں بعد میں کتابی صورت میں شائع کیا گیا۔ ’’لکھتے رہے جنوں کی حکایت ‘‘ کے پیش لفظ میں 10جون 1997 کو انہوں نے لکھا تھا ’’ پچاس برس سے قوم جاگیردارانہ نظام کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے، نواب، سردار، خان، اور وڈیرے عوام کی قسمت کے مالک بن چکے ہیں، نہ کوئی ریاستی ادارہ ان کی دس ترس سے محفوظ ہے نہ عوام کے حقوق اور جمہوری اصول ان کی نظر میں کوئی وقعت رکھتے ہیں۔ قوم کو اس صورت حال سے اس وقت نجات حاصل ہو گی جب آپ اپنے آپ کو اس بہیمانہ نظام سے کنارہ کش کر لیں گے‘‘۔

مزید :

کالم -