یہ بدکردار اور غاصب انگریز!

یہ بدکردار اور غاصب انگریز!
یہ بدکردار اور غاصب انگریز!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ہمیں انگریزوں کا احسان مند ہونا چاہئے کہ انہوں نے ہمیں جدید تمدنی وسائل کا حامل ہونے کی طرف ہماری رہنمائی کی (انگریز سے میری مراد فرنگی نہیں، بلکہ برطانوی ہے، یعنی انگلستان، سکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ کا باشندہ)....
یہ طرزِ جمہوریت جس کی مدح و ثناءمیں ہم رات دن ایک کر رہے ہیں، یہ بھی انہیں کی عطا ہے۔ جو دوست اسے کھینچ تان کر اسلامی ادوار کی طرف لے جانے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں آنحضورﷺ کے وصال کے بعد کی تاریخ یاد کرنی چاہئے.... خلافت راشدہ کے تین خلفائے راشدین کو ہم نے شہید کر دیا اور پھر کربلا کے دلگداز سانحے کے بعد خلافت کی بساط ہی لپیٹ دی۔ بنو امیہ، بنو عباسیہ، بنو فاطمیہ، خلافتِ عثمانیہ، صرف اور صرف نام کی خلافتیں تھیں۔ اصل میں بادشاہتیں تھیں، شخصی حکمرانیاں تھیں اور وراثتی من مانیاں تھیں۔
یہ درست ہے کہ ہم کئی عشروں تک انگریزوں کے غلام رہے، لیکن کیا خاندانِ غلاماں سے لے کر خاندان مغلیہ تک کے ساڑھے چھ سو برسوں(1193ءتا 1857ئ) میں ہم غیر ملکی آقاو¿ں کے غلام نہ تھے؟.... مذہب کے نام پر صدیوں تک تغلقوں، خلجیوں، لودھیوں اور مغلوں نے کیا ہمارا استحصال نہیں کیا؟.... اور جب آخر میں شراب پینے والے، سو¿ر کا گوشت کھانے والے اور زناکاری کرنے والے”انگریز“ برصغیر میں وارد ہوئے تو کیا انہوں نے نئی تمدنی اصلاحات سے ہمیں مالا مال نہیں کیا؟.... سڑکیں، ریلیں، ہوائی اڈے، بندرگاہیں، شفا خانے، ڈاکخانے، سکول، کالج، یونیورسٹیاں، سیوریج سسٹم، نہری نظام، میکانائزڈ فارمنگ، عدالتیں اور مسلح افواج کے نظام کس نے دئیے؟.... سچ پوچھئے تو خوئے غلامی سے نجات کا آئیڈیا بھی انگریزوں ہی نے دیا۔
 ان کے قائم کردہ تعلیمی اداروں میں ہی ہم نے جدید معاشرتی اور سیاسی علوم کے اسباق سیکھے اور90 برس کے بعد آزادی کی نعمتوں سے انہوں نے ہی تو ہمیں ہمکنار کیا!.... اگر وہ چاہتے تو کئی برس تک ہمیں مزید”غلام“ رکھ سکتے تھے۔ ان کے پاس جدید ایئر فورس اور جدید نیوی تھی، بلکہ جوہری بم بھی تھے جو ہیرو شیما اور ناگا ساکی کے بعد دہلی اور لاہور پر بھی گرائے جا سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ آج ہمارے تاریخ دان طرح طرح کی تاویلیں لاتے ہیں کہ برصغیر کے مسلمانوں (اور غیر مسلموں نے) فلاں فلاں قربانیاں دے کر مملکتِ خدادادِ پاکستان اور بھارت ورش حاصل کیا.... کیا متحدہ ہندوستان کے کسی ایک باشندے نے بھی ان رخصت ہوتے ہوئے سابق آقاو¿ں پر کوئی ایک بھی شب خون مارا؟.... کسی ایک گورے کو بھی زخمی کیا؟.... کسی ایک گوری کے ساتھ بھی کوئی زیادتی کی؟.... اور اپنے ساتھ ہونے والی ”صدہا برس کی بے انصافیوں“ کا انتقام لیا؟.... ہم اہلِ ہند کی غیرت اس وقت کہاں چلی گئی تھی؟....
کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ جب سے یہ ملک وجود میں آیا ہے، ہم اس پر طرح طرح کے ظلم توڑ رہے ہیں؟.... کبھی فوجی آمریت، کبھی بنیادی جمہوریت، کبھی مجلسِ شوریٰ، کوئی شہید جمہوریت اور کوئی شہیدِ عدالت.... کیا یہ سب کچھ انگریزوں کا ورثہ ہے؟.... آج کل میڈیا پنجاب اسمبلی میں ”جو تم پیزار“ کو بار بار دکھا رہا ہے۔ ٹھاہ ٹھاہ کر کے تھپڑوں کی ڈب(Dub) کی ہوئیں آوازوں سے ناظرین و سامعین کو مشتعل(اور محظوظ) کیا جا رہا ہے۔ میچ برابر کرنے کے لئے دوسرے ممالک کی دھینگا مشتیاں بھی آن ایئر کی جا رہی ہیں، لیکن کیا ان غیر ملکی ”جمہوری روایات“ کی کوئی ٹی وی فوٹیج برطانوی پارلیمینٹ کی بھی آپ کو کہیں نظر آئی ہے؟.... اگر نہیں تو ہم کیسے پاکستانی مسلمان اور جمہوریت پسند عوام ہیں کہ غیر مسلموں اور اپنے سابق آقاو¿ں کی ان روایاتِ جہانبانی کی تقلید نہیں کرتے؟....
 اگر ہمارا من ”حرامی“ نہ ہو اور ہم حجتوں کے ”ڈھیر“ نہ لگائیں تواس تقلید کے بہت سے پہلو ہو سکتے ہیں.... ایک معمولی سا اور بظاہر کم اہمیت کا پہلو میری یادوں کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ اس کا ذکر کرنا چاہوں گا۔
یادش بخیر29، 30 برس پاک آرمی میں گزارنے کے دوران مختلف چھاو¿نیوں میں ایسے گھروں میں رہنے کا اتفاق ہوا جو برطانوی دور میں تعمیر کئے گئے تھے اور ان میں انگریز افسر رہائش پذیر ہوتے تھے۔ ان گھروں میں سے میری نظر میں کوئی ایک گھر بھی نہیں گزرا جس میں سبزہ و گل اور ثمر آور درختوں کا بطورِ خاص اہتمام نہیں کیا گیا تھا۔ ایبٹ آباد، گلگت، کوئٹہ، مری اور اسی طرح کے دوسرے بڑے چھوٹے شہروں میں جو گھر، برٹش انڈین آرمی کے افسروں کے زیر استعمال رہے تھے، ان میں پھلدار درخت بھی تھے اور پھولوں سے لدی کیاریاں بھی....اورنیز ان میں رہ کر نہ صرف کشادگی اور فراخی کا احساس ہوتا تھا، بلکہ شدید آب و ہوا میں بھی پھلوں پھولوں کی خوشبو سے گھروں کے آنگن مہکتے رہتے تھے۔بادام، آلو بخارا، آڑو، سیب، ناشپاتی،انگور، بے دانہ انار،قندھاری انار،خوبانی،آلوچہ وغیرہ جیسے پھل موسم آنے پر وافر مقدار میں کھانے کی میز پر ہوتے تھے اور مفت ہوتے تھے۔مَیں نے بارہا دوستوں کو آلو بخارا، سیب، خوبانی اور انگور کے کریٹ بھر بھر کربطور تحفہ بھیجے اور ان کی طرف سے بھی جواباًایسا ہی اہتمام ہوتا تھا۔

میری پوسٹنگ بعض ایسے سٹیشنوں پر بھی ہوئی ،جن میں برطانوی دور کے نہیں، پاکستانی دور کے گھر الاٹ کئے گئے۔ان میں کوئی پھلدار یا غیر پھلدار درخت نہ تھا۔مَیں نے بڑے شوق سے خضدار، کھاریاں، اسلام آباد ،میرپور (آزادکشمیر) وغیرہ میں ان گھروں نہ صرف پھلدار درخت کاشت کئے ،بلکہ ان کو پروان بھی چڑھایا۔بعض مقامات پر اڑھائی تین برس تک قیام کا موقع ملا۔اس دوران اپنے لگائے ہوئے درختوں کے پھلوں نے کام و دہن کو جو لذت اور قلب و ذہن کو جو فرحت عطاکی، اس کو بھلایا نہیں جا سکتا۔
پہلی بار جب میری پوسٹنگ کوئٹہ میں ہوئی تو مَیں نے اپنا سامان میس(Mess) میں رکھوا کر پہلا کام یہ کیا کہ ایک دوست کی گاڑی میں حنا جھیل اور اوڑک کے سیبوں کے باغات دیکھنے نکل گیا۔ یہ دنوں ان دنوں قابلِ دید مقامات ہوا کرتے تھے۔حنا لیک(Hanna Lake)لبالب پانی سے بھری ہوئی تھی اور اس سے آگے کچھ کلومیٹردور اوڑک میں سیب کے باغات جنت نگاہ تھے۔ ستمبر اکتوبر کے دن تھے اور سیبوں سے درختوں کی ڈالیاں جھکی پڑتی تھیں۔میں نے ایک بزرگ کسان سے پوچھا:” یہ زمین تو تمام تر پتھریلی ہے اس میں آپ سیب کیسے اگاتے ہیں؟“....اس نے مجھے ایک طرف چلنے کا اشارہ کیا۔دیکھا تو50فٹ لمبا اور 30فٹ چوڑا ایک قطعہءزمین 9فٹ کی گہرائی تک کھدا ہوا تھا۔پتھروں اور پتھریلی مٹی کے ڈھیر کناروں پر پڑے تھے۔ان کی طرف اشارہ کرکے بابا جی نے کہا:”ہم پہلے اس طرح ایک کھیت سے مٹی اور پتھر نکا لتے ہیں۔پھر فلاں جگہ سے اتنے ٹرک، زرخیز مٹی کے لاکر اس ”گڑھے“ میں ڈال دیتے ہیں۔انہی ٹرکوں کے ذریعے گڑھے سے نکالی ہوئی مٹی اور پتھر واپس بھیج دیتے ہیں۔پانی چشموں کا ہے اور باافراط ہے، آب و ہوا اللہ کی عطا ہے۔ہم پودے لگا کر پورے پانچ برس تک انتظار کرتے ہیں۔چھٹا برس پیداوار شروع ہو جاتی ہے اور پھر ہر سال بڑھتی رہتی ہے....
شکرِ خدائے را کہ تواند شمار کرد؟
یاکیست آنکہ شکر یکی از ہزار کرد
ترجمہ:کون ہے جو خدا کا شکر شمار کر سکے اور کون ہے جو اللہ کی ہزاروں نعمتوں میں سے کسی ایک کا بھی حق ادا کر سکے؟
ہم فارسی میں بات چیت کر رہے تھے.... مَیں نے باباجی کے اس نسخے کو ذہن میں رکھا۔ایک ماہ بعد باری آنے پر مجھے چلتن روڈ پر ایک ڈپلکس الاٹ ہوگیا،جس کا نمبر47/2تھا اور یہ اس چلتن روڈ پر واقع تھا جو شہر سے سٹاف کالج براستہ ”پانی تقسیم چوک“ جاتی ہے ۔ بابا چلتن کا مزار بھی اس گھر کے بالکل سامنے تھا۔ یہ دو بیڈ روم کا ایک نو تعمیر شدہ چھوٹا سا گھر تھا۔تیسرا کمرہ ”سن روم“ تھا،جس کی دیواریں شیشے کی بنی ہوئی تھیں۔موسم سرما میں جب قندھاری ہوا چلتی تھی تو اگرچہ سورج چمک رہا ہوتا تھا، لیکن سرد ہوا پورے بدن کو چیرتی معلوم ہوتی تھی اور اس کی لہر کراچی تک جاتی تھی(آج بھی ایسا ہی ہے)”سن روم“ میں بیٹھ کر دھوپ تاپنے اور یخ ہواو¿ں کے تھپیڑوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم نے بارہا خود فراموشی کو مجسم ہوتا دیکھا ہے۔ اس گھر کے پچھواڑے میں بہت سی خالی زمین پڑی تھی، جس میں پتھر اور پتھریلی مٹی بکثرت پائی جاتی تھی....مجھے باباجی کا نسخہ یاد آ گیا۔
میں نے ایک دوست سے ٹریکٹر مانگا، اس میں اپنی جیب سے تیل ڈالا۔6کنال رقبے کو 5,5فٹ تک گہرا کھود ڈالا۔آرمی کے بیڈفورڈ ٹرکوں کے ڈرائیوروں کا ٹریننگ شیڈول بنایا اور تیسرے دن سارا گڑھا اسی زرخیز مٹی سے بھروا ڈالا جو اوڑک کے باغات میں استعمال ہوتی تھی۔.... پھر اس میں میں نے بادام ، کالا کوہلو سیب، انگور آڑو،خوبانی، آلو بخارا اور آلوچہ کے تقریباً5,5پودے جن کی عمریں تین تین سال تھیں، بازار سے خرید کر لگا دیئے۔پھر سورج گنج بازار سے ایک مشہور سیڈ سٹور(Seed Store)سے سبزیوں کے بیج خریدے جو اس وقت 169روپے میں ملے۔کوئی سبزی ہی ایسی ہوگی جس کو میں نے کاشت نہ کیا ہوگا۔ کنٹونمنٹ بورڈ کے دفتر سے پرمٹ حاصل کر کے پانی تقسیم چوک سے ہفتے میں دو بار ایک ایک گھنٹے کا پانی حاصل کیا اور اپنے کھیت تک پہنچانے کے لئے نالیاں بنوائیں۔
اس ہابی کا ”پھل“ یہ ملا کہ آفسر اور جے سی او کالونی کے تمام مکینوں کو اڑھائی برس تک کوئی سبزی بازار سے نہ خریدنا پڑی۔ان سب کے بیٹ مین آتے اور اپنے حصے کی سبزیاں خود توڑ کر لے جاتے رہے....اور جہاں تک پھلوں کا تعلق ہے تو وہ ہم نے اپنی پوسٹنگ کے آخری برس اس افراط سے کھائے اور تقسیم کئے کہ اس عمل کی طمانیت آج تک سہانی یاد کی طرح دل میں بسی رہتی ہے۔
اسی طرح میں جس شہر میں بھی پوسٹ ہوا، وہاں اگر الاٹ شدہ گھر پاکستان بننے کے بعد کے تھے تو میں نے ان میں پھل اور سبزیاں ضرور کاشت کیں۔بعد میں ان شہروں میں جانے کادوبارہ اتفاق ہوا تو گاڑی کا رخ ادھر موڑنا پڑا اور اپنے ہاتھوں سے لگائے ہوئے باغوں اور کھلیانوں کو دیکھ دیکھ کر باغ باغ ”ہونا پڑا“۔
ریٹائرمنٹ کے بعد جب لاہور میں آرمی سے خریدے گئے گھر (گراو¿نڈ فلور فلیٹ) میں آنے کا اتفاق ہوا تو آگے پیچھے کے دونوں لانوں(Lawns)میں باڑیں،((Hedges پھول، پھل اور خوبصورت درخت لگائے۔البتہ سبزی اگانے والا شوق پورا نہ ہو سکا۔
قارئین کرام!شجر کاری کا موسم ہر سال آتا ہے....لمبی چوڑی اشتہاری مہم میڈیا پر چلائی جاتی ہے۔بڑی بڑی سڑکوں پر بینر آویزاں کئے جاتے ہیں، جن پر کئی ہم قافیہ اور ہم ردیف مقولے لکھے جاتے ہیں، لیکن کسی درخت کو زمین میں”گاڑنا“ آسان ہے،اس کو پروان چڑھانا مشکل ہے؟....ہم میں کتنے لوگ ہیں جو سرکاری ملازم ہیں اور سرکاری گھروں میں پھلدار درخت کاشت کر کے ”غاصب انگریزوں“ کی یہی ایک روائت زندہ رکھتے ہیں....باقی روائتوں کی تقلید کا تو ذکر ہی کیا؟  ٭

مزید :

کالم -