پانی کی قلت! احساس کیوں نہیں؟
سندھ طاس کمیشن کے معاہدہ کے تحت اسلام آباد میں پاکستان اور بھارت کے کمشنروں کی دو روزہ کانفرنس ہوئی۔ یہ گزشتہ برس ہونا تھی اسے بھارت نے منسوخ کر دیا اور اب عالمی بنک کے ایماء پر انعقاد منظور کیا تھا۔ اسلام آباد میں ہونے والی کانفرنس کا جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا۔ اگرچہ وہ کوئی بہت زیادہ خوش کن نہیں تھا، تاہم اتنا تاثر ضرور ملا کہ پانی کی تقسیم کے مسئلے پر بات چیت ضرور آگے بڑھے گی جو بالآخر کسی ایسے تصفیے کا ذریعہ بنے گی کہ فریقین راضی ہو جائیں گے۔ تاہم بھارتی وفد جونہی دہلی پہنچا، مشترکہ اعلامیے سے انکار کر دیا، حالانکہ اس کے لئے باقاعدہ نشست ہوئی اور ڈرافٹ تیار کرنے میں دونوں شریک تھے، جب یہ اعلامیہ جاری کیاگیا، تب بھی انکار نہیں کیا گیا تھا،لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی برقرار رہی کہ تحریر سے بھی انکار کیا گیا،حالانکہ فریقین کے دستخط موجود ہیں بھارت کی طرف سے مسلسل سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کے باعث بھارتی حکومت چناب اور جہلم کے منبع پر بھی ڈیم بنا رہی ہے، حتیٰ سندھ کا پانی روکنے کی بھی دھمکی موجود ہے، مودی کہتے ہیں کہ پاکستان کو بنجر کر دیں گے۔ پاکستان کی طرف سے ضامن عالمی بنک سے رجوع کیا جاتا رہا ہے،لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
اس بحث میں پڑے بغیر کہ یہ کیوں ہے اور ماضی سے اب تک پاکستان کی طرف سے پانی کے مسئلے کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لیا جا رہا، بلکہ ماضی والے کمشنر واٹر طاس سندھ جماعت علی شاہ کے خلاف تو سنگین الزام عائد کئے جاتے ہیں، کسان کانفرنس نے تو ان کو واپس بُلا کر ان کے خلاف مقدمہ چلانے کا بھی مطالبہ کر دیا ہے۔ بہرحال حالات بڑے سنگین ہیں، انہی حالات میں سندھ کی طرف سے پانی کی قلت کا سوال اٹھایا گیا اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کہتے ہیں کہ سندھ کے حصے کا پانی روک لیا گیا ہے۔ ان کے مطالبے پر ارسا کا اجلاس بھی بُلا لیا گیا ہے، جس میں پانی کی صورتِ حال پر غور کر کے پانی کی تقسیم کے فارمولے پر نظرثانی بھی ممکن ہے۔وجہ یہ بنی کہ ماض�ئ قریب کی خشک سالی کے باعث بارشیں بروقت اور کم ہونے کی وجہ سے ڈیموں میں پانی کا ذخیرہ تو نہ ہو سکا۔ البتہ ضرورت کی وجہ سے اخراج کا سلسلہ جاری رہا، اب ڈیموں میں پانی ڈیڈ لیول تک آ گیا تو پانی کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر بھارت مجوزہ ڈیم تعمیر کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ پانی بھی روکنے میں کامیاب ہو جائے گا،جو پاکستان کا حصہ ہے۔یوں یہاں دریاؤں میں پانی کی شدید قلت ہو گی اور یہی دھمکی بھی دی گئی ہے۔
دُکھ تو اِس بات کا ہے کہ یہاں احساس زیادہ نہیں ہے۔ اندرون مُلک سیاسی محاذ آرائی بڑھ رہی ہے اور تپش میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کو پانی کی کمی کا تو احساس ہو گیا،لیکن وہ یہ ادراک کیوں نہیں کرتے کہ یہ سب بھی خاص حالات کی وجہ سے ہے اور اس میں سندھ کے معزز رہنماؤں کا بھی حصہ ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت دونوں ممالک دریاؤں پر ڈیم بنا کر پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت پیدا کر سکتے ہیں، اس میں پانی کے حصے کا خیال رکھنا ہوتا ہے، بھارت مقبوضہ کشمیر پر قبضہ جمائے رکھنے کی وجہ سے چناب اور جہلم کے مخرجوں پر بھی قابض ہے۔ اگرچہ معاہدہ کے تحت ستلج اور راوی پر بھارتی حق تسلیم کیا جا چکا تھا تاہم جہلم اور چناب کے علاوہ دریائے سندھ کے پانیوں پر پاکستان کا حق تسلیم شدہ ہے، بھارت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتا چلا آ رہا ہے اور جہلم کے علاوہ ستلج پر بھی دو سے زیادہ ڈیم بنا رہا ہے۔
اس سلسلے میں یہ گزارش بے معنی نہیں کہ پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کے لئے جو منصوبے بنائے گئے ان میں کالا باغ ڈیم بہت اہمیت رکھتا ہے کہ یہ قدرتی اور فطری مقام ہے اور ڈیم کے لئے انتہائی سود مند، اس کی فزیبلٹی تیار کر کے اس پر کام بھی شروع کیا گیا مشینری پہنچا دی گئی تھی کہ اسے متنازعہ بنا دیا گیا، حتیٰ کہ خیبرپختونخوا اور سندھ والے اڑ گئے کہ یہ نہیں بنے گا، اب ان کی طرف سے کوئی دلیل بھی نہیں مانی جا رہی، حالانکہ اب تک یہ ڈیم تعمیر ہو کر پانی ذخیرہ کرنے کے کام آ رہا ہوتا اور موجودہ صورتِ حال نہ بنتی۔
اس سلسلے میں تنازعہ کا پس منظر بہت ہی افسوسناک ہے کہ یہ کسی اصولی بنا پر پیدا نہیں کیا گیا تھا۔ یہ ان دِنوں کی بات ہے جب لیفٹیننٹ جنرل (ر) فضل حق خیبرپختونخوا (تب صوبہ سرحد) کے گورنر تھے اور ان کے جنرل ضیاء الحق کے ساتھ مراسم میں تھوڑی کشیدگی آ گئی تھی، ایسے حالات میں جنرل فضل حق کو کسی نے مشورہ دیا کہ وہ مزید مراعات لے سکتے ہیں۔ اگر کوئی تنازعہ پیدا کر دیں۔انہوں نے گورنر ہاؤس پشاور میں جنرل ضیاء الحق کی موجودگی میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر اعتراض کر دیا اور موقف اختیار کیا کہ اس ڈیم کی تعمیر سے خیبرپختونخوا کے شہر نوشہرہ اور کئی دوسرے مقام ڈوب جائیں گے۔ ان کے اعتراض پر ڈیم کے ڈیزائن میں بھی تبدیلی کی گئی جسے انہوں نے تسلیم کیا۔ ان کے بعد سندھ والے بھی میدان میں آ گئے اور یہ کہہ کر ڈیم کی مخالفت کی کہ سندھ(دریا) خشک ہو جائے گا اور پنجاب کا صحرا سرسبز ہو گا، اس سلسلے میں بھی بہت سمجھانے کی کوشش کی گئی جو رائیگاں گئی۔ حتیٰ کہ پیپلزپارٹی نے تو اسے بجٹ ہی سے نکال دیا، تب سے اب تک کوئی رقم مختص نہیں کی جاتی، سب کہتے ہیں کہ اتفاق رائے سے بنے گا،لیکن اتفاق رائے کی کوشش نہیں کی جاتی، موجودہ حکومت نے بھی اب تک اس حوالے سے کوئی کارروائی شروع نہیں کی۔ اب پانی کی قلت اور بھارتی خطرہ سر پر ہے تو ہم سنجیدہ ہونے کی بجائے آپس میں دست و گریبان ہونے جا رہے ہیں، کسی کو قومی مفاد کی فکر نہیں،حالانکہ یہ مفید تر اور اب بھی سب سے جلدی تعمیر ہو جانے والا ہے، اب اگر کسی کو اعتراض ہے تو تعمیر پر نہیں ہونا چاہئے، ذخیرہ کئے گئے پانی کی تقسیم پر بیٹھ کر بات کی جا سکتی ہے اور اس کے لئے ارسا کا پلیٹ فارم موجود ہے، کیا یہ توقع بے جا ہے کہ قومی قائدین ذاتی نوعیت کے اعتراض چھوڑ کر قومی سوچ اپنائیں اور پانی کے ذخائر کے بارے میں(معہ کالا باغ ڈیم) کے مثبت فیصلے کریں۔