شیدا ریڑھی والا بھی بول پڑا
میرا بس چلے تو شیدے ریڑھی والے کو شیخ شعیب سے ملاؤں اور اُسے کہوں بڑے نام والے صحافیوں کو چھوڑو شیدے کو اپنے چینل کی ٹیم میں شامل کر لو کم از کم جلدی بھاگے گا تو نہیں۔ یہ بات میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ آج صبح شیدے نے میرا دماغ اس سے زیادہ ہلا کر رکھ دیا، جتنا کل رات سے ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے والے صحافیوں کے بیانات نے ہلا دیا تھا۔ اتوار کی وجہ سے بیگم صاحبہ نے کہا جائیں سبزی لے آئیں، سو میں نکلا تو سامنے ہی شیدے کی ریڑھی نظر آئی، میں نے سوچا گرمی میں مارکیٹ جانے کی بجائے اُسی سے جو ملتا ہے لے لیتا ہوں، سو میں اس کے پاس گیا تو یوں لگا جیسے وہ میرا ہی انتظار کر رہا تھا۔ دیکھتے ہی پھٹ پڑا۔ کہنے لگا آپ سبزی لیتے ہوئے ایک ایک روپے کی رعایت کراتے ہیں، حالانکہ آج معلوم ہوا ہے کہ صحافی اور کالم نگار تو ایک ایک کروڑ روپیہ تنخواہ لیتے ہیں۔ میں نے کہا شیدے یہ ہوائی کسی دشمن نے اُڑائی ہے۔ یہاں تو اکثر ورکر صحافیوں کو روٹی دال کے لالے پڑے رہتے ہیں۔ وہ کہاں چوکنے والا تھا، کہنے لگا یہ بول چینل کا قصہ نہیں سن رہے آپ آج کل، سنا ہے کہ اس نے تجوریوں کے منہ کھول دیئے تھے۔ جو لاکھ لیتا تھا اسے دس لاکھ دیئے، جو دس لاکھ لیتا تھا وہ کروڑ پر پہنچ گیا۔ آپ نے بہتی گنگا میں ہاتھ کیوں نہیں دھوئے بابو جی۔ میں نے انکار کرنے کی بجائے کہا ہاں شیدے سنا تو میں نے بھی ہے کہ بول چینل نے سخاوت کے دریا بہا دیئے تھے۔ میں نے سوچا چلو شیدا اس سے مطمئن ہو جائے گا اور میں سبزی لے کر گھر کی راہ لوں گا، مگر وہ کہاں چپ رہنے والا تھا۔
کہنے لگا۔۔۔ ’’ایک بات تو بتائیں بابو جی!‘‘ میں نے کہا پوچھو۔ اس کے بعد اس نے جو کچھ پوچھا میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ اس کا سوال تھا ’’بابو جی پیسہ دیکھ کر چینل کی طرف بھاگنے والے اب چینل سے کیوں بھاگ رہے ہیں، کس بات پر اُن کا ضمیر جاگ گیا ہے اور بابو جی یہ ضمیر ہوتا کیا ہے۔ جاگتا کیسے ہے؟‘‘ اُف توبہ یہ بندہ اگر سبزی نہ بیچتاہوتا اور کسی سیاسی جماعت میں ہوتا تو اسے بھی قیادت کی طرف سے ذوالفقار مرزا کی طرح جوتیاں پڑ رہی ہوتیں۔ اُس کے ایسے ہی سوالات سن کر میرے ذہن میں یہ خیال آیا تھا کہ شیدے کو شعیب شیخ یعنی بول کے چیف ایگزیکٹو سے ملوانا چاہئے۔ میں نے کہا شیدے اصل میں ہوا یہ ہے کہ جو آدمی بول چینل کا مالک ہے اس پر یہ الزام لگا ہے کہ وہ جعلی ڈگریوں کے کاروبار میں ملوث ہے، اس لئے اُس کے خلاف اب کارروائی بھی ہو رہی ہے، ظاہر ہے کہ ہمارے یہ پاک صاف صحافی کسی ایسے شخص کے ساتھ کیسے کام کر سکتے ہیں جس پر ایسا الزام لگ گیا ہو، سو وہ چینل سے علیحدہ ہو رہے ہیں بابو جی میں آپ کی بات مان لیتا ہوں۔ مگر آپ تو کہا کرتے ہیں کہ صحافی بہت باخبر ہوتا ہے، اُڑتی چڑیا کے پر گن لیتا ہے، کہیں کوئی گڑ بڑ ہو رہی ہو تو سب سے پہلے اس کے کان کھڑے ہوتے ہیں پھر آخر اتنے بڑے بڑے نام والے صحافیوں کو کیوں پتہ نہیں چلا کہ اُن کا مالک جعلی ڈگریوں کا دھندہ کرتا ہے۔ مجھے تو یہ صحافی دولے شاہ کے چوہے لگتے ہیں، جنہیں صرف کھانے سے غرض ہوتی ہے، سوچنے سمجھنے سے عاری ہوتے ہیں۔
مَیں نے کہا شیدے ایسی گستاخانہ باتیں نہ کرو۔ وہ ہماری صحافتی دنیا کا فخر ہیں ان کے ناموں پر چینلز چلتے ہیں۔ اُنہیں ایسے خطاب نہ دو۔ شیدا میری اس بات پر تھوڑی دیر کے لئے حیران ہوا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ پھر یہ ستم ظریف شخص کہنے لگا۔ ’’بابو جی میں جانتا ہوں کہ آپ مذاق کر رہے ہیں وگرنہ تو اصل بات وہی ہے جو میں کہہ رہا ہوں۔ اچھا ایک بات تو بتائیں بابو جی۔! شیدے نے پھر توپوں کا رخ میری طرف کر لیا۔ مَیں نے نیم آمادگی کے ساتھ کہا پوچھو شیدے۔ شیدے نے پھر وہی سر چکرا دینے والا سوال داغ دیا۔ ’’مجھے کوئی میری اوقات سے بڑھ کر پیسے دے جائے تو میں حیران نہیں ہوں گا۔ میرے ذہن میں پہلا سوال ہی یہ آئے گا کہ آخر چکر کیا ہے، کیوں اتنے پیسے دیئے ہیں۔ جب ان بول چھوڑ کر ضمیر کا نعرہ لگانے والے صحافیوں، اینکروں کو اُن کی اوقات سے بڑھ کر معاوضے دیئے جا رہے تھے تو انہوں نے کیوں نہیں سوچا کہ آخر چکر کیا ہے۔ کیوں آنکھیں بند کر کے اور خود کو شہزادے سمجھ کر اپنی جیبیں بھرتے رہے۔ ایسے معصوم صحافی تو میں نے کبھی نہیں دیکھے جو یہ بھی نہ سوچتے ہوں کہ جو پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے وہ آخر آ کہاں سے رہا ہے۔ بابو جی مجھے تو لگتا ہے کہ یہ سب ایف آئی اے اور پولیس سے ڈر کے بھاگ رہے ہیں۔ آپ کیا کہتے ہیں‘‘؟
سچی بات ہے اُس کی اس بات پر میرا جی چاہا کہ اس کی ریڑھی اُلٹا دوں، کیسا بے ہودہ آدمی ہے جو صحافیوں کے بارے میں کہہ رہا ہے کہ وہ ایف آئی اے اور پولیس کے ڈر سے بول چھوڑ کر جا رہے ہیں میں نے کہا شیدے کچھ عقل سے کام لو۔ یہ لوگ پاکستان میں صحافت کی کریم ہیں۔ ان پر اُنگلی اُٹھانا بھی گناہ ہے۔ یہ با ضمیر اور کھرے لوگ ہیں یہ بول میں صرف اس لئے گئے تھے کہ عام صحافیوں کے لئے ساز گار حالات پیدا کر سکیں۔ انہوں نے لاکھوں روپے کی تنخواہیں اس لئے مقرر نہیں کرائیں کہ اُنہیں پیسے کا لالچ تھا بلکہ وہ چاہتے تھے کہ میڈیا ہاؤسز میں عام صحافی کا جو استحصال ہو رہا ہے اس کا ازالہ کر سکیں۔‘‘ شیدے نے مجھے درمیان میں ہی ٹوکا اور کہا تو بابو جی پھر اُسے چھوڑ کیوں رہے ہیں؟‘‘ میں نے کہا شیدے یہ اُن کے ضمیر کا معاملہ ہے اُن کا ضمیر جاگ گیا ہے۔ ’’تو کیا اُس چینل میں رہنے کے لئے ضمیر کو سلانا ضروری تھا بابو جی؟‘‘ شیدے کی زچ کر دینے والی باتوں کو سن کر میں اپنے آپ کو اور بیگم کو کوس رہا تھا کہ اس نے کیوں اس وقت مجھے سبزی لینے کے لئے بھیجا جب شیدا گھر سے باہر ریڑھی لئے کھڑا تھا میں نے بات بدلنے کے لئے کہا ’’شیدے ٹینڈے کیا بھاؤ ہیں۔ ’’ٹینڈے تو آپ جس بھاؤ مرضی لے جائیں بابو جی پر اپنی برادری کے بارے میں سوال کرنے پر مجھ سے ناراض نہ ہوں، آخر میں آپ سے نہ پوچھوں تو کس سے پوچھوں۔ میں نے کہا شیدے ایسی بات نہیں استعفے دینے والے صحافی بڑی اعلیٰ مثالیں قائم کر رہے ہیں، وگرنہ ہمارے ہاں تو بڑے سے بڑا واقعہ بھی ہو جائے تو کوئی مستعفی نہیں ہوتا۔ شیدا میری اس بات پر سٹپٹایا، مجھے ایسا لگا جیسے وہ مجھے گھور رہا ہو، کہنے لگا ۔۔۔’’بابو جی سرکاری و عوامی عہدوں اور اپنی مرضی کے معاوضوں پر نوکری کرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ جس شخص پر ابھی الزام ہی ثابت نہیں ہوا۔ آپ مشکل وقت میں اسے چھوڑ دیں اور پھر یہ دعویٰ کر کے ہیرو بھی بننے کی کوشش کریں کہ اپنے ضمیر کی آواز پر استعفیٰ دیا ہے میں تو اسے مفاد پرستی، منافقت اور بزدلی سمجھتا ہوں۔‘‘
شیدا ریڑھی والا اب حد سے بڑھتا جا رہا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ بول والا بن گیا ہو۔ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔ وہ مجھے اس وقت ذوالفقار مرزا کی نسل کا کوئی بندہ لگاجو ناک میں دم کر دیتا ہے تو کون میں خوامخواہ، میں نے سوچا ایک ریڑھی والے کمی کمین کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ ملک کے عظیم المرتبت اور باضمیر صحافیوں کے بارے میں ایسے ریمارکس دے۔ کل کلاں انہوں نے کسی اور چینل پر اپنا چہرۂ مبارک لے کر طلوع ہونا ہے، وہ اگر اپنے ضمیر کی حفاظت بھی نہ کریں تو اور کیا کریں۔ معصوم اور فرشتہ صفت لوگ جنہیں پیسے کے زور سے ورغلایا گیا تھا، فراڈ کا علم ہوتے ہی اُس بچے کی طرح چینل سے نکل بھاگے ہیں جو اغواء کاروں کے چنگل سے موقع پاتے ہی نکل آتا ہے۔ میں ابھی اس کشمکش میں تھا کہ شیدے کا ایک اور سوال میری سماعتوں سے ٹکرایا۔۔۔’’بابو جی کیا اب بول شروع نہیں ہوگا۔‘‘ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں صاف لگتا تھا کہ وہ انکار نہیں سننا چاہتا۔ میں اس بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتا شیدے، لیکن میری خواہش ضرور ہے کہ بول چینل اپنی نشریات کا آغاز کرے۔ میں نے دیکھا کہ میرے اس جواب سے شیدے کو تھوڑا سکون ملا ہے۔ جیسے اس کے دل کی بات کہہ دی ہو۔ میں نے کہا شیدے اب سبزی دے دو، دیر سے لے کر گیا تو بیگم کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ شیدے نے یہ سن کر ایک قہقہہ لگایا، ’’بابو جی آپ بھی کمال کرتے ہیں یہاں لوگ سرعام جھوٹ بولنے کے باوجود ڈھٹائی سے ٹی وی پر اپنا منہ دکھاتے ہیں۔ آپ بیگم کو دکھانے سے ڈرتے ہیں۔‘‘ شکر ہے اُسی وقت دو گاہک اور آ گئے، جن میں ایک خاتون بھی تھی، شیدے نے اُن کی وجہ سے مجھے جلدی سبزی دی اور میں گھر آ گیا، جہاں ٹی وی پر بریکنگ نیوز چل رہی تھی، بول سے استعفے دینے والے ’’با ضمیر‘‘ صحافیوں کی تعداد 8 ہو گئی، میں نے شکر ادا کیا کہ تعداد بڑھ رہی ہے وگرنہ بے ضمیری تو ہمیں لے ڈوبتی۔