معاشرے کے اخلاقی زوال میں پولیس کا کردار
خیبر پختون خوا کی ابھرتی ہوئی پولیس فورس نے ستائیس اکتوبر دوہزار سترہ کی صبح درابن تحصیل کے مضافاتی گاؤں گرہ مٹ میں مسلح افراد کی درندگی کا نشانہ بننے والی 16سالہ دوشیزہ شریفاں بی بی کے مقدمے کی تفتیش ’’مکمل‘‘ کر کے چالان داخل عدالت کر دیا۔ بدقسمتی سے پولیس کی مصنوعی ساکھ کو بچانے کی تگ و دو میں اعلیٰ پولیس افسران نے زندہ حقائق کو جھٹلا کر معصوم بچی کی مظلومیت کو ٹھکرانے میں نہایت بے رحمی کا مظاہرہ کیا۔ایس ایچ او سے لے کر آئی جی پی تک پوری چین آف کمانڈ نے اپنی صلاحیتوں کو اس مقدمے کو ہمیشہ کے لئے دفن کرنے پر صرف کر کے روایتی بے حسی کو برقرار رکھا،افسوس کہ پولیس اگر یہی توانائی مظلومہ کو انصاف دلانے پر خرچ کرتی تو پولیس کی نیک نامی میں اضافے کے علاوہ معاشرے کو صحت مند پیغام ملتا اور یہی مثبت طرز عمل اجتماعی حیات کو متوازن بنانے کا وسیلہ بھی بن سکتا تھا، بلکہ پولیس اگر سماجی نوعیت کے اس مقدمے میں حقائق کو مسخ نہ کرتی تو پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی کے مابین نہ تو کوئی سیاسی تنازعہ ابھرتا نہ صوبائی حکومت کی ساکھ داؤ پر لگتی، مگر افسوس کہ تمام تر دعوؤں کے باوجود پولیس ابھی تک مقدمے کے مرکزی ملزم سجاول کو پکڑ سکی نہ مال مقدمہ کی برآمدگی ممکن بنانے میں کامیاب ہوئی۔ یہ بات نہیں کہ پولیس مفرور ملزم کو پکڑ نہیں سکتی یا انوسٹی گیشن والوں کے لئے مال مقدمہ کی برآمدگی کوئی مشکل کام تھا، بلکہ پولیس اہلکار شعوری طور پر اس واقعہ کو دفن کرنے پر کمر بستہ رہے۔
تفتشی عملہ چاہتا تو بچی کے پھٹے ہوئے کپڑے،پانی کا جری کین، قینچی، واردات میں استعمال ہونے والی موٹر سائیکل اور وہ ویڈیو بھی برآمد کر سکتا تھا جو ملزم سعداللہ کے بیٹے نے بنائی، مگر وہ قصداً اپنے جانبدار اصولوں کے ذریعے شرف آدمیت کو مجروح رکھنے میں مشغول رہے۔ممتاز قانون دان اور انسانی حقوق کے کارکن قاضی انور ایڈووکیٹ نے پشاور ہائی کورٹ میں مرکزی ملزم سجاول کی گرفتاری کے علاوہ شریفاں بی بی کی برہنہ ویڈیو کی برآمدگی کے لئے رٹ درخواست دائر کی جسے عدالت عالیہ نے سماعت کے لئے منظور کر لیا۔امر واقعہ یہ ہے کہ پہلے سات دنوں تک تو پولیس اس ہولناک سانحہ کو کنفیوژ کرنے اور مظلوم لڑکی کے اکلوتے بھائی پر جوابی ایف آئی آر کے ذریعے متاثرہ خاندان کو صلح و صفائی کی راہ اپنانے پر مجبور کرتی رہی۔ 28 اکتوبر کو ہی مظلوم بچی کے بھائی ساجد نے ایک تحریری درخواست کے ذریعے آئی جی پی سے ایس ایچ او کی طرف سے مقدمے سے دستبرداری کے لئے دباؤ ڈالنے کی شکایت کرتے ہوئے جوڈیشل انکوائری یا پھر جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے ذریعے تحقیقات کرانے کی اپیل کر دی تھی، لیکن ایک طے شدہ پالیسی کے تحت آئی جی پی نے مظلوم کی التّجاؤں کو درخور اعتناء نہ سمجھا۔باخبر ذرائع بتاتے ہیں کہ گیارہ نومبر کو انسپکٹر جنرل آف پولیس اصلاح الدین خان جب محسود سٹوڈنٹ ویلفیئر سوسائٹی کی ٹیلنٹ ایوارڈ تقریب میں شرکت کے لئے تین روزہ نجی دورے پر ڈی آئی خان آئے تو ان کے شیڈول میں گرہ مٹ کا وزٹ شامل تھا، لیکن مقامی پولیس کی بریفنگ کے بعد بوجوہ انہوں نے پروگرام تبدیل کر کے اس سانحہ کی حقیقت سے آنکھیں دوچار کرنے سے گریز کرکے مظلوموں کو منفی پیغام دیا، اگر آئی جی پی گاؤں چلے جاتے تو وقوعہ کے سینکڑوں عینی شاہدین انہیں حقیقت حال سمجھانے میں کامیاب ہو جاتے۔حقیقت کے کسی بھی متلاشی کے لئے یہ کافی ہوتا ہے کہ وہ ان مشاہدات کو حقیقی سمجھے جن کے متعلق مختلف لوگ ایک سی شہادت دیں، کیونکہ حقیقت اجتماعی طور پر مربوط احساس ہے، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پولیس کمانڈ حقائق سے آنکھیں چرانا چاہتی ہے۔ستم ظریفی کی انتہا دیکھئے کہ اس موقعہ پر آئی جی پی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے، پہلی بار اس سانحہ کے وقوع پذیر ہونے پر شبے کا اظہار کرتے ہوئے روایتی لب ولہجہ میں ڈی آئی جی سید فدا حسین شاہ کو لڑکی کو برہنہ کرنے کے کیس کی گہرائی میں ’’تحقیق ‘‘کرنے کا حکم دے کر معاملہ کو مشکوک بنا کر لاشعوری طور پر ملزموں کو فائدہ پہنچایا،اگر معاملے کی گہرائی میں تحقیق کرنا باقی تھا تو جناب! آئی جی پی صاحب، آپ نے سانحہ کے وقوع پذیر ہونے کا انکارکن معلومات کی بنا پر کیا؟
افواہ یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پرویز خٹک گرہ مٹ آ کر مظلوم لڑکی کے سر پر چادر ڈالنا چاہتے تھے، لیکن پولیس کی اعلیٰ کمانڈ نے ان کے ارادوں کو متزلزل کیا۔سچ تو یہ ہے کہ ایس پی انوسٹی گیشن ثناء اللہ مروت نے گاؤں پہنچ کر جب لوگوں کی شہادتیں ریکارڈ کرنا چاہیں تو اس موقعہ پر متاثرہ خاندان اور عینی شاہدین نے ایس ایچ او اور تفتشی عملے کی جانبداری پہ سوالات اٹھائے تو اعلیٰ افسران کے سامنے برہنگی کے ارتکاب سے مسلسل انکار کرنے والے ایس ایچ او نے میڈیا اور مجمع عام کے سامنے شریفاں بی بی کو برہنہ کر کے گلیوں میں پریڈ کرانے کا حلفاً اعتراف کر لیا،ایس ایچ او بشارت نے متاثرہ لڑکی کے بھائی کے خلاف درج جھوٹی ایف آئی آر منسوخ اور شریفاں بی بی کے مقدمے میں 354-A کی دفعات کے اضافے کا اعلان کر کے بالواسطہ طور پر جانبداری کے الزام کو قبول کر لیا، لیکن اس کے باوجود پندرہ روز تک اسی ایس ایچ او کو اس تھانے میں فائز رکھاگیا اور پولیس نے قصداً متنازعہ انوسٹی گیشن انچارج سب انسپکٹر چن شاہ سے ہی تفتیش مکمل کرائی،بعدازخرابی بسیار چودہ نومبر کو ڈی پی او نے ایس ایچ او بشارت کو تبدیل کر دیا، لیکن انوسٹی گیشن کرنے والا وہ سب انسپکٹر چن شاہ اب بھی بدستور اپنے منصب پر براجمان ہے، جس نے دانستہ ملزمان سے لڑکی کے پھٹے کپڑے، قینچی،جری کین اور وہ موٹرسائیکل برآمد نہیں کی جو واقعاتی شہادت کے طور پر مال مقدمہ بن سکتی تھی۔
حیران کن بات یہ ہے کہ جب یہ ثابت ہو گیا کہ مظلوم لڑکی کے بھائی ساجد کے خلاف درج ایف آئی آر نمبر 209 جھوٹی تھی تو پولیس افسران نے بے گناہ پر غلط مقدمہ درج کرنے والے ایس ایچ او کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی اور متنازعہ انوسٹی گیشن انچارج کو تبدیل کیوں نہیں کیا گیا؟ میڈیا کے دباؤ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے تنقید کے بعد عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی خاطر مبینہ طور پر ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف ایس پی رورل کی سربراہی میں کوئی خانہ زاد انکوائری شروع کرائی گئی، لیکن ملوث پولیس اہلکار مدعی پارٹی پر جانبداری کا الزام واپس لینے کے لئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔مظلوم لڑکی کی والدہ نے تفتیش کی نگرانی پر مامور ڈی آئی جی ڈیرہ اسماعیل خان رینج سید فدا حسن سے درخواست کی کہ وہ سچ تک پہنچنے کی خاطر وقوعہ کے روز ملزمان اور ایس ایچ او کے درمیان ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو کا ریکارڈ حاصل کریں، اگر پولیس نے ملزم سجاول،انوسٹی گیشن انچارج چن شاہ اور ایس ایچ او کا موبائل فون ڈیٹا حاصل کر لیا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا، لیکن پولیس کمانڈ مظلوموں کی ہر پکار کو سنا اَن سنا کرنے کا تہیہ کئے بیٹھی ہے،گویا پولیس اس مقدمے کی درست تفتیش کا ارادہ ہی نہیں رکھتی اور پوری سوسائٹی پولیس کے ارادوں سے ٹکرانے کی جسارت کر رہی ہے۔پولیس نے مال مقدمہ برآمدکئے بغیر عجلت میں تفتیش ’’مکمل‘‘ کرکے اس اذیت سانحہ کو عدالتی فائلوں میں دفن کر دیا، جس کے خلاف سنیچر کے روز ڈسٹرکٹ بار کے وکلاء نے ہڑتال کی کال دے کر عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کر کے پولیس کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی۔پولیس کی اسی حکمت عملی کے نتیجے میں اس قضیہ میں این اے 25 ڈیرہ اسماعیل خان کم ٹانک سے تحریک انصاف کے ایم این اے داور کنڈی نے صوبائی وزیر مال علی امین گنڈہ پور پر ملزمان کی پشت پناہی کے الزامات عائد کر کے نیا تنازعہ کھڑا کردیا۔
پندرہ دن بعد علی امین نے گرہ مٹ جا کر مظلوم بچی کے سر پہ ہاتھ رکھ کے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی کوشش کی، لیکن دوسرے ہی دن صوبائی وزیر کے اسی رشتہ دار، اسماعیل گنڈہ پور، نے ملزم فیملی کے ہمراہ پریس کانفرنس کر کے علی امین کی مساعی پر پانی پھیر دیا،پہلے بھی اسماعیل گنڈہ پورکی طرف سے ملزمان کی اعلانیہ حمایت کے باعث علی امین پر ملزمان کی پشت پناہی کا الزام لگا،اب اس تنازعہ نے پی ٹی آئی میں تفریق کی لکیرمزید گہری کر دی۔پارٹی چیئرمین عمران خان نے معاملے کی تحقیق اوروقوعہ کی سنگینی کا احساس کئے بغیر علی امین کو کلین چٹ اور داور کنڈی کو جھوٹا کہہ کر پارٹی سے نکالنے کا اعلان کرکے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا پول کھول دیا۔عمران خان اس انسانی المیے کو خلق خدا کی آواز کے ذریعے سمجھنے کی بجائے پولیس کی جانب سے فراہم کردہ مبینہ معلومات پر بھروسہ کر کے سیاست کے ساتھ اپنی اخلاقی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پولیس نے سرکاری ریکارڈ میں اس سانحہ کو درست قرار دینے کے باوجود عدالتوں کو ثبوت مہیا کرنے سے پہلوتہی برتی۔اعلیٰ پولیس افسران متاثرہ خاندان اور عوام کے سامنے اسے انسانیت سوز واقعہ قرار دے کر آنسو بہاتے ہیں، لیکن عمران خان اور وزیراعلیٰ کو بھجوائی گئی رپورٹس میں سانحہ گرہ مٹ کو مشکوک واقعہ بتاکر انہیں کنفیوژکرنے کی کوشش کرتے ہیں،برہنگی کیس کے چار ملزمان نے عدالت کے روبرو اعتراف جرم کر لیا، لیکن پھر بھی آئی جی پی لڑکی کو عریاں پریڈ کرانے جیسے واقعہ پر یقین نہیں کرتے۔پولیس کی اعلیٰ کمانڈ ہی عمران خان اور وزیراعلیٰ کی توجہ سانحہ گرہ مٹ کی طرف پلٹنے نہیں دیتی۔انتہائی باخبر ذرائع بتاتے ہیں کہ ملزموں کی اعلانیہ حمایت کرنے والے اسماعیل گنڈہ پور کے پیچھے بھی علی امین گنڈہ پور نہیں، بلکہ پولیس کے کچھ عالی دماغ افسران ہیں۔