بنئے کی خباثت اور ملت اسلامیہ کا انتشار!
بھارت میں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی بنیادی طور پر ایک ہندو انتہا پسند جماعت ہے۔ گزشتہ ملکی انتخابات سے قبل نریندر مودی جیسے خونخوار درندے کو جس انداز میں وزارت عظمیٰ کے لئے میدان میں اتارا گیا اس کے پیچھے بھی ایک لمبی کہانی ہے۔ عالمی قوتیں پورے عالم اسلام میں افراتفری، انتشار اور طوائف الملوکی کی کیفیت مسلط کرنے کا ایجنڈا پورا کررہی ہیں۔ پاکستان اپنی ساری کمزوریوں کے باوجود عالم کفر کی آنکھوں میں کانٹا بن کر کھٹک رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان دنیا کی واحد مسلمان ریاست ہے، جو ایٹمی قوت ہے۔ دوسرے پاکستان نے ہمیشہ اسرائیل کے معاملے میں قائداعظمؒ کے دیئے ہوئے لائحہ¿ عمل کے مطابق جرا¿ت مندانہ موقف اختیار کیا ہے۔ اسی بنا پر پاکستان کو زک پہنچانے کے لئے عالمی قوتیں ہمیشہ بھارت کی پیٹھ ٹھونکتی رہی ہیں۔ حال ہی میں بھارت، امریکہ معاہدات، درحقیقت پاکستان کے لئے ایک وارننگ تھے۔ نریندرمودی نے اقوام متحدہ سے واپس آنے کے بعد پاکستان کی ورکنگ با¶نڈری اور کشمیر میں خط متارکہ¿ جنگ پر بلااشتعال شدید گولہ باری شروع کردی۔ یہ سلسلہ دن بدن بڑھتا چلا گیا جو ہنوز جاری ہے۔
ان حالات میں پاکستان کی تمام دینی، سیاسی اور سماجی قوتوں کو اپنے اندرونی اور داخلی اختلافات وقتی طور پر ہی سہی، مکمل طور پر فراموش کردینے چاہئے تھے۔ ان تمام قوتوں کو مل کر بھارتی جارحیت کے مقابلے پر ایک متفقہ قومی موقف اپنانا چاہیے تھا۔ افسوس کی بات ہے کہ اب تک اس کا کوئی اہتمام نہیں ہوپایا۔ دوسری جانب حکومت نے بھی مودی سرکار کی جارحیت کے مقابلے پر بودی سرکار ہونے کا تاثر قائم کیا ہے۔ بھارت کے ساتھ تجارت کے شوق میں اپنے دفاع اور سالمیت کو نظرانداز کرنا بہت بڑی غلطی ہے، جسے تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اس سے قبل بھارت پاکستان کے خلاف کئی جنگیں لڑ چکا ہے۔ 65ءکی جنگ میں پوری قوم یکسو اور یک زبان تھی۔ اندرونی اختلافات کو جذبہ حب الوطنی کے تحت پسِ پشت ڈال کر پاکستانی قوم مسلح افواج کی پشت پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہوگئی۔ یہی وجہ تھی کہ بھارت کو ہم نے ناکوں چنے چبوادیئے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں ہمارے حکمران سفارتی میدان اور مذاکرات کی میز پر مات کھا گئے۔
آج اس لمحہ¿ موجود میں بھی تمام جماعتوں بشمول پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف کو اپنے ایجنڈے کو کچھ دیر کے لئے موخر کرکے بھارتی جارحیت کے مقابلے پر اپنا قومی فرض ادا کرنا چاہیے۔ جنرل محمد ایوب خان جب اکتوبر1958ءمیں برسراقتدار آئے تو تمام سیاسی پارٹیوں پر پابندی لگا دی۔ بعد میں یہ پابندی جب ہٹی تو سب سے پہلے جماعت اسلامی میدان میں اتری۔ کچھ عرصے کے بعد ایوب حکومت نے جماعت اسلامی پر پھر سے پابندی لگا دی اور امیر جماعت مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ سمیت مرکزی شوریٰ کے تمام ارکان کو جیل میں ڈال دیا۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں کیس لڑنے کے بعد 25ستمبر1964ءکو جماعت اسلامی پر پابندی کا آمرانہ فیصلہ سپریم کورٹ سے کالعدم قرار پایا اور جماعت اسلامی عدالتی فیصلے کے نتیجے میں بحال ہوگئی۔ اس کے بعد 9اکتوبر1964ءکو ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق مولانا مودودی اپنے ساتھیوں سمیت رہا کردیئے گئے۔
ایوب خان کی ان انتقامی کارروائیوں کے باوجودمولانا اور ان کی جماعت نے دفاعِ وطن کے لئے یہ سب مظالم فراموش کرکے اپنی خدمات پیش کیں۔ اگلے سال یعنی 1965ءمیں جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو صدر محمد ایوب خان نے کلمہ طیبہ پڑھ کر جہاد کے نام پر پوری قوم سے امداد مانگی۔ مولانا مودودی تمام تلخیوں کو فراموش کرکے اس عظیم مقصد کے لئے میدان میں اترے۔ انھوں نے ایوب خان سے ملاقات بھی کی اور ان کے اعلان جہاد کی تحسین بھی فرمائی۔ پھر صدر صاحب ہی کی درخواست پر مولانا نے ریڈیو پاکستان سے جہاد اور دفاع وطن کے موضوع پر 14، 16اور 18ستمبر1965ءکو وہ معرکہ آرا خطاب فرمائے جو گھر گھر میں سنے گئے۔ ہفت روزہ ”آئین“ لاہور نے اپنی اشاعت 23ستمبر1965ءمیں یہ تینوں خطاب شائع کیے۔ (بحوالہ خطابات سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ، جلد چہارم، زیرطبع ادارہ معارف اسلامی،لاہور)۔
آج بھی سیاسی اور مذہبی راہنما¶ں کو اسی جذبے کے ساتھ دفاع پاکستان کے لئے اپنی خدمات پیش کردینی چاہییں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جن امور ومعاملات پر اختلاف رائے ہے ان کو کالعدم قرار دے دیا جائے۔ جب حالات نارمل ہوجائیں تو پھر سے اپنے مطالبات پر تحریک اور جدوجہد ہر جماعت کا حق ہے۔ ہمیں قومی وملی مسائل پر یک زبان ویک جان ہو کر کھڑے ہونا چاہیے۔ واضح رہنا چاہیے کہ کشمیر کے بغیر پاکستان غیرمکمل ہے۔ مسئلہ کشمیر جب تک حل نہیں ہوتا دوستی کے کتنے ہی دعوے کیے جائیں اور مصنوعی انداز میں جو کارروائیاں بھی ڈالی جائیں اس خطے میں مستقل امن قائم نہیں ہوسکتا۔ مودی پاکستان ہی نہیں بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کا بھی دشمن ہے۔ گجرات کے فسادات اب تک مسلمانوں کو اچھی طرح سے یاد ہیں۔ وہ سب اسی درندے کی کارکردگی تھی۔ امریکہ کی منافقت اور دوغلی پالیسی دیکھیے کہ ایک جانب مودی قاتل اور مجرم کی حیثیت سے امریکی ویزے سے بھی محروم کردیا گیا تھا۔ دوسری جانب بطور وزیراعظم بھارت اس کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ صدر اوبامہ نے اس کی بڑی توقیر وتکریم کی اور پھر بھارت کے ساتھ وہ معاہدے کیے جن سے شہ پاکر مودی نے سرحدوں پر جارحیت شروع کررکھی ہے۔ پوری اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ ہمارا دشمن ہمیشہ اس تاک میں رہتا ہے کہ جب ہم آپس میں ایک دوسرے سے دست وگریباں ہوںتو وہ ہمارے اس انتشار سے فائدہ اٹھا کر ہم پر حملہ آور ہوجائے۔ سقوط غرناطہ اور سقوطِ بغداد سے لے کر سقوطِ سرنگاپٹم اور سقوطِ ڈھاکہ تک اندرونی خلفشار اور ہماری اپنی صفوں میں گھسے ہوئے دشمن کے ایجنٹ، ابن علقمی، میرجعفر ومیرصادق اور شیخ مجیب ہی دشمن کی کامیابی کا ذریعہ بنے ہیں۔
آج وقت آگیا ہے کہ ہم تاریخ سے سبق سیکھیں۔ اگر ہم آج بھی ان بحثوں میں الجھے رہے جن کے نتیجے میں اتحاد کی بجائے انتشار پھیلے تو پھر دشمن کا کام آسان ہوجائے گا۔ ہمیں قومیتوں اور مسلکوں سے بالاتر ہو کر خود کو مسلمان بنانا چاہیے، یہی ہماری پہچان ہے، یہی پاکستان کی نظریاتی اساس ہے۔ ہم سب کو مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لینا چاہیے اور اللہ کی رسی جسے حبل اللّٰہ کہا گیا ہے، قرآن مجید ہے۔ اقبالؒ نے ”جوابِ شکوہ“ میں کتنے دردِ دل کے ساتھ اُمت کو متوجہ کیا تھا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے یہ اشعار آج ہمارے لئے بھی بالکل تازہ ہیں۔
وضع میں تم ہو نصاریٰ ، تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود!
یوں توسیّد بھی ہو ، مرزا بھی ہو ، افغاں بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو ، بتا¶ تو مسلماں بھی ہو
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر