کتابوں کی دنیا سے
خواتین و حضرات! کتاب انسانی زندگی کے ساتھ چلتی ہے اور قدیم زمانے سے چلتی آئی ہے۔ جب سے لکھنے لکھانے کا کام شروع ہوا ہے، کتاب انسان کی بہترین دوست اور ساتھی رہی ہے، مگر آج کے اس کمپیوٹر اور موبائل فون کے دور میں ہم کتابوں سے بہت دور ہو گئے ہیں۔
اس میں جہاں اس ٹیکنالوجی کا عمل دخل ہے، وہاں کتابوں کے ناشرین اور پبلشرز کا حصہ بھی ہے، جنہوں نے کتابوں کی قیمتیں اس قدر بڑھا دی ہیں کہ اب یہ عام پڑھنے والوں کی دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ شاید آپ مجھ سے اتفاق کریں کہ کتابیں پڑھنے کے شوقین اور اہل ذوق جو ہیں ان کی اکثریت مہنگی کتابوں کو خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی اور جو صاحبِ استطاعت ہیں، ان کی ترجیح میں کتاب خریدنا یا پڑھنا بہت کم ہے۔ لوگ ایک وقت میں پانچ ہزار کا کھانا کھا جائیں گے، لیکن پانچ سو کی کتاب نہیں خریدیں گے۔
کتابوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے حوالے سے ہمارے بھی کچھ تحفظات، کچھ دکھ اور المیے ہیں، جن کو اس کالم کے ذریعے قارئین کی نذر کر رہے ہیں۔ اس سے ہماری طرح کے بہت سے ایسے لوگ، جو مطالعہ کا شوق اور ذوق رکھتے ہیں، مگر استطاعت نہیں رکھتے، ان کا بھی بھلا ہو جائے گا۔۔۔ہمارے بعض ناشرین نے کتابوں کی اشاعت اور فروخت کو ایک منافع بخش کاروبار کے طور پر لیا ہے،نا کہ ادب کی ترقی و فروغ۔ ان کا مقصد و مدعا مہنگی مہنگی کتابیں چھاپ کر دھڑا دھڑ منافع کمانا ہے۔گویا پیاز کی آڑھت نہیں، کتابوں کی اشاعت ہی سہی، مقصد تو پیسہ کمانا ہے۔
گزشتہ دنوں ہم نے ایک اخبار میں اختر وقار عظیم کی کتاب ’’ہم بھی وہیں موجود تھے‘‘ پر تبصرہ پڑھا۔ اس قدر دلچسپ تھا کہ کتاب خریدنے کے لئے چلے گئے،مگر کتاب کی قیمت دیکھ کر واپس پلٹ آئے اور وہاں سے سیدھے انار کلی اور گورنمنٹ کالج کے درمیان فٹ پاتھ پر لگے پرانی کتابوں کے ’’اسٹال‘‘ پر جا پہنچے۔ یقین کریں ہمیں یہاں سے اس کتاب کی قیمت سے آدھی رقم پر آٹھ دس کتابیں مل گئیں، جن میں مختار مسعود کی ’’آوازِ دوست‘‘ بھی شامل تھی۔ یہاں سے کتابیں خریدنے کا ہمارا یہ پہلا تجربہ نہیں تھا، بلکہ کالج کے زمانے سے یہاں پر بہنے والے علم و ادب کے سمندر سے سیراب ہوتے آئے ہیں۔
یہاں پر آپ کو اردو اور انگریزی میں ایسی ایسی نایاب کتب، تقریباً ہر موضوع پر نہایت سستی قیمت میں مل جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہر اتوار کو نیلا گنبد کی جانب مال روڈ پر، پاک ٹی ہاؤس کے پاس پرانی کتابوں کا میلہ لگتا ہے۔یہاں ہم اکثر اپنے علم دوست ساتھی ڈاکٹر ارشد علی کے ساتھ کتابیں چھانٹتے ہیں، خریدتے ہیں اور پھر پاک ٹی ہاؤس میں بیتھ کر اپنے اس خزانے پر تبصرہ کرتے ہیں۔لاہور میں کتابوں کی نمائش اور میلے بھی ایک ایسا ذریعہ ہیں، جہاں سے آپ قدرے سستی کتابیں خرید سکتے ہیں۔ یوں بھی یہ موقع ایک صحت مند ادبی تفریح کا وسیلہ بن جاتا ہے۔ یہاں ہم اپنی دختر نیک اختر کے ساتھ جاتے ہیں کہ اس نسل کا کتابوں سے رابطہ جڑا رہے، ورنہ تو ’’حضرت موبائل اور کمپیوٹر‘‘ نے آج کی نسل کو اردو ادب اور کتاب سے بہت دور کر دیا ہے۔
آپ کو یاد ہو گا جب ماہنامہ ’’قومی ڈائجسٹ‘‘ شروع ہوا تو ابتدائی برسوں میں اس میں کسی ایک معروف کتاب کو مکمل طور پر شائع کیا جاتا تھا۔ مثلاً ’’مَیں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ از صدیق سالک ، ہم نے اسی میں پڑھی اور آج تک ہمارے ’’کتاب خزانہ‘‘ میں محفوظ ہے۔ یہ سلسلہ ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ اور ’’سیارہ ڈائجسٹ‘‘ میں بھی جاری رہا، جہاں ہم نے قدرت اللہ شہاب کے شہاب نامہ کے ابتدائی ابواب پڑھے جو بعدازاں کتابی شکل میں شائع ہوئی۔ یہ سلسلہ اب ختم ہوتا محسوس ہو رہا ہے، تاہم ان ڈائجسٹوں نے نامور کتابوں کے تراجم بطریقہ تلخیص شائع کئے، جو کسی خزانے سے کم نہیں۔
یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، جس سے ہم نے خوب استفادہ کیا۔البتہ، اللہ بھلا کرے آغا امیرحسین صاحب کا جو ایک طویل عرصے سے معروف کتابوں اور کتابوں کے تراجم اپنے ماہنامہ ’’سپوتنگ ‘‘ میں شائع کر رہے ہیں۔ شمارے کی قیمت بھی بہت کم ہے اور پرنٹنگ کا معیار بھی بہتر ہے۔ ’’سپوتنگ‘‘ ہمارے مہنگے پبلشرز کے لئے ایک زندہ مثال ہے کہ کتاب مناسب قیمت پر بھی شائع کی جا سکتی ہے۔ ہم نے ’’سپوتنگ‘‘ میں بہت سی نایاب کتب پڑھی ہیں، بالخصوص انگریزی کتابوں کے تراجم ایک قیمتی خزانہ ہیں۔ یہاں کوئی موازنہ کرنا مقصود نہیں،بلکہ ایک خیال ظاہر کرنا مطلوب ہے کہ یوں بھی ہو سکتا ہے۔
قیمتی کتابوں کی اشاعت ناشرین کی کاروباری مجبوری ہوگی اور یہ ان کی صوابدید بھی ہے ، ان کا حق بھی، مگر ان کتابوں کا عام قاری کی دسترس سے نکل جانا بھی اپنی جگہ ایک المیہ ہے۔ خاص طور پر ان حالات میں جب آج کی نسل کتابوں،بالخصوص ادبی کتب سے دور ہوتی جا رہی ہے تو ایسی صورت میں زیادہ ضروری ہے کہ نامور ادیبوں، شاعروں، تاریخ دانوں، دانشوروں کی تخلیقات کو عام کرنے کے لئے سستے کاغذ پر کم قیمت میں شائع کیا جائے۔
ہمیں یاد ہے کہ ہمارے طالب علمی کے زمانے میں فیروز سنز، غلام علی اینڈ سنز، شاہکار وغیرہ سستی کتابیں شائع کرتے تھے۔ سید قاسم محمود نے یہ سلسلہ بڑی کامیابی سے جاری رکھا تھا۔ ہم نے ابن انشاء، ممتاز مفتی، اے حمید، نواز اور دیگر ادیبوں کی کتابیں A-4 سائز میں بہت ہی کم قیمت پر خرید کر پڑھی ہیں۔
خواتین و حضرات! البتہ ہم مجلس ترقی ادب، ادارہ ادبیات پاکستان ،ادارہ ثقافت اسلامیہ اور دیگر سرکاری سرپرستی میں چلنے والے پبلشنگ ہاؤسز کی خدمات کو سراہتے ہیں جو نہایت سستی کتابیں چھاپ رہے ہیں۔ آخری بات اگر اشفاق احمد کا کوئی عاشق ’’زاویہ‘‘ ’’تو تاکہانی‘‘ تلقین شاہ‘‘وغیرہ پڑھنا چاہے تو اسے این جی او کی طرح کوئی ڈونر تلاش کرنا ہوگا۔ مقامِ افسوس ہے کہ ہم نے لون کے سوٹ، جدید کاروں، ایل سی ڈی ٹیلی ویژن، مکان پلاٹ کی طرح کتابوں کو بھی سجا کر اس کی قیمتیں اتنی بڑھا دی ہیں کہ عام قاری اسے صرف دیکھ سکتا ہے، خرید نہیں سکتا، بقول ابن انشا:
اس حسن کے سچے موتی کو، ہم دیکھ سکیں پر چُھو نہ سکیں!
جسے دیکھ سکیں پر چھونا نہ سکیں، وہ دولت کیا، وہ خزانہ کیا