کیا وہ وقت آگیا ؟

کیا وہ وقت آگیا ؟
 کیا وہ وقت آگیا ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جس طرح ایک غلطی بہت سی غلطیوں کو جنم دیتی ہے ٹھیک اسی طرح الزامات کا ’’کھیل‘‘ بھی بانجھ نہیں ہوا کرتا یہ بھی سچائی جنم دیتی ہے فرق صرف یہ ہے کہ یہاں پر وقوعہ یا بات کو سیاست کی بھینٹ چڑھاکر اس کی آڑ میں صاف نکل جاتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی سیاستدان بیٹی اور دو مرتبہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وزیراعظم رہنے والی محترمہ بے نظیر بھٹو سر عام قتل کر دی گئیں لیکن آج دس سال گزرنے کے باوجود یہ بات مخفی ہے کہ اصل قاتل کون ہے مجاز عدالت نے جو فیصلہ دیا پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بذات خود عدالت عالیہ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل میں چلے گئے ہیں جس میں انہوں نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو ذمہ دار قرار دیا ہے جس کے جواب میں جنرل (ر) پرویز مشرف پہلی مرتبہ کھل کر بولے ہیں اور کئی سوالات اور نکات اٹھائے ہیں جو شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں اور ان کے بارے میں وہ پہلے بھی متعدد مرتبہ مختلف اوقات میں واضح کرتے رہے ہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پیپلز پارٹی کو ملک میں حکومت کا موقعہ ملا جس کے نتیجہ میں سید یوسف رضا گیلانی وزیراعظم جبکہ بعد ازاں آصف علی زرداری صدر مملکت بن گئے جو ایک الگ داستان ہے اسی دوران سابق صدر پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر دے کر ایوان صدر اور پھر ملک سے ہی روانہ کر دیا گیا وہ برطانیہ چلے گئے اور خاموشی تیار کیے رکھی لیکن یہ خاموشی یکطرفہ نہیں تھی بلکہ فریق دوئم یعنی اقتدار کی مسند پر بیٹھی پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت بھی تھی انہوں نے بھی بوجوہ چپ کا روزہ رکھ لیا۔


صدر مملکت آصف علی زرداری نے اپنی بیوی اور پیپلز پارٹی نے اپنی قائد کے قتل پر حکومت کی ’’لذت‘‘ کو ترجیح دی۔ اس دوران پیپلز پارٹی کے حکومتی عہدیدار خود یہ مطالبہ کرتے رہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتل پکڑے جائیں مگر یہ معلوم نہیں کہ وہ مطالبہ کس سے کر رہے تھے۔ اس دوران سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف بھی بیرون ملک ہی قیام پذیر رہے اور مختلف تعلیمی اور دوسرے اداروں میں ریجنل سیاست پر لیکچر بھی بھاری معاوضہ لے کر دیتے رہے خصوصاً اس ریجن میں اس وقت دہشتگردی اور اس کے حل پر پوری دنیا کے ’’ خاص ادارے‘‘ خاصے متحرک تھے اور جو مختلف سکالرز کو بلا کر اس پر بات چیت کراتے اور یہ سمجھ لیتے تھے کہ اب مسئلہ کا حل نکل آیا ہے لیکن کبھی بھی ایسا نہ ہوا اور نہ ہی ہو پائے گا۔

عنوان چونکہ یہ نہیں‘ اس لیے جولائی 2009ء کی بات یاد آتی ہے جب راقم بھی لندن میں موجود تھا کہ دیرینہ دوست ملک مسعود جو اس وقت لندن کے ایک علاقے ’’ بارو‘‘ کے میئر تھے کا فون آیا کہ مانچسٹر سے پارلیمنٹ کے رکن خالد محمود کا پیغام آیا ہے جو انسداد دہشتگردی اور مذہبی ہم آہنگی کی کمیٹی کے چیئرمین بھی تھے کہ آج سہ پہر پاکستان کے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف ہاؤس آف کامن میں اس کمیٹی کے تحت پروگرام میں مہمان خصوصی ہونگے ہاؤس آف لارڈز اور کامن کے ارکان سے خطاب اور سوال و جواب کی نشست بھی ہو گی۔


لہٰذا ہم دونوں وقت مقرر پر پہنچ گئے پارلیمنٹ کے چھوٹے ہال میں دونوں ایوانوں کے ارکان اور کچھ عوام بھی موجود تھے جن میں زیادہ تعداد پاکستانیوں کی تھی اس دوران سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف اپنی سکیورٹی کے ہمراہ پہنچ گئے اور مخصوص نشست پر بیٹھ گئے ایم پی خالد مسعود نے تقریب کا آغاز کیا اور مہمان کو گفتگو کی دعوت دی ان کی گفتگو اور لارڈز نذیر احمد کی چشم کشا گرم گفتگو پھر سہی تاہم اس دوران پیپلز پارٹی لندن کے ایک جیالے نے کھڑے ہو کر الزامات کی بوچھاڑ کر دی اور اسے واضح الفاظ میں جنرل (ر) پرویز مشرف کو محترمہ بے نظیر بھٹو کا قاتل قرار دیدیا کہ اس طرح کے الزامات تو ان کے عزیز رشتہ دار خصوصاً ’’شوہر‘‘ بھی نہیں لگا سکے تھے۔

لیکن ریٹائرڈ جنرل نے اس جیالے کے سوالات کا کوئی برا نہ منایا اور گلاس سے پانی کا ایک گھونٹ لے کر سوال کرنے والے سے پوچھا کہ کیا سوال ختم ہو گیا ہے تو گویا ہوئے کہ اس وقت وفاق میں حکومت آپ کی یعنی پیپلز پارٹی کی ہے صدر‘ وزیراعظم اور پوری کابینہ پیپلز پارٹی کی ہے اور جو تحقیقاتی ایجنسیاں ہیں وہ بھی انہی کے ماتحت ہیں لہٰذا آپ اپنی حکومت سے کہیں کہ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرائیں اور اگر اس میں میرا قصور بنتا ہے تو پھر میرا ٹرائل کریں اور مجھے سزا دلوائیں۔ جس پر خاموشی چھا گئی اور یہ خاموشی 2013ء تک رہی ان پانچ برسوں میں نہ تو کوئی تحقیقاتی کمیشن بنا اور نہ ہی ریٹائرڈ جنرل کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی گئی لیکن اب جبکہ عدالت نے فیصلہ دیدیا اور اس کی روشنی میں آصف علی زرداری اس فیصلے کے خلاف عدالت میں چلے گئے ہیں تو پھر واقعات کے مطابق ریٹائرڈ جنرل کے اٹھائے گئے سوالات یقیناً اہمیت رکھتے ہیں باقی سب اگر نظر انداز بھی کر دئیے جائیں تو یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ محترمہ کا جب قتل ہوا اس وقت جو لوگ گاڑی میں موجود تھے انہیں چشم دید گواہ کے طور پر عدالت میں کیوں نہیں بلایا گیا‘ عبدالرحمان ملک ہسپتال جانے کی بجائے اسلام آباد کیوں چلے گئے؟ سکیورٹی انچارج خالد شہنشاہ کے قاتل کو کس نے قتل کیا؟ ۔ اب بھی ناہید خان کی بات پر کیوں کان نہیں دھرے جاتے مرحومہ کی اصل وصیت کہاں اور کس کے پاس ہے اور مرحومہ کے انتہائی قریبی ساتھیوں ناہید خان اور ڈاکٹر صفدر عباسی سمیت دوسروں کو پارٹی سے کیوں الگ کر دیا گیا ہے۔


یہ سوالات عدالت عالیہ میں کوئی قانونی طور پر اٹھاتا ہے کہ نہیں مگر ریٹائرڈ جنرل بھی تمام ملبہ بیت اللہ محسود پر ڈالتے نظر آتے ہیں‘ جو اس وقت دنیا میں نہیں۔ لیکن انہیں شاید معلوم ہونا چاہیے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو پر 2007ء میں ایک ریلی کے دوران جب قاتلانہ حملہ ہوا تھا تو اس وقت تمام میڈیا سمیت طول و عرض میں شور مچ گیا تھا کہ طالبان پاکستان کے سر براہ بیت اللہ محسود محترمہ کو قتل کرنا چاہتے ہیں اور اس کی ایک وجہ یہ دی گئی کہ طالبان عورت کی حکمرانی کے خلاف ہیں لہٰذا وہ انہیں مستقبل میں پاکستان کی وزیراعظم نہیں دیکھنا چاہتے لیکن یہ سازشی تھیوری پیش کرنے والے شاید یہ بھول چکے تھے کہ افغانستان میں کیمونسٹ حکومت کے خلاف مذہبی و لارڈز کے سامنے لانے والے جنرل (ر) نصیر اللہ بابر 1993ء میں محترمہ کے وزیرداخلہ تھے جنہوں نے اپنے ہی بنائے ہوئے افغان وار لارڈز کے خلاف طالبان کھڑے کیے تھے وہ بھلا انہیں کیسے برداشت کر سکتے تھے اور پھر 2007ء میں کراچی کے قاتلانہ حملے کے بعد محترمہ نے اپنے انتہائی قریبی سیاسی رفیقوں جن میں سے زیادہ کا تعلق خبیر پختونخواہ سے تھا کو طالبان رہنما بیت اللہ محسود کے پاس بھجوایا کہ وہ ان سے استفسار کریں کہ وہ یعنی طالبان انہیں کیوں قتل کرنا چاہتے ہیں جس پر طالبان رہنما نے نہ صرف اس الزام اور بیان سے لا تعلقی کا اظہار کیا بلکہ محترمہ کو پیغام بھی دیا کہ طالبان کو ان کے وزیراعظم بننے سے کوئی اختلاف نہ ہے۔

اس بات کی راوی خود محترمہ ہیں اور آج بھی یہ بات ان کے متعدد قریبی دوستوں رفقاء سمیت ناہید خان اور ڈاکٹر صفدر عباسی کے علم میں بھی ہے۔ اب اگر دونوں سابق صدور محترمہ کے قتل کے حوالے سے جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ الزام تراشی تو ہو سکتی ہے سیاسی طور پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانا بھی ہو سکتا ہے اور عوام کو ایک اور ’’ٹرک کی بتی‘‘ کے پیچھے لگانا مقصود تو ہو گیا ہے لیکن اصل قاتل کی تلاش ہر گز نہیں ہو سکتی کیونکہ قاتل بھی انہی میں موجود ہونا چاہیے ۔

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
قتل کبھی بھی چھپ نہیں سکتا یہ وقت آنے پر سامنے آ کر بولتا ہے اور اب شاید وہ وقت آنے والا ہے۔

مزید :

کالم -