ٹرمپ کی جنگجوانہ پا لیسی

ٹرمپ کی جنگجوانہ پا لیسی
 ٹرمپ کی جنگجوانہ پا لیسی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

21اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں ایسی کو ئی نئی پالیسی نہیں دی جس سے 16سال سے جاری افغان جنگ کسی فیصلہ کن نتیجے پر پہنچتے دکھائی دے۔ٹرمپ نے جہاں ایک طرف یہ کہا کہ امریکی فوج زیادہ عرصے تک افغانستان میں نہیں رہے گی وہیں دوسری طرف وہ امریکی افواج کے انخلا کے حوالے سے واضح طور پر کوئی ڈیڈ لائن دینے میں بھی ناکام رہے۔ افغانستان میں مزید3900 فوجی بھیجنے کا اعلان کر کے ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کئے گئے وعدے سے مکمل طور پر انحراف کیا۔ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران افغان جنگ کو ایک بے مقصد جنگ قرار دیتے تھے،مگر اب ایسا دکھا ئی دے رہا ہے کہ ٹرمپ واضح طور پر امریکی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے سامنے جھکتے جا رہے ہیں۔ ٹرمپ کی اس پالیسی کو سیکرٹری دفاع جیمز میٹس اور مشیر برائے قومی سلامتی ایچ آر میک ماسٹرکی فتح قرار دیا جا رہا ہے، جو ٹرمپ کو مسلسل یہ با ور کر وا رہے تھے کہ امریکہ کو اپنی فوجی قوت کا بھرپور استعمال کرنا چاہئے۔ اب بنیا دی سوال یہی ہے کہ کیا افغانستان پر ٹرمپ کی پالیسی کے کو ئی مثبت اثرات مرتب ہوں گے یا نہیں؟ ٹرمپ کی افغان پا لیسی ایک ایسے وقت میں سامنے آ رہی ہے جب افغان طا لبان ملک کے 40فیصد حصے پر بالواسطہ یا بلاواسطہ کنٹرول رکھتے ہیں۔ اب افغان طالبان کی بغاوت شمالی افغانستان کے ان علاقوں تک بھی پہنچ رہی ہے جو کچھ عرصہ پہلے پُرامن تصور کئے جاتے تھے۔ ایسی صورت میں کیا 3900مزید فوجیوں کو افغانستان بھیجنے سے صورتِ حال کنٹرول میں آجا ئے گی؟افغان مسئلے کے حل کے لئے ٹرمپ نے ڈپلومیسی اور سیاسی آپشنز کو ترجیح نہیں دی۔افغان طا لبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے کھوکھلے دعوے ہی کئے جاتے رہے۔ ٹرمپ کی اس پالیسی کا ایک بڑا خطرنا ک پہلو یہ ہے کہ افغانستان پر ابہام پر مبنی پالیسی سے امریکہ نہ صرف خود افغان دلدل میں مزید دھنستا جائے گا بلکہ اس سے علاقائی کشید گی میں بھی اضافہ ہو جا ئے گا،جہاں ایک طرف بھارت کو افغانستان میں اہم کردار ادا کرنے کا کہا جا رہا ہے تو وہیں دوسری طرف افغانستان کے پڑوسی اور قریبی ممالک کو اس کا وش میں شامل کرنے کے حوالے سے کو ئی ٹھوس پالیسی وضع نہیں کی جا رہی۔بھارت جو خود ہزاروں طرح کے مسائل میں گھرا ہو املک ہے وہ کیسے افغانستان جیسے ملک کو جنگ کی دلدل سے با ہر نکال سکتا ہے؟


غیر حیران کن طور پر ٹرمپ نے پاکستان کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ایک طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا ذکر کیا تو اگلے ہی سانس میں کہا کہ امریکہ،پاکستان کو اربوں ڈالرز کی امداد دیتا ہے اس کے باوجود پاکستان دہشت گردوں کو پناہ دے رہا ہے اب یہ سلسلہ مزید نہیں چلے گا۔ٹرمپ سے پہلے بش اور اوباما بھی پا کستان سے ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کرتے تھے، مگر یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی امریکی صدر نے کھل کر پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے سنگین نتا ئج بھگتنے کی دھمکی دی ہے۔ٹرمپ نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ پا کستان کے خلاف کس قسم کی عسکری اور معاشی پابندیاں نافذ کر یں گے۔خود امریکی میڈیا کے سنجیدہ حلقے بھی یہ موقف رکھتے ہیں کہ پاکستان کو ایسی دھمکیاں دینے سے امریکہ کو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ پاکستان کی مکمل حمایت اسی صورت حاصل ہو سکتی ہے کہ جب امریکہ پا کستان کی قومی سلامتی کے مسائل کو تسلیم کرے ۔ٹرمپ کی پالیسی سے پاکستان کے لئے زیادہ مسائل پیدا ہونے کا اندیشہ اس لئے بھی ہے کیونکہ ٹرمپ نے بھارت سے افغانستان میں زیا دہ سے زیا دہ تعاون مانگا ہے۔پاکستان کے لئے بھارت کی جانب سے افغانستان میں معاشی اور سٹرٹیجک تعاون پہلے ہی تشویش کا باعث رہا ہے تا ہم ٹرمپ سے پہلے بش اور اوباما بھی کسی حد تک افغانستان کے معا ملے میں بھارت کے تعاون کے طلب گا ر رہتے تھے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بش اور اوباما اس حوالے سے پا کستان کی تشویش سے بھی آگا ہ تھے۔ اس سال مارچ میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل نے امریکی سینٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ پا کستان نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کا روائی بھی کی ہے۔ جوزف ووٹل نے یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ پا کستان کو تنہا کرنے کی بھارتی پالیسی سے اس خطے میں کشیدگی سنگین بھی ہو سکتی ہے۔


ٹرمپ کے پا لیسی خطاب سے یہ عندیہ مل رہا ہے کہ افغان طا لبان کے خلاف امریکہ پا کستان کے سرحدی علاقوں میں بھی کا رروائی کرے گا۔ پاکستانی علاقوں میں ایک مرتبہ پھر ڈرون حملوں کا سلسلہ بھی شروع ہو سکتاہے۔ایسا ہونے سے پاکستان میں امریکہ مخالف رویے میں مزید شدت آ جائے گی اور عوامی دباؤ کے پیش نظر پاکستانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی امریکہ کے خلاف پالیسی اپنانا پڑے گی۔ ریٹائرڈ امریکی جنرل مارک میکارلے ٹرمپ کے اس پالیسی خطاب کے بعد سی این این سے بات چیت کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ امریکہ افغانستان میں اپنی سپلائی لا ئن کے لئے ابھی بھی کا فی حد تک پا کستان پر ہی انحصار کر تا ہے اور اگر پا کستان کو دیوار کے ساتھ لگا یا گیا تو پا کستان 2011ء کی طرح امریکہ کی یہ سپلائی لا ئن بند بھی کر سکتا ہے۔ ٹرمپ کے پا کستان پر الزامات یقیناًامریکی بے حسی کا اظہار ہیں کہ ایک ایسا ملک جس نے دہشت گرد ی کے خلاف اتنی زیا دہ قربانیاں دی ہوں، ایسے ملک پر یوں الزام عائد کر کے اسے دھمکیاں دینا انتہائی غلط ہے، تاہم اس کا قطعی طور پر یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی غلطیوں کی نشا ن دہی نہ کریں ۔ کیا یہ ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی نہیں کہ سات ماہ کا عرصہ گزارنے کے باوجود پاکستان کی طرف سے ایسی کوئی سنجیدہ کو شش نہیں کی گئی کہ ٹرمپ انتظامیہ سے بامعنی بات چیت کر کے اس کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا جائے۔کیا ہماری سول اور ملٹری قیادت کی افغانستان کے حوالے سے کوئی ایک ٹھوس اور جامع پالیسی ہے؟ بظاہر تو ایسا ہی دکھائی دیتا ہے کہ افغانستان پر پاکستان کی پالیسی سرا سر ردعمل پر ہی مبنی ہے۔ہمیں اپنے گھر کو بھی بہتر کر نا ہو گا۔ اس سب کے ساتھ ساتھ دنیا کو یہ باور کروانے کی بھی ضرورت ہے کہ امریکہ افغانستان میں ایک ایسی جنگ لڑ رہا ہے جس کا کوئی حاصل نہیں ہے۔اکتوبر2001ء یعنی افغان جنگ کے آغاز سے اب تک 175,000افراد اس جنگ میں ہلاک ہو چکے ہیں اور لاکھوں لوگ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو ئے ہیں۔امریکہ نے اس افغان جنگ میں کئی طرح کے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔


نومبر2001ء میں مزار شریف میں800افغانوں کی ہلاکت،2002ء میں کاکارک میں ایک بارات میں شامل48افراد کی ہلاکت، 2015ء میں قندوز میں میڈیکل کے عملے کے 42افراد کی ہلاکت،اس سال اپریل میں ننگر ہار صوبے میں سب سے بڑے غیر ایٹمی ہتھیار کا حملہ۔۔۔ یہ سب افغانستان میں امریکہ کے جرائم کی صرف چند مثالیں ہیں۔ جنگی جرائم کے با وجود ابھی بھی یہ صورتِ حال ہے کہ 48 اضلاع کا براہِ راست کنٹرول طالبان کے پاس ہے، حکومت کے پاس100کے لگ بھگ اضلاع کا کنٹرول ہے، جبکہ با قی اضلاع ایسے ہیں جن پر کبھی حکومت اور کبھی طا لبان کا کنٹرول ہو جاتا ہے۔اس جنگ میں اتنے وسائل جھونکنے کے باوجود امریکہ جنگ کو جاری اس لئے رکھے ہوئے ہے، کیونکہ اس کا مقصد سامراجی ہے۔ ’’سی این بی سی‘‘ کی رپورٹ کے مطابق خود ٹرمپ نے چند ہفتے قبل اس تحقیق کا حوالہ دیا تھا جس کے مطابق افغانستان میں3کھرب ڈالر کے قدرتی ذخائر موجود ہیں۔امریکہ 2001ء سے اب تک افغانستان میں 714 ارب ڈالرز خرچ کر چکا ہے ۔ یوں امریکہ 714 ارب ڈالرکی سرمایہ کا ری کر کے 3کھرب ڈالر کے وسائل پر نظریں جمائے بیٹھا ہے،مگر شاید امریکہ کو اب تک پتہ نہیں چل رہا کہ وہ جس ملک کو اپنا مطیع کرنے کے درپے ہے، اسے سلطنتوں کا قبرستان کہا جا تا ہے۔

مزید :

کالم -