نیا سال، نئی سیاست

نیا سال، نئی سیاست
 نیا سال، نئی سیاست

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


دنیا آگے کا سفر جاری رکھتے ہوئے اپنا ایک اور سال ختم کرکے ایک نئے سال میں قدم رکھنے کو ہے۔ ہر سال کوئی نہ کوئی انہونی ہوجاتی ہے۔ اس سال بھی ایسے واقعات ہوتے رہے جن کا سال شروع ہوتے ہوئے تصور کرنا مشکل تھا۔ دنیا میں بھی ناقابلِ یقین واقعات ہوئے اور پاکستان میں بھی ،دوسری باتوں کے علاوہ سیاسی میدان میں بھی حیران کن واقعات ہوئے۔ 2016ء میں ایک اہم واقعہ یہ ہوا کہ امریکی عوام نے ایک ایسے ارب پتی شخص کو اپنا نیا صدر چن لیا جو سیاست کی بجائے اپنے وکھری ٹائپ کے بیانات کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ اس سال برطانوی عوام نے یورپین یونین سے نکلنے کا فیصلہ کیا جو متحدہ یورپ کے خواب کو چکنا چور کر گیا۔یوں تو سال بھر اہم ترین واقعات ہوتے رہے لیکن سال کے جاتے جاتے یہ روسی سفیر کا ترکی کے دارالحکومت میں قتل چھوڑ گیا۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو آنے والے وقت کی عالمی بساط کے مہرے ادھر ادھر کردے گا۔ دنیا کی طرح پاکستان میں بھی 2016ء کی سیاست پانامہ لیکس کے انکشافات کے گرد گھومتی رہی جس میں احتجاج، عدالت، پارلیمنٹ اور میڈیا سب ہی خوب حرکت میں نظر آئے۔ خیر، پانامہ سے 2016ء میں کچھ نہیں نکلا اور نہ ہی آئندہ کچھ نکلنے کی امید ہے اور اس کی حیثیت ایک داستان کی ہی رہے گی، جسے سیاسی مخالف اپنی تقریروں میں استعمال کیا کریں گے۔

پاکستان میں ایک اہم سیاسی واقعہ یہ ہوا کہ کراچی کی بڑی سیاسی قوت ایم کیو ایم تین حصوں میں تقسیم ہو گئی۔۔۔ ایم کیو ایم لندن، ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی۔۔۔ قائد ایم کیو ایم جو بلا شرکت غیرے ایک سیاسی حیثیت رکھتے تھے اب سب سے چھوٹے دھڑے کے قائد رہ گئے جس کی پاکستان میں طاقت نظر نہیں آتی، باقی دو دھڑوں کی قیادت فاروق ستار اور مصطفی کمال کے پاس چلی گئی۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کو اگرچہ بہت سے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ ان سے نمٹتے رہے جبکہ ان کے سب سے بڑے سیاسی مخالف عمران خان کا سیاسی سفر ہچکولے کھاتا ہوا نیچے کی طرف جاتا دکھائی دیا۔ 2016ء میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان سیاسی محاذ آرائی ہوتی رہی لیکن ایسا لگتا ہے کہ عمران خان 2017ء میں پہلے کی طرح تیز رفتار باؤلنگ نہیں کر سکیں گے ۔ پاکستانی سیاست کی تیسری بڑی قوت پاکستان پیپلز پارٹی دوبارہ سے گراؤنڈ کا رخ کرتی نظر آتی ہے جو 2006 ء میں کئے گئے میثاقِ جمہوریت کے بعد سے مسلم لیگ(ن) کے ساتھ باہم و شیر و شکر تھی۔سابق صدر آصف علی زرداری کو ایک بار پھر پاکستان کی یاد آ گئی اور وہ واپس اپنا قدم رنجہ فرما چکے ہیں، گویا اب میاں نواز شریف کو عمران خان کی فاسٹ باؤلنگ کی بجائے آصف علی زرداری کی گگلی باؤلنگ بھی کھیلنا پڑے گی
خیر، میاں صاحب ایک پرانے کھلاڑی ہیں اور انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مخالف باؤلر فاسٹ ہے یا گگلی سپیشلسٹ، وہ کریز سے باہر نکل کر چوکے چھکے مارتے رہیں گے۔ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر اس سال کا ایک اور اہم واقعہ یہ ہوا کہ جنرل راحیل شریف اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہو گئے، نئے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سیاسی عزائم نہ رکھنے کے لئے جانے پہچانے جاتے ہیں، جنرل صاحب چونکہ بھارت سپیشلسٹ ہیں اس لئے ان کے آنے کے بعد سے بھارت بھی دبک کر بیٹھ چکا ہے کہ کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں اور یہی وجہ ہے کہ اس دن سے کنٹرول لائن پر مکمل افاقہ ہے، ویسے ببھارت خود بھی آرمی چیف تبدیل ہونے کے مراحل سے گذر رہا ہے اور پاکستان کی طرح نئے بھارتی آرمی چیف بھی سیاسی معاملات سے دور رہنے کے لئے مشہور ہیں۔ نیا سال سپریم کورٹ میں بھی ایک نئے چیف جسٹس کے ساتھ طلوع ہو گا۔


2017 ء کا سیاسی میدان مجھے کرکٹ میچ کی طرح نظر آتا ہے جس میں فاسٹ باؤلر کے تھک جانے کے بعد سپن باؤلر باؤلنگ کے لئے آجاتے ہیں۔ ایک اچھا بیٹسمین بھی وہی ہوتا ہے جو فاسٹ باؤلر کے اوور صبر سے گذار لے اور سپن باؤلر کا انتظار کرے ۔ میاں نواز شریف نے ایک اچھے بیٹسمین کی طرح فاسٹ باؤلرکو تھکا دیا ہے اور اب عمران خان کی سیاسی فاسٹ باؤلنگ میں اتنا دم خم نہیں رہا ہے کہ وہ انہیں مزید پریشان کر سکیں۔ سال کے آخری دنوں میں ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری واپس آگئے ہیں۔ اس بارے میں یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ وہ کتنے دنوں کے لئے پاکستان آئے ہیں کیونکہ فی الحال ایک ایونٹ محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی ہے جس میں وہ ہر سال شرکت کرتے ہیں کیونکہ ان کی سیاست کا دارومدار اپنی مرحومہ بیگم اور سسر کا نام کیش کرانے پر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا المیہ یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے منظرِ عام سے ہٹنے کے بعد اس کا ایک تہائی حصہ مایوس ہو کر پارٹی چھوڑ گیا تھا، یہ ایک تہائی زیادہ تر ان نظریاتی لوگوں پر مشتمل تھا جو رائٹ لیفٹ کی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو کو لیفٹ کا سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ کھڑے تھے۔


بے نظیر بھٹو نے اپنا سیاسی سفر ان نظریاتی لوگوں کے بغیر شروع کیا تھا، کیونکہ پارٹی میں باقی رہ جانے والے ابھی تک پارٹی میں اس لئے ساتھ کھڑے تھے کہ اقتدار سے فوائد حاصل کر سکیں۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد مزید ایک تہائی پارٹی بھی گئی اور نئے قائد آصف علی زرداری کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کا محض ایک تہائی حصہ کھڑا تھا، جس نے جیسے تیسے کرکے مرکز اور سندھ میں حکومت بنائی اور پانچ سال اقتدار کے مزے لوٹے۔ چونکہ آصف علی زرداری کی حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں رتی بھر ڈلیور نہیں کیا تھا اس لئے اقتدار کا خاتمہ کچھ یوں ہوا کہ سندھ کے سوا پورے ملک سے پارٹی کا صفایا ہو گیا۔

پنجاب جو پیپلز پارٹی کا ایک مضبوط گڑھ تھا، وہاں سے پارٹی غائب ہو چکی ہے۔ پاکستان میں وہی پارٹی اقتدار میں آ سکتی ہے جو پنجاب میں زیادہ سیٹیں لے کیونکہ قومی اسمبلی میں پنجاب کی 148 سیٹیں ہیں اور کوئی بھی پارٹی پنجاب سے غائب رہ کر اقتدار میں آنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ کچھ ایسا ہی معاملہ پیپلز پارٹی کا ہے جو فی الحال پنجاب میں کہیں نظر نہیں آتی ما سوائے ان چند سیٹوں کے جو اس کے ایک دو لیڈروں کی ذاتی سیٹیں ہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنا پچھلا دور حکومت اس طرح شروع کیا تھا کہ دو تہائی سے زیادہ لوگ پارٹی چھوڑ چکے تھے اور آصف علی زرداری کی مایوس کن حکومت کے بعد باقی ماندہ ایک تہائی کا نصف بھی پارٹی چھوڑ چکا ہے۔ اس وقت پیپلز پارٹی کافی مشکل سے سندھ میں حکومت بنانے سے زیادہ کچھ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔


اب ہم 2017ء میں داخل ہونے جارہے ہیں۔ آنے والے نئے سال میں دنیا بھر میں نئی سیاست ہو گی۔ دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور امریکہ کی باگ ڈور ایک ارب پتی کاروباری کے پاس ہو گی، یورپین یونین مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی، روس کی عالمی معاملات میں پیش قدمی جاری رہے گی، چین اور روس ایشیا، مشرقی یورپ،افریقہ اور بحیرہ ہند میں بہتر کنٹرول کی پوزیشن میں آ جائیں گے۔ بھارت میں مودی سرکار کا تعصب مزید خرابیوں کا باعث بنے گا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے عمران خان کی فاسٹ باؤلنگ کو کامیابی سے کھیل لیا ہے، اب وہ آصف علی زرداری کی گگلی باؤلنگ کے منتظر ہیں۔ میاں صاحب بہت آسانی سے کریز سے باہر نکل کر چوکے چھکے ماریں گے کیونکہ انہیں ایل بی ڈبلیو یا سٹمپ آؤٹ ہونے کا خطرہ باقی نہیں رہا۔

مزید :

کالم -