ایم کیو ایم کی حمائت کیوں ؟
چند سال پیشتر ایک انگریزی اخبار میں میرا ایک مراسلہ چھپا تھا۔ In Defence of MQM ۔ اُس مراسلہ میں میَں نے تاریخی حوالے دیئے تھے کہ پاکستان کی آزادی کی تحریک موجودہ پاکستان کے عوام یا اکابر نے شروع نہیں کی تھی۔ برِصغیر کے مسلمانوں کے لئے الگ ملک کی مانگ کرنے میں بنگالیوں، بہاریوں اور یو،پی والوں نے پہل کی تھی اور اُنہوں نے ہی مسلمانوں کو قد آور لیڈر بھی دئیے۔ بشمول سر سید احمد خان اور قائد اعظم محمد علی جناح ؒ ، جو پیدا تو کراچی میں ہوئے لیکن اُن کا بچپن، تعلیم،وکالت اور شادی مہاراشٹر میں ہوئی۔ میَں یہ بھی بتادوں کہ میَں پنجابی ماں باپ کا پنجابی بیٹا ہوں اس لئے میرا یہ مضمون غلط معنوں میں نہ لیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریز سے آزادی حاصل کرنے کا خواب سب سے پہلے برصغیر کے جنوب مشرق میں رہنے والے مسلمانوں نے ہی دیکھا تھا۔ نواب سلیم اللہ خان، نواب محسن الملک ، وقار الملک، بہادر یار جنگ، بھاشانی (آسام) مولوی فضل حق(جنہوں نے قراردادِ لاہور پیش کی تھی)آغا خان سوئم، خلیق الزماں، لیاقت علی خان ،مولانا حسرت موہانی اور علی برادران، یہ تمام اکابرین پاکستان کے مو جودہ خطے سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ صرف پیدائش کی حد تک آغا خان کراچی کے کہے جا سکتے تھے۔
مسلمانوں کے لئے آزاد الگ ملک حاصل کرنے کی تحریک البتہ ایک خالص پنجابی نے چلائی تھی۔ چوہدری رحمت علی جو ضلع گجرات کے تھے اور اِنگلستان میں کیمبرج یونیورسٹی کے طالبِ علم تھے، اُنہوں نے ہی لفظ ’’ پاکستان‘‘ کی ترتیب بنائی تھی۔اُنہوں نے اپنا کتابچہNow or Never (اب نہیں ۔تو کبھی نہیں)لکھ کر برِصغیر کے شمال مغرب کے مسلمانوں کے لئے ایک آزاد ملک پاکستان کی تحریک شروع کرنا چاہی تھی۔یہ دوسری بات ہے کہ 1933ء میں جب چوہدری رحمت علی کی قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے پاکستان کے بارے میں بات ہوئی تو قائد نے درشتگی سے اس نوجوان کی حوصلہ شکنی کی اور یہ کہا کہ تم ہندوؤں کو ایک فتنہ دکھا رہے ہو۔ (اُس وقت تک جناح صاحب بھی اور علامہ اقبال بھی بٹوارے کے حق میں نہیں تھے بلکہ متحدہ ہندوستان میں رہتے ہوئے مسلمان اکثریتی صوبوں کو حقِ خود اختیاری دینے کی سوچ رکھتے تھے)۔میَں نے اپنے انگریزی کے مراسلے میں اردو بولنے والے مہاجروں کی ایک قسم کی وکالت کی تھی کہ پاکستان کی آزادی کے حصول میں موجودہ پاکستان کے لیڈروں کا زیادہ حصہ نہیں تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور لیاقت علی خانؒ کے بعد خطہِ پاکستان کے لیڈروں کا ثانوی حصہ ہے۔ پاکستان کے لیڈروں میں صرف علامہ اِقبال اور سردار عبدالرّب نشتر Fore Front میں رہے۔ بقیہ لیڈر ایوب کھوڑو، جی ۔ایم سیّد، جلال بابا، راجہ غضنفر علی اور مولانا ظفر علی خان علاقائی لیڈر تھے۔ اصل جد و جہدِ آزادی کے شاخسانے کی صورت میں خونی فسادات کلکتہ اور نواکھلی میں ہوئے تھے۔ لاہور کے فسادات بھی 1946ء کے ڈائریکٹ ایکشن کے بعد ہوئے تھے۔ اُردو بولنے والے کراچی کے پاکستانی اپنے آپ کو مہاجروں کی اُولاد کہتے ہیں، یہاں تک تو ٹھیک ہے۔ لیکن جب وہ کہتے ہیں کہ پاکستان صرف اُن کے آباؤاجداد (یعنی اُردو بولنے والوں)نے بنایا تو یہ وہ غلط کہتے ہیں۔ بنگالیوں نے آزادی کی جد و جہد شروع کی تھی اور بالاخر 1971ء میں بنگلہ دیش حاصل کر لیا۔ بنگالی قوم کراچی کے مہاجروں کے اجداد میں شامل نہیں تھی۔ اس لئے ایم کیو ایم والے جب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان بنانے والوں میں ہمارے اجداد تھے تو اُن کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔ جن علاقوں سے اُردو بولنے والے آئے ہیں وہاں تو اِتنا خون خرابہ بھی نہیں ہوا تھا جتنا پنجاب اور بنگال میں ہوا۔
دراصل بٹوارے کا اوّلین تصور اور عملی مظاہرہ صوبہ بنگال کی تقسیم کی شکل میں نظر آیا جو مشرقی بنگال کے اکثریتی مسلمانوں نے برطانوی حکومت سے اپنے لئے ایک خود مختار صوبے کی حیثیت میں حاصل کیا۔ جن دِنوں بنگا لی، بہاری اور آسامی مسلمان آزادی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے اُس وقت تو قائد اعظم نے مسلم لیگ میں شمولیت بھی نہیں کی تھی۔ 1916ء میں جناح صاحب مسلم لیگ میں آئے ۔ جناح صاحب بہت عرصے تک متحدہ ہندوستان کے حق میں رہے جب کہ بنگالی، بہاری اور آسامی مسلمانوں نے اپنے لئے الگ آزادی کی تحریک شروع کر دی تھی۔ تقسیم ہند کے وقت پورے برِصغیر میں ہندوستانی نژاد 392 آئی۔ سی۔ ایس (ICS) افسران تھے جن میں مسلمانوں کی تعدا د صرف 103 تھی۔ پاکستان کے حصے میں 82 افسرانICS کے آئے جن میں 11 بنگالی اور بہاری مسلمان تھے۔ کراچی پاکستان کا دارالحکومت قرار دیا گیا۔ اُردو بولنے والے مہاجروں کی پہلی کھیپ جو کراچی آئی اُنہوں نے اپنے عزیز و اقارب کو بھی پاکستان بننے کے 3 سال کے دوران کراچی بُلا لیا۔ یوں کراچی کی آبادی جو جون 1947 میں صرف ایک لاکھ تھی۔ صرف 3 سال کے دوران10 لاکھ ہو گئی۔ یو،پی کے تمام مہاجر ظاہر ہے اردو بولنے والے تھے۔ پاکستان کے حصے میں آنے والے جو سرکاری افسران اور اُن کا عملہ اور اُن کے دُور اور نزدیک کے اِقارب تھے وہ اُردو بولنے والے تھے۔ مہاجروں کی دوسری کھیپ مہاراشٹر اور گجراتی میمنوں، بوہریوں اور آغاخانیوں پر مشتمل تھی۔ مہاجروں کے یہ دونوں طبقے پاکستان کی انتظامی اور معاشی بقا کے لئے نہائت ضروری تھے۔
مہاجروں کا تیسرا طبقہ جو فسادات کے بہت بعد آیا زیادہ تر کھوکھرا پار اور مونا باؤ کے راستے کراچی آیا۔ اس طبقے کے مہاجر عام طور پر راجپوتانہ، مدھیہ پردیش اور بہار وغیرہ سے آئے ۔ یہ متوسط یا غریب اہلِ حرفہ (Artisans) تھے۔ جنہوں نے پاکستان کی صنعت اور تجارت میں اہم کردار ادا کیا۔ یو پی ، دہلی اور ہریانہ کے مہاجر زیادہ تر پنجاب میں ہی رُک گئے اور کچھ سندھ میں آباد ہو گئے۔ ہنر مند مہاجروں نے سندھ کے دیگر شہری علاقوں میں ڈیرے ڈال دئیے مثلاً سکھر، میر پور خاص، حیدر آباد اور خیر پور۔ اُردو بولنے والے مہاجر عام طور پر محنتی تھے جو ہمہ قسم کے ہنر مندی کے پیشے سے وابستہ ہو گئے۔ یہ لوگ 70ء کی دھائی تک امن پسند تھے حالانکہ پاکستان کا دارالحکومت جب اِسلام آباد بنایا گیا تو سرکاری ملازموں اور عام مہاجرین نے کافی احتجاج کیا کیونکہ اُن کو دوسری مرتبہ بے گھر ہونے کا احساس ہوا تھا۔ اس احتجاج کے باوجود کراچی میں اَمن رہا۔
کراچی کے اُردو بولنے والوں نے ایک بڑی غلطی یہ کی کہ وہ اپنی شناخت لفظ مہاجر سے ہی کراتے رہے۔ اُنہوں نے اپنے آپ کو سب سے پہلے پاکستانی بننے کی شعوری کوشش ہی نہیں کی۔ اُنہوں نے اپنی رہائشی کالونیوں کو میرٹھ، حیدرآباد ، علیگڑھ اور بنارس کے ناموں سے منسوب کیا۔ اُردو بولنے والے مہاجر حالانکہ پنجاب میں زیادہ تعداد میں ہجرت کر کے آئے لیکن وہ پنجابی معاشرے میں رس بس گئے۔ پنجاب کے لباس کو اپنا لیا۔ پنجابیوں میں شادیاں کر لیں۔ کراچی کے مہاجروں سے انہوں نے اپنی مماثلت قائم نہیں رکھی۔ سندھ کے اُردو بولنے والے مہاجرمعاشی طور پر سندھ کے اصل باشندوں سے آگے نکل گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت آئی تو سندھ میں کوٹہ سسٹم رائج کر دیاگیا۔ مہاجر کا ذہین اور لائق بچہ کوٹے کی وجہ سے پیچھے رہ گیا۔ سماجی کشمکش شروع ہوئی اور پھر مہاجر اور سندھی میں فاصلے بڑھتے گئے۔ 80 کے عشرے میں جنرل ضیا الحق کے دور میں ایم کیو ایم وجود میں آئی اور پھر آہستہ آہستہ اس تنظیم میں غیر سیاسی اور غلط عناصر بھی آتے گئے اور یہاں تک کہ 2016ء تک ایم کیو ایم ایک مخصوص طبقے کی فاشسٹ جماعت بن گئی۔ایم کیو ایم بجائے اپنی صفوں میں اِصلاح کرنے کے مزید شدّت پسند ہو گئی۔ مخالفوں کو گولی مارنے سے بھی گریز نہ کیا۔ ہندوستان نے اس موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایم کیو ایم میں اپنے ایجنٹ داخل کر دئیے جو ایم کیو ایم کی اہم قیادت پر بھی چھا گئے۔ ایم کیو ایم کے لیڈروں نے جعلی نعرے لگائے کہ پاکستان اُ ن کے آباؤاجدادنے قربانیاں دے کر حاصل کیا ہے۔ یہ دروغ گوئی تھی۔ قربانیاں بنگالیوں اور پنجابیوں نے دی تھیں۔
اس قسم کے تاریخی جھوٹ کی وجہ سے میرے دل میں جو نرم گوشہ ایم کیو ایم کے لئے تھا وہ ختم ہو گیا۔ پاکستان کا تصوّر پنجابی نے دیا تھا، برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کا عملی مظاہرہ مشرقی بنگالیوں نے کیا تھا اور جب پاکستان عالمِ وجود میں آیا تو ہندو مسلم فسادات میں سب سے زیادہ خون مشرقی پنجاب، کلکتہ، نواکھلی اور بہار کے رہنے والوں کا بہایا گیا تھا۔ صرف 1947ء میں مسلمان پنجابی 5 لاکھ سے زیادہ مارے گئے، 50 ہزار سے زائد مسلمان خواتین کو سکھوں اور ہندوؤں نے اغوا کیا اور صرف 6 ماہ کے عرصے میں 40 لاکھ سے زیادہ پنجابی مسلمان بے گھر ہو کر پاکستان پہنچے ۔ جب کہ اُردو بولنے والے افراد 1954ء کے زمانہِ امن میں بھی پاکستان آتے رہے۔ اُن کو ہم مہاجر نہیں کہہ سکتے۔ اصل مہاجر تو مشرقی پنجاب کا پنجابی مسلمان تھا جو جون 1947ء سے دسمبر 1947ء تک اپنے گھر سے مارپیٹ کر نکالا گیا۔ تصوّرِ پاکستان کے پنپنے کے لئے زمین کو زرخیزی البتہ سر سید احمد خان کے علاوہ یو،پی اور بنگال کے دیگر اکابرین نے بہم پہنچائی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے اِبتدائی دور میں ملک کی معاشی اور اِنتظامی ضروریات کو اُردو بولنے والے مہاجروں نے پورا کیا۔ گو سیاست میرا شعبہ نہیں ہے لیکن میَں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ الطاف حسین کی اِنتہا سے بڑھی ہوئی جاہ طلبی نے ایم کیو ایم جیسی پڑھی لکھی اور متوسط طبقے کی سیاست کرنے والی جماعت کو پہلے متنازع بنایا جس سے ایم کیو ایم کے مخلص کارکنوں کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ الطاف حسین نے پاکستان کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ ایم کیو ایم کے لاکھوں کروڑوں کارکن پاکستان کی سیاست کو وڈیرہ شاہی اور مخدوم پرستی سے نجات دِلا سکتے تھے جس کی وجہ سے ملک میں درمیانہ طبقے کی جمہوریت پھل پھول رہی ہوتی۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔