پاکستان کی عالمی تنہائی۔ وجوہات۔ اسباب۔ صورتحال

پاکستان کی عالمی تنہائی۔ وجوہات۔ اسباب۔ صورتحال
 پاکستان کی عالمی تنہائی۔ وجوہات۔ اسباب۔ صورتحال

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پتہ نہیں ایسا کیوں ماحول بن رہا ہے کہ پاکستان کے دنیا میں صرف دو ہی دوست رہ گئے ہیں۔ ایک چین اور دوسرا ترکی۔ اس کے علاوہ ہمارے تمام ممالک سے تعلقات آہستہ آہستہ خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری آگے بڑھ رہی ہے۔ بلکہ بات سرد مہری سے تناؤ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ویسے تو ملا اختر منصور پر ڈرون حملہ کوئی پہلا ڈرون حملہ نہیں جو صرف اس ڈرون حملہ کی وجہ سے تعلقات خراب ہو جائیں۔ لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ پاک امریکہ تعلقات میں تناؤ اس ڈرون حملہ سے پہلے ہی آچکا تھا۔ ایف سولہ کا معاملہ لٹک گیا تھا۔کانگریس نے بل پاس کر دیا۔ پھر شکیل آفریدی کا معاملہ بھی اٹھا یا گیا۔ امداد پر شرطیں لگائی گئیں۔ اس لئے ملا اختر منصور کے ڈرون حملہ سے پہلے ہی سیاسی و سفارتی ڈرون گر رہے تھے۔ لیکن شائد وہ ڈرون ایسے تھے کہ ان پر پاکستان کیا جواب دے سکتا تھا۔ایف سولہ پر یہی کہا جا سکتا تھا کہ ہم کہیں اور سے لے لیں گے وہ کہہ دیا گیا۔ شکیل آفریدی پر یہی کہا جا سکتا تھا کہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ وہ کہ دیا گیا۔ اس لئے اب ڈرون حملہ ہی ایک ایسی وجہ ہے جس پر پاکستان رد عمل کا اظہار کر سکتا ہے۔ اور ایسا لگ رہا ہے کہ کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کی بھی تاریخ ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ معاملات تب ہی ٹھیک کرتا ہے جب بہت خراب ہو جاتے ہیں ۔ ریمنڈ ڈیوس اور دیگر واقعات اس کے گواہ ہیں۔


لیکن امریکہ کے ساتھ تعلقات کی خرابی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس لئے پریشانی کی کوئی بات نہیں ۔ تا ہم دیگر دوستوں کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری اور تناؤ زیادہ پریشانی کی بات ہے۔ اس ضمن میں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ لیکن زیادہ تشویشناک بات تو یہ تھی کہ جس طرح سعودی عرب نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو خوش آمدید کہا اس کی بھی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ بھارتی وزیر اعظم کو سعودی عرب کا سب سے بڑا سول ایوارڈ دیا گیا۔ اسی طرح دیگر عرب ممالک نے بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری کے بعد بھارت کو بے تحاشا لفٹ ملی ہے۔ حالانکہ اگر پاکستان نے یمن فوج بھیجنے سے معذرت کی تھی تو بھارت نے کونسی بھیج دی تھی لیکن پھر بھی عرب پاکستان سے ناراض ہیں اور بھارت سے خوش۔ اس لئے جہاں اس حوالہ سے عربوں کی پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے ۔وہاں پاکستان کی خارجہ پالیسی پر بھی بہت سے سوالیہ نشانات ہیں۔


اسی طرح ایران کے حوالہ سے بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ تعاون نہ کرنے کے حق میں دلائل دینے والوں کا موقف تھا کہ اگر ہم یمن فوج بھیجیں گے تو ہمارے ایران سے تعلقات خراب ہو جائیں گے۔ یہ دلیل دی جاتی تھی کہ ایران ہمارا ہمسایہ ہے اس لئے ہمیں ایران سے اپنے تعلقات خراب نہیں کرنے چاہئے۔ ہمیں نیوٹرل رہنا چاہئے تا کہ ایران ناراض نہ ہو جائے۔ لیکن آج دیکھیں ہم نیوٹرل رہے بلکہ یہ کہنا بھی کسی حد تک غلط نہ ہو گا کہ ہم نے ایران کی ناراضگی کے خوف سے سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کو اپنے خلاف کر لیا۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو آج ایران بھی پاکستان کے مخالف بھارت کے ساتھ کھڑا ہے۔ خارجہ امور کے ماہر ین ہمیں تو یہ سبق دیتے تھے کہ ہم عرب اور ایران دونوں کے بیک وقت دوست نہیں ہو سکتے۔ یہ دنیادھڑوں میں تقسیم ہے۔ اگر عربوں کے ساتھ چلیں گے تو ایران خلاف ہو جائے گا اور اگر ایران کے ساتھ چلیں گے تو عرب خلاف ہو جائیں گے۔ لیکن کیا کوئی ان خارجہ امور کے ماہرین سے یہ سوال کر سکتا ہے کہ بھارت بیک وقت ایران اور عربوں کا دوست کیسے ہے؟ ایک طرف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو سعودی عرب میں بھی خوش آمدید کہا جا رہا ہے۔ دوسری طرف انہیں ایران میں بھی خوش آمدید کہا جا رہا ہے۔ جبکہ پاکستان سعودی عرب اور ایران دونوں سے آؤٹ ہے۔


اسی طرح دیگر مغربی ممالک کی مثال بھی سامنے ہے۔ پاکستان کی ان مغربی ممالک کے حوالہ سے بھی کوئی خارجہ پالیسی نظر نہیں آرہی۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کو جی پلس کا سٹیٹس ملا۔ لیکن اس کے بعد آگے کچھ نہیں۔ ایک ایسا تاثر نظر آرہا ہے کہ ہم نے شاید مغرب کے باقی ممالک کو مکمل طور پر نظر انداز ہی کر دیا ہے۔


اگر دیگر ہمسایہ ممالک کی بات کی جائے تو بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات تو تقریبا ختم ہی ہیں۔ صرف اعلان ہی باقی ہے۔ وہ بھی پاکستان کی جانب سے پھانسیوں پر خاموشی سے شائد رسمی تعلقات بچ گئے ہیں۔ ورنہ بنگلہ دیش کی حکومت تو شائد تعلقات ختم کرنے میں بھی شائد دیر نہ کرتی۔


افغانستان کے ساتھ تعلقات بھی نرم گرم ہیں۔ نرم زیادہ ہیں گرم کم ہیں۔ سرد مہری تو کافی عرصہ سے ہے۔ لیکن اب تو تناؤ بھی نظر آرہا ہے۔ حال ہی میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ ایران کے موقع پر ایران بھارت افغانستان بھی گٹھ جوڑ نظر آیا ہے۔ ایران کی افغانستان بھی بڑھتی ہوئی مداخلت یقیناًپاکستان کے لئے خطرہ کی گھنٹی ہے ۔ کیونکہ ایران افغانستان میں پاکستان کے مفادات کا تحفظ نہیں کرے گا بلکہ اس کے اور بھارت کے مفادات ایک نظر آرہے ہیں۔ گلبدین حکمت یار بھی پاکستان کا نہیں ایران کا دوست ہے۔ اب تو یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ملا ختر منصور بھی ایران میں علاج کروا رہا تھا۔ اور ایران طالبان کے ساتھ بھی اپنے دروازے کھول چکا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ چاہ بہار کی بندر گاہ سے بھارت افغانستان تک اپنا مال پہنچانے کی پوزیشن میں آجائے گا اور افغانستان کا اس ضمن میں پاکستان کی بندر گاہوں پر انحصار ختم ہو جائے گا۔ افغانستان بھارت اور ایران مل کر کام کرتے نظر آرہے ہیں۔


اس ساری صورتحال میں پاکستان کا دوست صرف چین ہی نظر آتا ہے۔ ترکی کے ساتھ بھی اچھے تعلقات نظر آرہے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ یقیناًیہ کوئی اچھی صورتحال نہیں ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ صورتحال کبھی بھی اچھی نہیں رہی ہے۔ لیکن شائد اتنی خراب بھی کبھی نہیں رہی ہے۔ ہمارے ملک میں خارجہ پالیسی کون چلا رہا ہے۔ یہ سمجھنا بھی ایک مشکل کام ہے۔ اسٹبلشمنٹ یا سول حکومت۔ شائد ان کی آپسی چپقلش کے ہی یہ نتائج ہیں۔ دو ملاؤں میں مرغی حرام ہو رہی ہے۔
پاکستان کی عالمی تنہائی

مزید :

کالم -