پنشنروں کی دہائی

پنشنروں کی دہائی
پنشنروں کی دہائی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وہ بزرگ خواتین تھیں جو برس ہا برس بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے بعد ریٹائر ہو چکی تھیں، ان کے پاس لمبی تفصیل موجود تھی کہ انہوں نے نوجوانی میں ایم اے کرنے کے بعد بلدیہ کے سکول میں پڑھانے کی نوکری شروع کی تھی اورساری عمر تدریس کے اسی مقدس شعبے میں گزار دی تھی۔انہوں نے بتایا کہ آج سے بہت برس پہلے ایک فیصلہ ہوا تھا جس کے تحت بلدیہ کے سکولوں میں بھی صوبائی محکمہ تعلیم کا عملہ تعینات ہونے لگا تھا اور دوسری طرف بلدیہ کے سکولوں کے اساتذہ اور ڈسپنسریوں میں خدما ت سرانجام دینے والے طبی عملے کی خدمات بھی صوبائی حکومت کے محکمہ صحت حوالے کر دی گئی تھیں ، اس فیصلے کا نتیجہ اب یہ نکلا ہے کہ اب کوئی محکمہ ان کی پنشن ادا کرنے کے لئے تیار نہیں۔ مجھے اس تفصیل سے کوئی دلچسپی نہیں تھی مگر میں احترام میں ان کی بات سننے پر مجبور تھا کیونکہ انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ پانچ، چھ ماہ ہونے کو آئے مختلف سرکاری محکموں میں واجبات کے تنازعے پر انہیں پینشن کی ادائیگی رکی ہوئی ہے اور ان میں ایسے سابق سرکاری ملازمین بھی شامل ہیں جو اب اپنی عمر کی ستر کی دہائی بھی عبور کر چکے ہیں، ان میں بہت سارے ایسے ہیں جن کے لئے چلناپھرنا بھی ممکن نہیں، ان کی زندگی بستر پر ہی گزر رہی ہے۔


وہ یہ تفصیل اس لئے بتار ہی تھیں کہ میں نے ان سے پوچھا تھا کہ آپ کی پینشن کی ادائیگی رک جانے کا سبب کیا ہے مگر اس کے باوجود مجھے سرکاری اور دفتری نوعیت کی تفصیلات اور رکاوٹوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ حکمرانوں اور بیوروکریسی نے جو کام کرنے ہوتے ہیں وہ راتوں رات بھی ہوجاتے ہیں اور جن معاملات میں ڈنڈا یادلچسپی نہیں ہوتی وہ لٹک جاتے ہیں ۔یہ معاملہ ان کی معلومات کے مطابق سیکرٹری لوکل گورنمٹ کے دفتر میں لٹکا اور پھنسا رہا تھا۔ یہ محکمہ تعلیم، محکمہ صحت اور محکمہ بلدیات کی لڑائی تھی جو ان کی ریٹائرمنٹ کے بہت بعد شروع ہوئی تھی۔ کوئی بھی محکمہ انہیں پینشن کی ادائیگی کے لئے تیار نہیں تھا۔ میں نہیں جانتا کہ سیکرٹری لوکل گورنمنٹ کون ہیں مگر اس محکمے کے وزیر منشاء اللہ بٹ ہیں اور ایک پرانے پارلیمنٹرین اور منجھے ہوئے سیاسی کارکن ہیں اور مجھے حیرت ہے کہ ان کے محکمے نے بہت بڑی تعداد میں بزرگوں کے گھروں میں فاقے شروع کروا دئیے ہیں اور وہ اس پرعوامی نمائندہ ہونے کے باوجود خاموش ہیں۔


سیکرٹری لوکل گورنمنٹ سے کوئی پوچھے کہ کیا پینشن کوئی عیاشی ہوتی ہے کہ اگر کوئی بڈھا یابڈھی یہ عیاشی کئی مہینوں تک بھی نہ کرے تو فکر اور پریشانی کی کوئی بات نہیں، میں تو اس معاشرے میں رہتا ہوں جہاں بہت سارے بچے اپنے بوڑھے والدین کو اپنے گھر میں رکھتے ہی اس لئے ہیں کہ ان کی پینشن آ رہی ہوتی ہے جس کے ذریعے ان کے گھروں کے بجلی کے بلوں جیسے بہت سارے خرچے نکل رہے ہوتے ہیں، چلیں ، ایسے بھی گھر ہوں گے جہاں بچے ماں باپ کی پینشن پرنظریں جمائے نہیں بیٹھے ہوں گے مگر بوڑھے لوگوں کی اپنی ضروریات بھی ہوتی ہیں۔ ان میں سے بہت ساروں کو ادویات چاہئے ہوتی ہیں کہ یہ عمر ہی ایسی ستم گرہوتی ہے۔ انہیں سفر سمیت اپنے بہت سارے معاملات کے لئے بھی اپنے بچوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا اچھا نہیں لگتا، بہت سارے بزرگ اپنے پیسوں سے اپنے پوتوں، پوتیوں، نواسوں ، نواسیوں کو جب ٹافیاں اور چاکلیٹس لے کر دیتے ہیں تو بچوں کے مسکراتے چہروں سے ان کی زندگی کے بہت سارے دکھ اور درد کم ہو جاتے ہیں۔میں نے ان کی بات سنی اور سوچا کہ اب تو رمضان المبارک اور عیدالفطر بھی آنے والے ہیں، آہ، کیا افطاریوں اور عیدکی تقریبات پر بھی بزرگوں کی جیبیں اور ہاتھ خالی ہوں گے کہ آج کل کون صرف دعاوں کو کافی سمجھتا ہے؟


کیا یہ حکومتیں اپنے ملازمین کو پینشنیں دے کے کوئی احسان کرتی ہیں، میرا جواب سو فیصد نفی میں ہے، مہذب معاشروں میں تو تمام بزرگ ریاست کی ذمہ داری ہوتے ہیں چاہے وہ اولڈ ہومز میں رہ رہے ہوں یا نہ رہ رہے ہوں مگر ہم ابھی اتنے مہذب نہیں ہوئے۔ پینشن ان بزرگوں کو ملتی ہے جو اپنی پوری جوانی ریاست کی خدمت کرتے ہوئے گزار دیتے ہیں اور انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد ادا ہونے والی رقم کی باقاعدہ کٹوتی کی جا رہی ہوتی ہے۔میں نے سوچا کہ وہ سیکرٹری سے کلرکوں تک وہ تمام سرکاری ملازمین جو اس وقت بڑے بڑے کمروں اور دفتروں میں حاکمیت قائم کئے بیٹھے ہیں اگر کوئی ان کی تنخواہ کئی مہینوں تک روکے رکھے یا انہیں پنشن کے حصول کے لئے ایسے ہی مجبور کرے جیسے ان تعلیم اور صحت کے اہم ترین شعبوں میں خدمات سرانجام دینے والوں کو کیا جا رہا ہے تو ان کے جذبات کیاہوں گے یا وہ اتنا مال بنا چکے ہیں کہ تنخواہ اورینشن جیسی معمولی رقموں کو جوتے کی نوک پر رکھیں گے۔ مجھے منڈی بہاوالدین کے ضلعے بارے بتایا جا رہا تھا کہ وہاں کا ڈی سی او اور فنانس کا انچارج پنشن کی راہ روکے کھڑے ہیں اور فنانس کا انچارج تو غالبا بیس برس سے ایک ہی ضلعے کو اپنی راجدھانی بنائے ہوئے ہے، یہی حال باقی اضلاع میں ہے۔


مجھے ملازمین نے کہا کہ کیا شہباز شریف کو علم نہیں کہ بیوروکریسی کس طرح کے ظلم ڈھا رہی ہے اور جب وہ ووٹ لینے کے لئے آئیں گے تو کیا اس طرح کے مظالم کے شکار انہیں ووٹ دیں گے۔ میں ہنس پڑا، میں نے کہا، آپ کو اس سے بہتر کوئی وزیراعلیٰ ملے تو اسے اور اس کی پارٹی کو ضرور ووٹ دے دیجئے گا مگر میں تو آپ سے یہی وعدہ کر سکتا ہوں کہ آپ کی آواز وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف تک پہنچا دوں۔ مجھے امید ہے کہ اگر میری آوا ز ان تک پہنچ گئی تو وہ اس ظلم و زیادتی پرضرور بازپرس کریں گے ورنہ ان بزرگ خواتین کے لئے یہ ممکن نہیں کہ سڑکوں پر احتجاج کریں کہ احتجاجی جلسے اور دھرنے کرنے تو ایک طرف رہے، ان میں سے بہت سارے تو چلنے پھرنے سے ہی معذور ہیں۔ وہ اپنے بستر پر لیٹے ہوئے اس آسمان کی طرف ہی دیکھ سکتے ہیں جس پر دنیا کے سب سے بڑے حاکم کا ڈیرہ ہے اور ان سرکاری افسران کی شکایت کر سکتے ہیں جنہوں نے یہاں ایک ایک دفتر میں اپنی چھوٹی چھوٹی مگر بہت ہی تکلیف دہ خدائیاں بنائی ہوئی ہیں۔


میں نے سوچا کہ پینشن کی رقم موجود نہ ہونے کی وجہ سے کسی بزرگ کو کھانے پینے کا مسئلہ پیدا ہوا، اس کے گھر کا بجلی کاکنکشن کٹ گیا یا دوائیاں نہ لاپانے کے باعث زندگی کی ڈور ہی کٹوا بیٹھا تواس کا گناہ اورعذاب کس کے سر ہو گا۔میں ا س امر پر یقین رکھتا ہوں کہ بڑے سے بڑا سرکاری مسئلہ اور تنازعہ چند دنوں میں طے کیا جا سکتا ہے لیکن اگر بزرگ پنشنروں کی پنشن کا ایشو مہینوں سے حل نہیں ہو پا رہا تو یقینی طور پرسرکاری عمال کی اس سے بڑی نااہلی اور کوتاہی نہیں ہوسکتی۔ ایک وقت تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کھڑے کھڑے چھوٹی سے چھوٹی کوتاہی پر افسران کو معطل کر دیا کرتے تھے مگر پھر شائدبیوروکریسی میں تمام افسران ان کے پسندیدہ آ گئے کہ اب ایسی اطلاعات نہیں آتیں۔ میں نے فارغ وقت میں سوچنا شروع کیا کہ کیا وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اپنی والدہ محترمہ کے قدموں کے صدقے ان بزرگوں کی مشکل آسان کریں گے اوران لوگوں کو کم از کم معطلی کی سزا دیں گے جنہوں نے اپنی نااہلی اور مفاد پرستی سے ان کی والدہ جیسی ہی محترم بزرگ شخصیات کی زندگی کتنے ہی مہینوں سے جہنم بنا رکھی ہے۔

مزید :

کالم -