کیا ہورہا ہے، کیا کچھ ہوسکتا ہے؟

کیا ہورہا ہے، کیا کچھ ہوسکتا ہے؟
 کیا ہورہا ہے، کیا کچھ ہوسکتا ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سیاسی انتشار جس نہج پر پہنچ چکا ہے، نہیں لگتا کہ آنے والے دنوں میں کوئی ٹھہراؤ پیدا ہوسکے گا۔ نواز شریف وطن واپس آگئے ہیں، واپسی کا فیصلہ انہوں نے اچانک کیا اور سارے منظر نامے کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔ ان کی ملک میں موجودگی سیاست کے سمندر میں ارتعاش پیدا کرتی رہے گی۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اعلان کر چکے ہیں کہ ان کے وزیر اعظم آج بھی نواز شریف ہی ہیں۔

اب انتشار کا باعث بھی یہی بات بنے گی کہ نواز شریف نااہل بھی ہیں اور وزیر اعظم بھی۔ ایسے میں اپوزیشن اپنی صدائے احتجاج بلند کرتی رہے گی اور حکومت کی ساری توجہ اسی بات پر مرکوز رہے گی کہ کسی طرح نواز شریف کو سیاست میں واپس لایا جائے۔ سپریم کورٹ کی طرف دیکھیں تو یوں لگے گا، جیسے سارے مقدمے ہی وہاں چل رہے ہیں۔ ملک جیسے سپریم کورٹ کی نظر کرم کا محتاج ہو کر رہ گیا ہے۔

قومی اسمبلی اور سینٹ کے کورم کا یہ حال ہے کہ مسلسل پانچ روز تک اجلاس صرف اس لئے ملتوی کرنا پڑتا ہے کہ کورم پورا نہیں ہوتا۔ البتہ حاضری رجسٹر چیک کیا جائے تو نوے فیصد ارکان پارلیمنٹ کی حاضری موجود ہوتی ہے، تاہم اس حاضری کا مقصد صرف ٹی اے ڈی اے لینا ہوتا ہے، قانون سازی مراد نہیں ہوتی۔ ارکان کی عدم دلچسپی بھی یہی بتاتی ہے کہ اب ان کا پارلیمنٹ پر یقین نہیں رہا۔

لوگ سینٹ میں عوامی نمائندگی کے ترمیمی بل میں سیاسی جماعت کی صدارت کے لئے اہلیت کی شق میں ترمیم پر تنقید کررہے ہیں، مگر انہیں یہ سوچنا چاہئے کہ جس پارلیمنٹ کی توقیر سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے، اس سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہیے؟ سپریم کورٹ سے اپیل مسترد ہونے کے بعد کل کلاں یہ نہ ہو کہ حکمران جماعت ایسی ترمیم بھی لے آئے، جس سے سپریم کورٹ کا یہ اختیار ہی ختم ہو جائے کہ وہ 62-63 کے بعد کسی کو نااہل قرار دے سکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف کا نااہل ہونا مسلم لیگ(ن) کے لئے ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ نواز شریف کی اپنی جماعت پر گرفت اتنی سخت ہے کہ نااہلی کے باوجود ہر مسلم لیگی صرف نواز شریف کے ہی گن گارہا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے جو یہ کہا کہ ان کی زبان پر وزیر اعظم کے ساتھ نواز شریف کا نام ہی آجاتا ہے تویہ صورت حال دوسرے مسلم لیگیوں کی بھی ہے، جہاں وزیر اعظم دن رات وزیر اعظم نواز کا وظیفہ پڑھتے ہوں، وہاں کیا شک رہ جاتا ہے کہ نواز شریف کی سیاست پر گرفت کمزور نہیں ہوئی، تاہم اگر یہ بات حقیقت ہے تو یہ حقیقت بغیر کسی شک و شبہ کے موجود ہے کہ وزیر اعظم کی حیثیت سے نواز شریف کو نااہل قرار دیا جاچکا ہے اور یہ حکم ملک کی سب سے بڑی عدالت نے جاری کیا ہے۔ اب اس سے نکلنے کا راستہ احتجاج ہے اور نہ پارلیمنٹ، اس سے توقانونی جنگ کے ذریعے ہی نکلا جاسکتا ہے۔


نواز شریف اور ان کے بچوں نے وکلاکے کہنے پر جلد بازی میں نظر ثانی کی درخواست دائر کی۔نہ تو نئے گراؤنڈز تلاش کئے اور نہ قانونی جواز فراہم کیا، سو چاردنوں میں وہ اپیلیں خارج ہو گئیں، اب بحالی کا اور کوئی راستہ تو بچا نہیں سوائے سیاسی طور پر خود کو زندہ رکھنے کے سو یہ کام نوازشریف کر رہے ہیں۔ انہوں نے وطن واپسی کا فیصلہ کر کے سیاسی طور پر خود کو مزید مضبوط کر لیا ہے۔ ان کی واپسی نے پرویز مشرف پر بھی دباؤ بڑھا دیا ہے کہ وہ پاکستان واپس آکر مقدمات کا سامنا کریں۔ سوشل میڈیا پر نوازشریف کے حامی یہ کہتے نہیں تھکتے کہ سابق جمہوری وزیر اعظم ایک ڈکٹیٹر کی طرح جھوٹے بہانے نہیں گھڑتا، بلکہ وطن واپس آکر مقدمات کا سامنا کرتا ہے۔

نوازشریف نے واپسی کا فیصلہ خود کیا ہے یا شہباز شریف اور اپنے قریبی دوستوں کے مشورے سے، اس سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ ان کی واپسی نے انہیں سیاسی طور پر بہت فائدہ پہنچایا ہے۔ نیب عدالت میں ایک بار پیش ہو کر وہ پیشی کا استثنا لے سکتے ہیں، جیسا کہ سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے لے رکھا ہے، احتساب عدالت کو سپریم کورٹ نے چھ ماہ کے اندر ریفرنسوں کا فیصلہ کرنے کی ہدایت دی ہے۔ ان چھ ماہ کے دوران نوازشریف اپنی سیاست کے ذریعے حالات کا پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔


اس دوران ایک بحث یہ بھی چھڑ چکی ہے کہ ملک میں قبل از وقت انتخابات کرا دیئے جائیں۔ اس بحث کا آغاز عمران خان کے مطالبے سے ہوا ہے جس میں انہوں نے اسمبلیاں تحلیل کر کے عوام سے تازہ مینڈیٹ لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ویسے آئیڈیل صورت حال تو یہی ہے کہ عوام سے تازہ رائے لے کر مستقبل کے سیاسی نظام کا فیصلہ کیا جائے، کیونکہ حکومت کے اعلیٰ عہدیدار شکوک و شبہات کی حالت میں ہیں، انہیں کچھ پتہ نہیں کہ کس وقت کیا ہو جائے۔ اس عبوری مدت میں، جو نوازشریف کی نا اہلی کے بعد شروع ہوئی، ملک میں کوئی منصوبے بن سکتے ہیں اور نہ ترقی ہو سکتی ہے۔

دوسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ خود حکومت میں موجود شخصیات تذبذب کا شکار ہیں ، ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ گائیڈ لائن کہاں سے لینی ہے۔ نوازشریف جتنے بھی پاپولر ہوں، آئینی طور پر خود فیصلے نہیں کر سکتے، فیصلے شاہد خاقان عباسی یا کابینہ نے ہی کرنے ہیں، سو اس بالواسطہ عملی حکومت میں وقت کا ضیاع بھی ہو رہا ہے اور گڈ گورننس کا تاثر بھی کامیاب نہیں ہو رہا۔ یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ جب ملک میں بے یقینی کی فضا موجود ہو تو بیورو کریسی بھی ہاتھ کھینچ لیتی ہے۔ فیصلوں میں رکاوٹیں ڈالتی ہے اور حد سے تجاوز کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا عندیہ بھی دے دیتی ہے۔

سو ایسے میں اگر نئے انتخابات کا نقارہ بجا دیا جائے تو یہ کوئی انہونی بات نظر نہیں آئے گی۔ اس سے ایک مضبوط حکومت بھی سامنے آ سکتی ہے، جو قوم کو کمبل کی طرح چمٹے ہوئے مسائل سے نجات بھی دلا سکتی ہے۔

دوسری طرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) شاید وقت سے پہلے عام انتخابات کا رسک نہ لے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ابھی حالات مسلم لیگ (ن) کے حق میں نہیں، نوازشریف کی نا اہلی کے باعث وہ ایک سکتے اور مایوسی کے عالم میں ہے۔ پھر سب سے اہم بات مارچ میں ہونے والے سینٹ کے انتخابات ہیں، جن کے ذریعے (ن) لیگ سینٹ میں اپنی اقلیت کو اکثریت میں تبدیل کر سکتی ہے۔ م

سلم لیگی حلقے تو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اسی لئے ہے تاکہ مارچ سے پہلے اسمبلیاں تحلیل کرادی جائیں اور سینٹ کے انتخابات نئی اسمبلیوں سے کرائے جائیں۔ مسلم لیگ (ن) شاید اس لئے بھی موجودہ سیٹ اپ کو مارچ 2018ء تک چلانا چاہتی ہے کہ اس دوران شریف فیملی اور اسحاق ڈار کے خلاف احتساب عدالتوں میں جانے والے مقدمات جاری ہوں گے۔ مسلم لیگ (ن) کی کوشش ہوگی کہ سرکاری اداروں کے تعاون سے ان مقدمات کو کمزور کرنے کی کوشش کی جائے۔ سو اس کا بھی امکان ہے کہ نئے انتخابات کے مسئلے پر اپوزیشن اور حکومت میں ٹھن جائے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی حکومت کی مخالفت کے باوجود مقررہ وقت سے پہلے نئے انتخابات کے حق میں نہیں، یوں صرف تحریک انصاف ہی واحد جماعت ہے جو نئے انتخابات کا مطالبہ کررہی ہے، یہ تحریک انصاف کا ایک حربہ بھی ہوسکتا ہے، تاکہ حکومتی امور میں نواز شریف کی مداخلت کو کم کیا جاسکے

۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شاہد خاقان عباسی اس الزام کو غلط ثابت کرنے کے لئے کہ وہ نام کے وزیر اعظم ہیں اور ملک میں ہر حکم نواز شریف کا چل رہا ہے، اس لئے یہ سسٹم ناکارہ ہوچکا ہے، بظاہر نواز شریف کی مداخلت کو کم کردیں، جو اگرچہ ناممکن بات نظر آتی ہے، تاہم نظریۂ ضرورت کے تحت ایسا ہو بھی سکتا ہے۔ تحریک انصاف کواس بات کا بھی سیاسی فائدہ ہوگا، اگر وہ یہ حالات پیدا کرنے میں کامیاب رہتی ہے کہ نواز شریف کے بغیر بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت زیادہ بہتر طور پر چل رہی ہے، تاہم یہ سب اندازے ہیں۔ نواز شریف کے ذہن میں کیا ہے اور انہوں نے وطن واپسی کے بعد کیا منصوبہ بنارکھا ہے، اس کا اندازہ تو کچھ دن بعد ہی ہوگا، البتہ یہ بات یقینی ہے کہ نواز شریف مصلحت کے تحت نہیں آئے، بلکہ ارادتاً آئے ہیں اور ان کا مقصد اس لڑائی کو جاری رکھنا ہے جو انہوں نے جی ٹی روڈ مارچ کے دوران شروع کی اور جس میں واشگاف الفاظ میں کہا کہ وہ ووٹ کی طاقت منواکے دم لیں گے، چاہے اس کے لئے انقلاب کا راستہ ہی کیوں نہ اختیار کرنا پڑے، تاہم انہوں نے اپنی حکمت عملی میں اتنی تبدیلی ضرور کرلی ہے کہ عدالتوں سے فرار کی بجائے، ان کا سامنا کیا جائے، مگر ساتھ ہی ساتھ اس بات کا بھی اعلان کیا جاتا رہے کہ ہمارا احتساب نہیں ہورہا، بلکہ ہم سے انتقام لیا جارہا ہے، ان کی اس حکمت عملی کے باعث اداروں کے درمیان تصادم ہونے کے امکانات موجود ہیں، اگر ایسا ہوا تو یہ جمہوریت اور نظام کے لئے نیک شگون نہیں ہوگا۔

مزید :

کالم -