مائنس نوازشریف !
وطن واپسی سب ۔سے بڑا سیاسی سر پرائز یا حالیہ سیاسی کھیل کا ماسٹر سٹروک! سابق وزیراعظم محمدنوازشریف نے اپنی نااہلی کے باوجود پارٹی کے صلح جو اور مفاہمت پرست پارٹی رہنماؤں کے مشورہ کو نظر انداز کرکے موٹروے کے سہل احتجاج کے بجائے جی ٹی روڈ کے کٹھن احتجاج کا رسک لیا، این اے 120میں اپنی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی علالت کے باوجود انہیں انتخابی میدان میں اتارنے کا رسک لیا ، اہلیہ کی علالت کے باعث وہ خود بھی لندن چلے گئے اور مریم نواز کو تن تنہا انتخابی مہم چلانے کی ذمہ داری دینے کا رسک لیا، پاکستانی سیاست ہمہ وقت سانپ اور سیڑھی کے کھیل کی مانند ایک رسک ہوتی ہے جس کی وجہ سے عمومی طورپر سیاستدان رسک لینے کے عادی ہوتے ہیں لیکن سابق وزیراعظم نوازشریف کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو وہ طبعاًبھی رسک لینے اور سرپرائز دینے کے حوالے سے باقی سیاست دانوں کی نسبت زیادہ معروف ہیں ، انہوں نے اپنی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی علالت کے باعث تقریباًڈیڑھ ماہ کا عرصہ لندن میں گزارا تاہم ان کے قیام کی طوالت کی بناء پر طرح طرح کی قیاس آرائیاں جاری تھیں ، وہ پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد ہیں ، اس لئے بیگم کی بیماری کے باوجود ان کی جانب سے لندن جاکر خاموشی سے بیٹھے رہنا کئی طرح کے امکانات کو ہوا دے رہا تھا لیکن انہوں نے اپنی عدم موجودگی کا بھی سیاسی فائدہ اٹھایا ، انہوں نے نہ صرف این اے 120کے انتخابات سے ووٹروں کے رجحان کا بھی جائزہ لیا بلکہ اس سے بھی اہم ترین پہلو محترمہ مریم نواز کی سیاسی لانچنگ کا تجربہ تھا ، ایک وہ وقت تھا جب انہو ں نے محترمہ مریم نواز کو وزیراعظم یوتھ پروگرام کی سربراہی سونپ کر ایک سوفٹ لانچنگ کی تھی ، لیکن نا موافق سیاسی حالات میں انہوں نے مریم نواز کو تن تنہا میدان میں اتارنے کا رسک لیا ، لیکن ایک وقت میں جب پاکستان مسلم لیگ ن کے بارے میں تاثر دیا جارہا تھا کہ بعض حلقے نوازشریف کی نااہلی کے بعد سیاسی میراث پر تحفظات کا شکارہیں حتیٰ کہ شریف خاندان میں دراڑیں پڑنے کی باتیں زبان زد عام تھیں مریم نواز کی حلقہ این اے 120میں کامیاب انتخابی مہم کے باوجود انہیں بعض انکلز کی جانب سے غیر سیاسی اور سیاسی طورپر ناسمجھ گردانا گیا۔
اگرچہ واقفان حال بتاتے ہیں کہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے لندن میں اپنے اہم ترین قانونی مشیر کو بلواکر ان سے نیب کیسوں پر مشاورت کی جبکہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی اقوام متحدہ اجلاس سے واپسی پروزیراعلی پنجاب شہبازشریف کی موجودگی کے دوران لندن میں ملاقات فیصلہ کن ثابت ہوئی ،وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اہم ترین مشاورت کیلئے لندن گئے تھے ، واقفان حال کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب شہبا ز شریف کا زیادہ اصرار پارٹی کو بچانے کیلئے مختلف تجاویز پر تھا ، پارٹی کی صدارت کا اہم ترین ایشو بھی زیر بحث رہا دلچسپ امر یہ ہے کہ جس دن وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف پارٹی صدارت کے حوالے سے اہم ترین پیغام لے کر لندن جارہے تھے اس روز سینیٹ میں پارٹی صدارت کے حوالے سے اہم ترین قانون سازی کا ایک مرحلہ پایہ تکمیل کو پہنچا تھا سابق وزیراعظم نے سب کی سننے کے بعد وطن واپسی کا اپنا فیصلہ سنایا ، جو وہاں پرموجود سب کیلئے ایک سر پرائز تھا درحقیقت نوازشریف نے بھانپ لیا کہ اگر وہ پارٹی کی کمان عملاًاپنے پاس رکھیں گے تو ہی معاملات آگے بڑھ سکتے ہیں اس کیلئے واپسی لازم تھی سابق وزیراعظم نوازشریف کی سیاسی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے پتے سینے سے لگا کر رکھتے ہیں اور آخری وقت میں ترپ کا پتہ پھینکتے ہیں، درحقیقت نوازشریف کے مخالفین یہ سمجھ رہے تھے کہ شائد پاکستان مسلم لیگ ن کی سیاست مائنس نوازشریف کی طرف بڑھ رہی ہے اور اسی سوچ کے تنا ظر میں وہ اپنا آئندہ کاسیاسی لائحہ عمل تیار کررہے تھے ان کیلئے نوازشریف کی واپسی یقیناایک سیاسی دھچکا ہوسکتی ہے ،درحقیقت نوازشریف کی نااہلیت کے بڑے فیصلے کے بعد بھی ملک کے سیاسی منظر نامے میں’’پہل ‘‘نوازشریف کے پاس ہی تھی جسے انہوں نے بروقت استعمال کرلیا کیونکہ اگر نوازشریف مزید کچھ عرصہ کسی گومگو میں گزار دیتے تو پھر یہ ’’پہل‘‘ان کے پاس نہ رہتی کیونکہ سیاست کوئی جامد چیز نہیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طورپر اپنے مستقبل کے حوالے سے کسی حد تک بے یقینی کا شکار ہونے لگی تھی با وجود اس کے کہ حکومت بھی اسی جماعت کی ہے ، اگرچہ سابق وزیراعظم محمد نوازشریف نے اپنی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی بیماری یا شائد بعض دیگر وجوہ کی بنا پر ڈیڑھ ماہ کا عرصہ ہی ملک سے باہر گزارا لیکن پاکستان مسلم لیگ ن کے کارکنوں اورحامیوں کیلئے ڈیڑھ ماہ کا عرصہ ڈیڑھ صدی سے کم نہ تھا۔
تاہم جو یہ سوچ رہے تھے کہ نوازشریف ناہلی اور نیب مقدمات کی وجہ سے شائد سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلیں وہ غلطی پر تھے کیونکہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا جب جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور حکومت میں نوازشریف جلاوطن ہوئے تھے تو انہوں نے اس وقت بھی جاتے جاتے ایک باغی سیاست دان جاوید ہاشمی کو پارٹی کا صد راس لیے بنا یا تھا کہ وہ خود سیاست سے کنارہ کشی کیلئے ذہنی طور پر تیار نہ تھے،انہیں یقین تھا کہ جب حالات موزوں ہونگے وہ پاکستان کی سیاست میں آکر اپنا کرداراداکریں گے جس کا مطلب اس وقت بھی واضح تھا کہ ان کی جلاوطنی اور سیاست سے دوری دائمی نہیں ،اب جو لوگ مائنس نوازشریف چاہ رہے تھے ان کے امتحان کا وقت شروع ہوگیا ہے کیونکہ جیو اور جینے دو کی بنیاد پر ہی معاملات آگے بڑھ سکتے ہیں ۔